جنگ کیوں اور کس سے

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 01
طبیعی اور فطری میزان اور پیمانے 1. ابتدائی جهاد آزادی

اس آیت میں تین بنیادی نکات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو جنگ کے موقع کی اسلامی منطق کو مکمل طور پر واضح کرتے ہیں:
۱۔ جملہ
و قاتلوا فی سبیل اللہ (خدا کی راہ میں جنگ کرو) اسلامی جنگوں کے اصلی مقصد اور ہدف کو واضح کرتا ہے۔ انتقام ، جاہ طلبی، حصول اقتدار ، کشور گشایی، مال غنیمت اور دو سروں کی زمینیوں پر قبضہ ان سب مقاصد کے لیے جنگ کرنا اسلام کی نگاہ میں مذموم ہے۔ صرف راہ خدا میں او رقوانین الہی کے پھیلا نے کے لیے جہاد کر نا صحیح ہے یعنی حق، عدالت اور توحید کے لیے اور ظلم ، فساد، انحراف اور کجروی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے جہاد درست ہے۔
۲۔ جملہ
الذین یقاتلونکم (ان سے لڑ و جو تم سے جنگ کریں ) صراحت کر تا ہے کہ کن لوگوں سے جنگ کی جا ئے جب تک مد مقابل ہتھیار نہ اٹھا ئے اور جنگ کی لیے کھڑا نہ ہو جا ئے مسلمانوں کو پیش قدمی نہیں کرنا چا ہیئے (سوائے چند استثنایی مواقع پر جن کی بار ے میں دیگر آیات جہاد میں اشارہ کیا جا ئے گا) ۔
اس آیت سے ضمنا یہ بھی معلوم ہو تا ہے کہ فوجیوں کے علاوہ دیگر اشخاص (خصوصا عورتوں اور بچوں ) پر حملہ نہ کیا جا ئے کیونکہ وہ جنگ کے لیے نہیں اٹھے لہذا نہیں محفوظ و مامون رہنا چاہئیے۔
یہی وجہ ہے کہ اسلام کی عظیم پیشوا حضرت علی ابن ابیطالب علیہ السلام اپنی فوج کو یہ حکم دیتے ہو ئے نظر آتے ہیں:
لا تقاتلو ہم حتی یبدؤکم فانکم بحمد اللہ علی حجة و ترککم ایا ہم حجة اخری لکم ۔۱۔
جب تک وہ حملہ نہ کریں تم جنگ کی ابتداء نہ کرنا کیونکہ تم حق کے پیروکار ہو اوران کے خلاف تمہارے پاس حجت و دلیل موجود ہے ۔ نیز جنگ کی ابتداء نہ کرنا تمہاری حقانیت کی ایک اور دلیل ہے۔
۳۔ جملہ و
لا تعتدوا (حد سے تجاوز نکرو)
اس بات کا تعین ہو تا ہے کہ کب تک جنگ کی جا ئے ۔ اسلام میں جنگ خدا کے لیے اور اس کی راہ میں ہوتی ہے اور راہ خداد میں کسی قسم تعدی اور تجاوز نہیں ہونا چا ہئیے اسی لئے دور حاضر کی جنگوں کے برعکس اسلام جنگی امورکے با ے میں اخلاقی اصولوں کی پاسداری کی بہت تلقین کرتا ہے ۔ مثلا جو لوگ ہتھیار زمین پر رکھ دیں یا جو جنگ کر نے کی قوت کھوبیٹھیں یا جو اصولی طور پر جنگ کر نے کی قدرت نہیں رکھتے ۔ جیسے بوڑ ھے ، عورتیں اور بچے ان پر حملہ آور نہیں ہونا چا ہیئے باغوں اور درختوں کوتباہ و بر باد نہیں کرنا چا ہیئے اور دشمن کے پینے کے پانیوں کو زہر آلود کرنے کے لیے زہر یلا مواد استعمال نہیں کرنا چا ہیئے (یعنی کیمیاوی اور جرا ثیمی ہتھ کنڈوں کے استعمال کے اجازت نہیں ہے ) ۔ حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں ۔
فاذا کانت الہزیمة باذن اللہ فلا تقتلوا مدبرا و لا تصیبوا معورا و لا تجہزوا علی جریح و لا تہیجوا النساء باذی و ان شتمن اعراضکم و سیین امرائکم ۔(2
جب خدا کی مدد سے دشمن کے لشکر کو شکست د ے دو تو جو لوگ بھاگ کھڑ ے ہوں انہیں قتل نہ کرو اور زخمیوں کو نہ مارو۔ عورتوں کو اذیت و تکلیف نہ پہنچاؤ اگر چہ وہ تمہیں برا بھلا کہیں اور تمہار سرداروں کو گالیاں بکیں ۔
اس آیت کی تفسیر میں جو کچھ بیان کیا گیا ہے اس سے جہاد ہا ئے اسلامی کے بار ے میں دشمنان اسلام کے بے بنیاد بی شمار اتہامات اور بہتانوں کی حقیقت واضح ہو جاتی ہے ۔ قرآن نے صراحت کے ساتھ مقاصد جنگ جن سے جنگ کرنا ہے اور جہاد کے مختلف کو ائف و حالات کے بار ے میں وضاحت کردی ہے ۔ اس سے مخالفین کے اعتراضات کا جواب واضح ہو جاتا ہے ۔ دیگر آیات جہاد میں انشاء اللہ مزید تشریح و توضیح آئے گی۔
۱۹۱۔
وَاقْتُلُوہُمْ حَیْثُ ثَقِفْتُمُوہُمْ وَاٴَخْرِجُوہُمْ مِنْ حَیْثُ اٴَخْرَجُوکُمْ وَالْفِتْنَةُ اٴَشَدُّ مِنْ الْقَتْلِ وَلاَتُقَاتِلُوہُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتَّی یُقَاتِلُوکُمْ فِیہِ فَإِنْ قَاتَلُوکُمْ فَاقْتُلُوہُمْ کَذَلِکَ جَزَاءُ الْکَافِرِینَ
۱۹۲۔
فَإِنْ انتَہَوْا فَإِنَّ اللهَ غَفُورٌ رَحِیمٌ
ترجمہ
۱۹۱۔ او رانہیں ( بت پرستوں کو جو کسی جرم و تجاوز سے منہ نہیں موڑتے ) جہاں پاؤ قتل کرد و اور جہاں (مکہ ) سے انہوں نے تمہیں نکال دیا ہے۔ انہیں نکال با ہر کرو اور فتنہ (و بت پرستی ) قتل سے بھی بدتر ہے اور ان سے مسجد حرام کے پاس جنگ نہ کرو جب تک وہ وہاں پر تمہار ے ساتھ جنگ نہ کریں پس اگر وہ تم سے جنگ کریں تو انہےں قتل کرو۔ یہی ہے کافروں کی جزاء
۱۹۲۔ اور اگروہ رک جائیں تو خدا بخشنے والا مہربان ہے۔
تفسیر
آیت ۱۹۰ تا ۱۹۵ میں خدا تعالی نے ان کفار مکہ کے با رے میں مسلمانوں کی ذمہ واری کو واضح کیا ہے جنہوں نے مسلمانوں کو گھر سے بے گھر کیا ، انہیں ہر قسم کے اذیت و آزار پہنچائی اور انہیں اسلام سے برگشتہ کرنے کے لیے ہزاروں جتن کئے ۔
زیر نظر پہلی آیت میں اس حکم کے دائر ے کو وسعت دیتے ہو ئے مسلمانوں کو اجازت دی گئی ہے کہ ان دشمنوں کو جہاں بھی آمادہ پیکار دیکھو قتل کرڈالواور جیسے انہوں نے اپنے پوری قوت سے مسلمانوں کو مکہ سے با ہر نکالنے اور آوارہ منزل کرنے کے لیے اقدام کئے ہیں ۔ ان سے و ہی سلوک کرو اور انہیں مکہ سے با ہر نکال دو۔
و الفتنة اشد من القتل
اور فتنہ قتل سے بد تر ہے
لغت کے لحاظ سے (فتنہ) کا ایک وسیع معنی ہے۔ اس کے مفہوم میں ہر قسم کا مکرر و فریب، فساد، شرک گناہ اور رسوائی شامل ہے۔ اس آیت میں اس سے مراد و ہی شرک اور بت پرستی ہے جو بہت سے اجتماعی مفاسد، اختلاف ، پراکندگی، گناہ و فساد اور خونریزی کا سرچشمہ ہے۔
اس مفھوم کی شاہد ایک اور آیت ہے۔
قاتلوہم حتی لا تکون فتنہ و یکون الدین للہ
ان سے جنگ کرو تا کہ فتنہ جڑسے ختم ہو جائے اور سب واحد و یگانہ پرست ہو جائیں
اس بناپر (
الفتنہ اسد من القتل) والے جملے کا معنی یہ ہوگا کہ بت پرستی کا مذہب اور اس سے پیدا ہو نے والے مکہ میں مروج بہت سے انفرادی و اجتماعی فسادات قتل کر نے اور ماردینے سے بھی سخت تر ہے کیونکہ ان امور نے خدا کے امن والے حرم کو آلودہ کر رکھا ہے ۔ اس لیے خونریزی کے خوف سے شرک و بت پرستی اور اس سے پیدا ہونے والے فتنہ و فساد کی ریشہ کنی، ہونا چاہیئے۔
اس کے بعد مزید فرمایا کہ مسلمانوں کو مسجد الحرام اکا احترام کرنا چا ہئیے۔اس جگہ کااحترام جسے اللہ تعالی نے حضرت ابراہیم کی دخواست کے مطابق جائے امن قرار دیا ہے ۔ جب تک وہاں خود دشمن ہتھیار نہ اٹھائے اس وقت تک ان سے جنگ کرنے اور قتل کرنے کی اجازت نہیں لیکن اگر وہ مسجد الحرام کا احترام نہ کریں تو پھر مسلمانوں کو حق پہچتا ہے کہ وہ اپنے دفاع کے لیے مسجد الحرام کے اندر بھی جنگ کرسکیں ۔ البتہ پیش دستی نہیں کر سکتے اور نہ وہ یہ حق رکھتے ہیں کہ خدا نے جسے جائے امن قرار دیا ہے اس کا احترام پامال کریں۔
آیت کے آخر میں تصریح کی گئی ہیں یہ کفار کی سزا ہے کہ اگر وہ کسی مقدس جگہ پر تجاوز روا ر کھیں تو انہیں سخت اور منہ توڑ جواب دیا جائے تا کہ وہ حرم کے تقدس اور احترام سے غلط فائدہ نہ اٹھا سکیں ۔
فان انتہوا فان اللہ غفور رحیم
اگر وہ رک جائیں تو خدا پردہ پوشی کرنے والا مہربان ہے
اس آیت میں ارشاد ہوتا ہے کہ کفر سے دستبردار ہونے اور بت پرستی اور شرک کے مذہب کو پس پشت ڈال دینے سے خدا ان کی توبہ قبول کرلے گا اور وہ مسلمانوں کے بھائی ہوجائیں گے یہاں تک کہ وہ ان سزاوٴں اور تاوان سے بھی صرف نظر کر لے گا جو مجرموں کے لیے ہوتا ہے۔
۱۹۳۔
وَقَاتِلُوہُمْ حَتَّی لاَتَکُونَ فِتْنَةٌ وَیَکُونَ الدِّینُ لِلَّہِ فَإِنْ انتَہَوْا فَلاَعُدْوَانَ إِلاَّ عَلَی الظَّالِمِینَ
ترجمہ
۱۹۳۔اور ان سے جنگ کرو یہاں تک کہ فتنہ (اور بت پرستی اور لوگوں سے سلب آزادی کی حالت ) باقی نہ رہے اور دین خدا کے لیے مخصوص ہوجائے ۔ پس اگر وہ (اپنی غلط روش سے) دستبردار ہو جائیں (توان سے مزاحمت نہ کرو کیونکہ) تعدی اور تجاوز ظالموں کے علاوہ کسی کا شیوہ نہیں ہے۔
تفسیر :
اس آیت میں اسلامی جہاد کا مقصد بیان کیا گیا ہے۔ آیت کے مطابق جنگ کا ہدف وہ اغراض نہیں ہیں جو عموما جنگوںمیں لوگوں کی ہوتی ہیں۔ اسلامی جہاد نہ زمین پر فرماں روائی اور کشور گشائی کے لیے ہے اور نہ غنائم پر قبضہ کر نے کے لیے
اس کا مقصد اپنے مال کی فروخت کے لیے منڈیوں کا حصول ہے نہ خام مال پر قبضہ اور نہ ہی یہ جہاد ایک نسل کی دو سری نسل پر فوقیت قائم کر نے کے لیے ہے بلکہ اس کا مقصد ہے فقط پروردگار کی خوشنودی کا حصول ،اجتماعی عدالت کا قیام، ان لوگوں کی حمایت جو مکرر و فریب اور گمراہی کی رد میں ہیں ، انسانی معاشر ے سے شرک اور بت پرستی کی بساط الٹنا اور احکام الہی کا نفاذ ۔ اس بناء پر جیسا کہ مشاہدہ بتاتا ہے کہ اسلامی جنگ اس لیے ہوتی ہے کہ انسانی معاشرے میں فتنہ باقی نہ رہے اور توحید پرستی کا دین تمام انسانی معاشروں میں رواج پاجائے ۔
آیت کے ذیل میں مزید ارشاد ہو تا ہے کہ لوٹ آنے اور کفر ، فساد اور بت پرستی سے دست بردار ہو جانے کی صورت میں مسلمانوں کو چا ہئیے کہ وہ ان سے متعرض نہ ہوں اور گذشتہ واقعات کا انتقام لینے کے در پے نہ ہوں اور ماضی کو بھول جائیں کیونکہ تعرض اور تجاوز فقط ستمگر اور ظالم لوگ ہی کیا کر تے ہیں۔
اسلامی جہادوں کو حقیقت میں تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:


 

۱۔ نہج البلاغة عبدہ، مطبوعہ بیروت ، ص ۴۵۳
2۔نہج البلاغة، عبدہ ، ص۴۵۳ مطبوعہ بیروت 

 

 

طبیعی اور فطری میزان اور پیمانے 1. ابتدائی جهاد آزادی
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma