جبرئیل و میکائیل

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 01
بہانہ ساز قوم: پیمان شکن یہودی

جبرئیل کا نام تین مرتبہ اور میکائیلل کا نام ایک مرتبہ اسی مقام پر آیاہے۔ انہی آیات سے اجمالا معلوم ہوتاہے کہ دونوں فرشتے بزرگ اور مقرب الہی ہیں۔ مسلمانوں کی عمومی تحریروں میں جبریل (ہمزہ کے ساتھ اور میکال (ہمزہ) اور (یا) کے ساتھ آتاہے لیکن متن قرآن میں جبریل اور میکال ہے۔

ایک گروہ کا نظریہ سے کہ جبریل عبرانی زبان کا لفظ ہے اور اس کی اصل جبرئیل ہے جس کا معنی ہے مرد خدا یا (قوت خدا) (جبر کا معنی قوت یا مرد ہے اورئیل کا معنی خداہے(

محل بحث آیات کے مطابق جبرئیل پیغمبر کے لئے وحی کا قاصد تھا اور آپ کے قلب مبارک پر قرآن نازل کرنے والاتھا جب کہ سورہ نحل کی آیہ ۱۰۲ کے مطابق روح القدس وحی لا تا تھا اور سورہ شعراء ، آیہ ۱۹۱ میں ہے کہ روح الامین تدریجا قرآن پیغمبر اکرم پر لاتارہا لیکن جیسا کہ مفسرین نے تصریح کی  ہے ر وح القدس اور روح الامین سے مراد جبرئیل ہی ہیں۔ ہمارے  پیش نظر ایسی احادیث ہیں جن کے مطابق جبرئیل مختلف شکلوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر نازل ہوتے رہے اور مدینہ میں جبرئیل زیادہ تر وحی قلبی کی شکل میں آنحضرت کے سامنے ظاہر ہوتے تھے جو ایک خوبصورت جوان تھا۔

سورہ نجم سے ظاہر ہوتاہے کہ پیغمبر اکرم نے جبرئیل کو دو مرتبہ (اس کی اصل شکل میں) دیکھا ہے۔

اسلامی کتب میں جن چار فرشتوں کا عموما مقرب بارگاہ الہی شمار کیاگیاہے وہ جبرئیل، میکائیل، اسرافیل اور عزرائیل ہیں۔ جن میں سے جبرئیل بلند مرتبہ ہیں۔

یہودیوں کی کتب میں بھی جبرئیل اور میکائیل کے متعلق گفتگو ہوئی سے۔ منجملہ ان کی کتاب دانیال میں جبرائیل کو شیطانوں کے سر براہ کو مغلوب کرنے والا اور میکائیل کو قوم اسرائیل کا حامی کہا گیا ہے لیکن بعض کے بقول کوئی ایسی چیز جو جبرئیل کی یہودیوں سے دشمنی پر دلالت کرے دسترس میں نہیں آئی اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ پیغمبر اسلام کے زمانے میں یہودیوں کا جبرئیل سے اظہار دشمنی ایک بہانہ تھا تا کہ اس کے ذریعے اسلام قبول کرنے سے بچ جائیں یہا ںتک کہ ان کی مذہبی کتب میں بھی اس کی کوئی بنیاد موجود نہیں۔

۹۹-وَلَقَدْ اٴَنزَلْنَا إِلَیْکَ آیَاتٍ بَیِّنَاتٍ وَمَا یَکْفُرُ بِہَا إِلاَّ الْفَاسِقُونَ

۱۰۰وَکُلَّمَا عَاہَدُوا عَہْدًا نَبَذَہُ فَرِیقٌ مِنْہُمْ بَلْ اٴَکْثَرُہُمْ لاَیُؤْمِنُونَ

۱۰۱۔وَلَمَّا جَائَہُمْ رَسُولٌ مِنْ عِنْدِ اللهِ مُصَدِّقٌ لِمَا مَعَہُمْ نَبَذَ فَرِیقٌ مِنْ الَّذِینَ اٴُوتُوا الْکِتَابَ نَبَذَ فَرِیقٌ مِنْ الَّذِینَ اٴُوتُوا الْکِتَابَ کِتَابَ اللهِ وَرَاءَ ظُہُورِہِمْ کَاٴَنَّہُمْ لاَیَعْلَمُونَ

ترجمہ

۹۹۔ تیرے لئے ہم نے روشن نشانیاں بھیجیں اور سوائے فاسقین کے کوئی ان کا انکار نہیں کرسکتا۔

۱۰۰۔ اور کیا جب بھی (یہودی) کوئی پیمان (خدا و رسول سے) باندھتے ان میں سے ایک گروہ اسے پس پشت نہیں ڈال دیتاتھا اور اس کی مخالفت نہیں کرتاتھا) اور ان میں سے اکثر ایمان نہیں لاتے۔

۱۰۱۔   اور جب بھی خدا کی طرف سے کوئی رسول ان کی طرف آیا جب کہ وہ ان نشانیوں کے مطابق بھی تھا جو ان کے پاس تھیں اور ان میں سے ایک جماعت نے جو عامل کتاب (اور عالم ) لوگوں پر مشتمل تھی خدا کی کتاب کو ایسے پس پشت ڈال دیا گو یا وہ اس سے بالکل بے خبر تھے۔

شان نزول

مندرجہ بالا پہلی آیت کے سلسلے میں ابن عباس سے شان نزول منقول ہے کہ ابن صوریانے ڈھٹائی اور عناد کی بناء پر پیغمبر اسلام سے کہا:

تمہاری لائی ہوئی کوئی چیز ہماری سمجھ میں نہیں آتی اور خدا نے تم پر کوئی واضح نشانی نازل نہیں کی کہ ہم تمہاری اتباع کریں۔

اس پر زیر نظر آیت نازل ہوئی اور اسے صراحت سے جواب دیا۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ شان نزول آیات کے مفاہیم کو کبھی محدود نہیں کرسکتا اور ان کے کلیت و عمومیت میں کمی نہیں ہوتی اگر چہ ان کے آغاز کا سبب وہی ہوتاتھا۔

 

بہانہ ساز قوم: پیمان شکن یہودی
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma