قرآن کہتاہے:

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 01
قوموں کی زندگی کے لئے بنیادی احکام : مختلف زمانوں میں انبیاء کی پے در پے آمد:

ان آیات کے مخاطب تو بنی اسرائیل ہیں لیکن یہ اپنے مفاہیم اور معیار کے اعتبار سے عمومیت کی حامل ہیں۔ اور دوسرے تمام لوگ بھی اس خطاب کا مصداق ہیں۔

قرآن کہتاہے: ہم نے موسی کو آسمانی کتاب  (تورات) دی ( و لقد اتینا موسی الکتاب) اور پھر مسلسل یکے بعد دیگرے انبیاء بھیجے ( وَقَفَّیْنَا مِنْ بَعْدِہِ بِالرُّسُل) ان پیغمبروں میں داود، سلیمان ، یوشع، زکریا اور یحیی شامل ہیں۔

اور عیسی بن مریم کو روشن دلائل دئیے اور روح القدس کے ذریعے اس کی تائید کی  (ِ وَآتَیْنَا عِیسَی ابْنَ مَرْیَمَ الْبَیِّنَاتِ وَاٴَیَّدْنَاہُ بِرُوحِ الْقُدُسِ

لیکن ان عظیم مرسلین نے ان اصلاحی پروگراموں کے با وجود جب بھی کوئی بات تمہارے خواہش نفس کے خلاف کہی تو تم نے ان کے مقابلے میں تکبر اختیار کیا اور تم نے ان کی فرمانبرداری نہیں کی (ِ اٴَفَکُلَّمَا جَائَکُمْ رَسُولٌ بِمَا لاَتَہْوَی اٴَنفُسُکُمْ اسْتَکْبَرْتُم(

یہ ہوا و ہوس کی حاکمیت تم پراس قدر غالب تھی کہ ان مرسلین میں سے کچھ کی تم نے تکذیب کی اور کچھ کو تو قتل ہی کردیا (ْ فَفَرِیقًا کَذَّبْتُمْ وَفَرِیقًا تَقْتُلُونَ )

اگر تمہاری طرف سے یہ تکذیب اور جھٹلانا موثر ثابت ہوتا اور تمہارا مقصد اسی سے پورا ہوجاتا تو تم اسی پر اکتفاء کر لیتے اور خدا کے پیغمبروں کے خون سے اپنے ہاتھ نہ رنگتے۔

گذشتہ آیات کی تفسیر میں (احکام الہی میں تبعیض کے ذیل میں ہم یہ حقیقت بیان کرچکے ہیں کہ ایمان کا معیار اور حق کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کے مواقع تو وہ ہیں جو میلان طبع اور خواہش نفس کے خلاف ہوں ورنہ تو ہر ہوا پرست اور بے ایمان بھی ان احکام کے سامنے ہم آہنگی اور تسلیم کا مظاہرہ کرتاہے جو اس کے میلان طبع اور فائدے کے مطابق ہیں۔

اس آیت سے ضمنا یہ بھی واضح ہوتاہے کہ رہبران الہی اپنی تبلیغ رسالت کی راہ میں ہوا پرستوں کی مخالفت کی پرواہ نہیں کرتے تھے اور ایسا ہی ہونا چاہئیے کیونکہ صحیح رہبری اس کے علاوہ کچھ اور ہی  نہیں اگر پیغمبر چاہیں کہ خود کو لوگوں کی آزادانہ ہوا و ہوس کے مطابق چلائیں تو پھر ان کا کام کے پیچھے لگنا ہوا نہ کہ رہبری کرنا۔

دل کے اندھے، بے ایمان لوگ ان خدائی رہبروں کی دعوت جس کا مقصد سعادت بشر کے علاوہ کچھ نہ تھا کا استقبال کرنے کہ بجائے اس قدر مزاحمت کرتے تھے کہ ان میں سے بعض کو قتل ہی کردیتے تھے۔

بعد کی آیت کہتی ہے کہ یہ لوگ دعوت انبیاء یا آپ کی دعوت کے جواب میں تمسخر اور مذاق کے طور پر کہتے ہیں ہمارے دل تو غلافوں میں لپٹے ہوئے ہیں ان باتوں میں سے کچھ سمجھ نہیں پاتے  (وقالو قلوبنا غلف)

اور ہے ایسا ہی۔ کیونکہ خدانے ان کے کفر کی وجہ سے ان پر لعنت کی ہے اور انہیں اپنی رحمت سے دور کردیا ہے ا ور اسی بناء پردہ کسی بات کو سمجھ نہیں پاتے) اور ان میں بہت تھوڑے ایمان لاتے ہیں ( بَلْ لَعَنَہُمْ اللهُ بِکُفْرِہِمْ فَقَلِیلًا مَا یُؤْمِنُون

ہوسکتاہے کہ اوپر والا جملہ ان یہودیوں کے بارے میں ہوجنہوں نے پیغمبران خدا کی تکذیب کی اانہیں قتل کیا اور یہ بھی احتمال ہے کہ یہ ان یہودیوں کے متعلق ہو جو پیغمبر خدا کے ہم عصر تھے۔

 آنحضرت کی گفتگو کے جواب میں وہ انتہائی ڈھٹالی اور عدم توجہی کا مظاہرہ کرتے تھے۔ تا ہم یہ آیت ہر صورت میں اس حقیقت کو بیان کرتی ہے کہ انسان ہوا و ہوس کی پیروی کے زیر اثر اس طرح راندہ درگاہ خدا ہوجاتاہے اور اس کے دل پر ایسے پردے پڑجاتے ہیں کہ اس راستے میں اسے حقیقت بہت کم نظر آتی ہے۔

 

قوموں کی زندگی کے لئے بنیادی احکام : مختلف زمانوں میں انبیاء کی پے در پے آمد:
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma