انسان زمین میں خدا کا نمائندہ

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 01
(۳)عظمت کا ئنات: فرشتے امتحان کے سانچے میں

گذشتہ آیات میں پڑھ چکے ہیں کہ خدا نے زمین کی تمام نعمتیں انسان کے لئے پیدا کی ہیں اور ان آیات میں رسمی طور پر انسان کی رہبری اور خلا فت کی تشریع کی گئی ہے اور اس روحانی حیثیت کو واضح کیا گیا ہے جس کی وجہ سے وہ ان تمام احسانات کے لائق تھا
ان آیات میں آدم ( پہلے انسان ) کی خلقت کی کیفیت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ،اور آیات کے اس سلسلہ میں جو آیہ ۳۰ سے شروع ہو کر ۳۹ تک پہنچتا ہے تین بنیادی مسائل کو بیان کیا گیا ہے ؛
(۱) پروردگار عالم کا فرشتوں کو زمین میں انسان کی خلافت و سرپرستی کے بارے میں خبر دینا اور وہ گفتگو جو فرشتوں نے اس سلسلے میں خدا سے کی ۔
(۲)پہلے انسان کے لئے فرشتوں کو خضوع و تعظیم کا حکم جس کا ذکر مختلف مناسبات سے قرآن کی مختلف آیات میں کیا گیا ہے ۔
(۳) بہشت میں آدم کی کیفیت اور رہنے کی تشریع ، وہ حوادث جو جنت سے ان کے نکلنے کا سبب بنے ، آدم کا توبہ کرنا اور پھر آدم اور اولاد آدم کا زمین میں آکر آباد ہونا ۔
زیر بحث آیات ان میں سے پہلی منزل کی بات کرتی ہیں ۔ خدا کی خواہش یہ تھی کہ روئے زمین پر ایک ایسا موجود خلق فرمائے جو اس کا نمائندہ ہو، اس کی صفات صفات خداوندی کاپرتو ہوں اور اس کا مرتبہ و مقام فرشتوںسے بالا تر ہو ،۔ خدا کی خو اہش اور ارادہ یہ تھا کہ ساری زمین اور اس کی نعمتیں ، تمام قوتیں سب خزانے ، تمام کانیں اور سارے وسائل بھی اس کے سپرد کردیئے جائیں ۔ ضروری ہے کہ ایسا شخص عقل وشعور ، ادراک کے وافر حصے استعداد کا حامل ہو جس کی بناء پر موجودات ارضی کی رہبری اور پیشوائی کا منصب سنبھال سکے۔
یہ وجہ ہے کہ پہلی آیت کہتی ہے یاد کریں اس وقت کو جب آپ کے پروردگار نے فرشتوں سے کہا کہ میں روئے زمین پر جانشین مقرر کرنے والا ہوں ( واذ قال ربک للملٰکة انی جاعل فی الارض خلیفة
”خلیفة کے معنی ہیں جانشین ۔ لیکن یہاں اس سے کس کا جانشین مراد ہے اور کس چیز میں جانشین ہے ، مفسرین نے اس کی مختلف تفسیریں کی ہیں :
بعض کہتے ہیں انسان یا اور موجودات کا جانشین جو زمین میں پہلے زندگی گذارتے تھے ۔
بعض نے اس سے یہ سمجھا ہے کہ انسان کی دوسری نسلیں ایک دوسرے کا جانشین ہوں گی ۔
لیکن انصاف یہ ہے جسے بہت سے محققین نے بھی قبول کیا ہے کہ اس سے مراد خلافت الہی اور زمین میں خدا کی نمائندگی ہے کیونکہ اس کے بعد فرشتوں کا سوال اور ان کا کہنا کہ ممکن ہے نسل آدم مبداء فساد و خونریزی ہو جب کہ ہم تیری تسبیح و تقدیس کرتے ہیں اسی معنی سے مناسبت رکھتا ہے کیونکہ زمیں میں خداکی نمائندگی ان کاموں کے ساتھ سازگار نہیں ۔
اسی طرح آدم کو ”اسماء“ کی تعلیم دینا جس کی تفصیل بعد میں آئے گی اس دعوے پر ایک او رواضح قرینہ ہے اور آدم کے سامنے سجدہ بھی اسی مقصد کا شاہد ہے۔
بہر حال خد ا چاہتا تھا کہ ایسے وجود کو پیدا کرے جو عالم وجود کا گلدستہ ہو اور خلافت الہی کے مقام کی اہلیت رکھتا ہو اور زمین میں اللہ کا نمائندہ ہو ۔
ان آیات کی تفسیر میں ایک حدیث جو امام صادق سے مروی ہے وہ بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ فرشتے مقام آدم پہچاننے کے بعد سمجھ گئے کہ آدم اور ان کی اولاد زیادہ حقدار ہیں کہ وہ روئے زمین میں خلفاء الہی ہوں اور مخلوق پر ان کی حجت ہوں ۔۱
زیر بحث آیت مزید بیان کرتی ہے کہ فرشتوں نے حقیقت کا ادراک کرنے کے لئے نہ کہ اعتراض کی غرض سے عرض کیا : کیا زمین میں اسے (جانشین ) قرار دے گا جو فساد کرے گا اور خون بہائے گا (قالو اتجعل فیھا من یفسد فیھا ویسفک الدماء) جبکہ ہم تیری عبادت کرتے ہیں ، تیری تسبیح و حمد کرتے ہیں اور جس چیز کی تیری ذات لائق نہیں اس سے تجھے پاک سمجھتے ہیں ( ونحن نسبح بحمدک ونقدس لک
مگر یہاں خدا نے انہیں سربستہ و مجمل جواب دیا جس کی وضاحت کے بعد کے مراحل میں آشکار ہوئی فرمایا : میں ایسی چیزوں کو جانتا ہوں جنہیں تم نہیں جانتے ( قال انی اعلم مالا تعلمون
جیسے کہ ان کی گفتگو سے معلوم ہوتا ہے کہ فرشتے سمجھ گئے تھے کہ یہ انسان سربراہی نہیں بلکہ فساد کرے گا ، خون بہائے گا اور خرابیاں کرے گا لیکن دیکھنا یہ ہے کہ آخر وہ کس طرح سمجھے تھے۔
بعض کہتے ہیں خدا نے انسان کے آئندہ حالات بطور اجمال انہیں بتائے تھے جب کہ بعض کا احتمال ہے کہ ملائکہ اس مطلب کو لفظ فی الارض (زمین میں ) سے سمجھ گئے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے انسان مٹی سے پیدا ہوگا اور مادہ اپنی محدودیت کی وجہ سے طبعا مرکز نزاع و تزاحم ہے کیونکہ محدود مادی زمانہ انسانوں کی طبعیت کو سیر و سیراب نہیں کرسکتا جو زیادہ کی طلب رکھتی ہے یہاں تک کہ اگر ساری دنیا ایک فرد کو دے دی جائے تو ممکن ہے وہ پھر بھی سیر نہ ہو اگر کافی احساس ذمہ داری نہ ہو تو یہ کیفیت فساد اور خونریزی کا سبب بنتی ہے۔
بعض دوسر ے مفسرین معتقد ہیں کہ فرشتوں کی پیشین گوئی اس وجہ سے تھی ک آدم روئے زمین کی پہلی مخلوق نہیں تھا بلکہ اس سے قبل بھی دیگر مخلوقات تھیں جنہوں نے نزاع ، جھگڑا اور خونریزی کی تھی ۔ان سے پہلے کی مخلوق کی بری فائل نسل آدم کے بارے میں فرشتوں کی بد گمانی کا باعث بنی۔
یہ تین تفاسیر ایک دوسرے سے کچھ ز یاد ہ اختلاف نہیں رکھتیں یعنی ممکن ہے یہ تمام امور فرشتوں کی اس توجہ کا سبب بنے ہوں اور در اصل یہ ایک حقیقت بھی تھی جسے انہوں نے بیان کیا تھا یہ وجہ ہے کہ خدا نے جواب میں کہیں بھی اس کا انکار نہیں کیا بلکہ اس حقیقت کے ساتھ ساتھ ایسی مزید حقیقتیں انسان اوراس کے مقام کے بارے میں موجود ہیں جن سے فرشتے آگاہ نہیں تھے
۔فرشتے سمھتے تھے اگر مقصد عبودیت اوربندگی ہے تو ہم اس کے مصداق کامل ہیں ہمیشہ عبادت میں ڈوبے رہتے ہیں لہٰذاسب سے زیادہ ہم خلافت کے لائق ہیں لیکن وہ اس سے بے خبر تھے کہ ان کے وجود میں شہوت و غضب اور قسم قسم کی خواہشات موجود نہیں جب کہ انسان کو میلانات و شہوات نے گھیر رکھا ہے اور شیطان ہر طرف سے اسے وسوسے ڈالتا رہتا ہے لہذا ان کی عبادت انسان کی عبادت سے بہت زیادہ تفاوت رکھتی ہے ۔ کہاں اطاعت اور فرمانبرداری ایک طوفان زدہ کی اور کہاں عبادت ان ساحل نشینوں کی جو مطمئن ، خالی ہاتھ اور سبک بار ہیں ۔
انہیں کب معلوم تھا کہ آدم کی نسل سے محمد ، ابراہیم ،نوح ، موسیٰ اور عیسی ٰ علیھم السلام جیسے انبیاء اور ائمہ اہل بیت جیسے امام اور صالح بندے اور جانباز شہید مرد اور عورتیں عرصہ وجود میں قدم رکھیں گے جو پروانہ وار اپنے آپ کو خدا کی راہ میںپیش کریں گے ۔ ایسے افراد جن کے غور و فکر کی ایک گھڑی فرشتون کی سالہا سال کی عبادت کے برابر ہے۔
یہ بات قابل توجہ ہے کہ فرشتوں نے اپنی صفات کے بارے میں تین چیزوں کا سہارا لیا تسبیح ، حمد اور تقدیس ۔ اس میں شک نہیں کہ تسبیح اور حمد کے معنی ہیں خدا کو ہر قسم کے نقس سے پاک اور ہر قسم کے کمال کا اہل سمجھنا لیکن کہ تقدیس سے کیا مقصود ہے۔
بعض نے تقدیس کے معنی ” پروردگار کو ہر قسم کے نقصان سے پاک شمار کرنا “ بیان کئے ہیں جو کہ در اصل تسبیح کے معنی کی تاکید ہے ۔
لیکن بعض معتقد ہیں کہ تقدیس مادہ ” قدس “ سے ہے جس کے معنی ہیں روئے زمین کو فاسد اور مفسد لوگوں سے پاک کرنا یا اپنے آپ کو ہر قسم کی بری اور مزموم صفات سے پاک کرنا اور جسم وجان کو خدا کے لئے پاک کرنا لفظ” لک “کو جملہ”نقدس لک “ میں اس مقصود کے لئے شاہد قرار دیتے ہیں کیونکہ فرشتوں نے یہ نہیں کہا کہ ”نقدسک “ یعنی ہم تجھے پاک سمجھیں گے بلکہ انہوں نے کہا ”نقدس لک “ یعنی تیرے لئے معاشرے کو پاک کریں گے ۔
در حقیقت وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اگر ہدف اور غرض ، اطاعت اور بندگی ہے تو ہم فرمانبردار ہیں اور اگر عبادت ہے تو ہم ہر وقت اس میں مشغول ہیں اور اگر اپنے آپ کو پاک رکھنا یا صفحہ ارضی کو پاک رکھنا ہے تو ہم ایسا کریں گے جب کہ یہ مادی انسان خود بھی فاسد ہے اور روئے زمین کو بھی فاسد کردے گا ۔
حقائق کو تفصیل سے ان کے سامنے واضح کرنے کے لئے خدا وندے عالم نے ان کی آزمائش کے لئے اقدام کیا تاکہ وہ خود اعتراف کریں کہ ان کے اور اولاد آدم کے درمیان زمین وآسمان کا فرق ہے ۔


 

۱معانی الاخبار بحوالہ المیزان ، جلد ۱ ، ص ۱۲۱ ۔ اس حدیث سے اگرچہ زیادہ تر انبیاء اور ائمہ کا مقام ظاہر ہوتا ہے لیکن معلوم ہے کہ یہ انہی میں منحصر نہیں وہ تو اس موضوع کے اتم و اکمل مصداق ہیں ۔

 

(۳)عظمت کا ئنات: فرشتے امتحان کے سانچے میں
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma