یہ آیت اشخاص کی اجتماعی قدر وقیمت

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 01
یہ آیت در حقیقت گذشتہ” و اللہ غنی حلیم “

یہ آیت اشخاص کی اجتماعی قدر وقیمت اور وقعت و حیثیت کے بارے میں اسلام کی منطق واضح کرتی ہے ۔ جو لوگ انسانیت کے سرمائے کی حفاظت کی کوشش کرتے ہیں --،حاجت مندوں سے اچھی گفتگو کرتے ہیں ، کبھی ان کی ضروری راہنمائی بھی کرتے ہیں اور انکے راز کبھی فاش نہیں کرتے وہ ان کے مقابلے میں اسلام کی نظر میں برتر و بالا ہیں جو خود پرست ہیں ، کوتاہ نظر ہیں ، تھوڑی سی مدد کرکے عزت دار اور آبرو مند لوگوں کو زبان کے ہزار چرکے لگاتے ہیں اور ان کی شخصیت مجروح کرتے ہیں ۔ جیسا کہ ہم اشارہ کرچکے ہیں ایسے افراد درحقیقت جتنا فائدہ پہنچاتے ہیں اس سے زیادہ نقصان دہ اور مضر ہیںاور اگر کچھ سرمایہ دیتے ہیں تو بہت بڑا سرمایہ برباد کر دیتے ہیں ۔
جو کچھ اوپر کہا جا چکا ہے اس سے واضح ہوتا ہے ” قول معروف “ایک وسیع مفہوم کا حامل ہے ۔ ہر قسم کی اچھی بات دلجوئی اور رہنمائی اس کے مفہوم میں شامل ہے ۔
” مغفرة “ کا مفہوم ہے ، حاجت مندوں کی سختی کے جواب میں عفو و در گزر کرنا کیونکہ مصائب و آلام کے ہجوم کی وجہ سے کبھی ان کا پیمانہ صبر لبریز بھی ہوجاتا ہے اور بعض اوقات وہ نہ چاہتے ہوئے بھی سخت باتیں کر جاتے ہیں
یہ لوگ در اصل اپنا حق غصب کرنے والے ظالم معاشرے سے اس طرح انتقام لینا چاہتے ہیں اور معاشرے اورصاحبا ن استطاعت ان کی محرومیت کی جو کم از کم تلافی کرسکتے ہیں ۔یہ ہے کہ ان کی باتیں تحمل سے سنیں کیونکہ یہ ان کے اندر کی لگی ہوئی آگ کی چنگاریاں ہیں ۔انہیں نرمی اور محبت سے خاموش کرنا چاہیے ۔واضح ہے کہ ان کی سختی کو برداشت کرنا ، ان کی سخت نکتہ چینی پر درگزر کرنا اور ان کے دکھ درد کی گرہوں کو ڈھیلا کرنا ایک اسلامی حکم ہے اور یہ ہدایت اسلامی حکم کی اہمیت کو مزید روشن کردیتی ہے ۔
بعض نے یہاں ” مغفرة “ کو اس کے اصلی معنی میں لیا ہے ۔اس کا اصل معنی ہے ”پردہ پوشی “ اس مفہوم میں اس لفط کو حاجت مندوں کے اسرار کی پردہ پوشی کی طرف اشارہ سمجھا گیا ہے لیکن جو کچھ ہم نے کہا ہے یہ تفسیر اس سے تضاد یا اختلاف نہیں رکھتی کیونکہ ” مغفرة “ اپنے وسیع مفہوم میں عفو و در گزر بھی ہے اور حاجت مندوں کے راز وں کی پردہ پوشی بھی ہے ۔
تفسیر نور الثقلین میں پیغمبر اسلام کی ایک حدیث یوں منقول ہے ۔
اذا سئل السائل فلا تقطعوا علیہ مساء لتہ حتی یفرغ منھا ثم ردوا علیہ بوقار و لین اما یبذل یسیر اورد جمیل فانہ قد یاتکم من لیس بانس ولا جان ینظرونکم کیف صنیعکم فیما خولکم اللہ تعالی
اس حدیث میں پیغمبر اکرم نے خرچ کے آداب کے ایک پہلو کو واضح کرتے ہوئے فرمایا ہے :
جب کوئی حاجت مند تم سے کوئی چیز مانگے تو جب تک وہ اپنا تمام مقصد بیان نہ کرے اس کی بات قطع نہ کرو ۔ اس کے بعد اسے وقار و ادب اور نرمی سے جواب دو ۔ جو چیز تمہارے بس میں ہے اسے دے دو یا پھر شائستہ اور خوبصورت طریقہ سے اسے واپس کردو ۔ کیونکہ ممکن ہے سوال کرنے والا کوئی فرشتہ ہو جو تمہاری آزمائش پر مامور ہو تاکہ وہ دیکھے کہ خدا نے جو نعمتیں تمہیں دی ہیں ان کے پیش نظر تم عمل کس طرح کرتے ہو ۔ (۱)


 (۱)نورالثقلین ج ۱ ۔ص۳۲۸

 

یہ آیت در حقیقت گذشتہ” و اللہ غنی حلیم “
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma