)وَاٴُشْرِبُوا فِی قُلُوبِہِمْ الْعِجْل )مفہوم:

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 01
(قَالُوا سَمِعْنَا وَعَصَیْنَا) کا مفہوم:خود پسند گروہ

 یہ بھی ایک عمدہ کنایہ ہے جو یہودی قوم کی حالت بیان کرتا ہے۔

جیسا کہ مفردات راغب میں ہے کلمہ (اشراب) کے دو معانی ہیں:

۱۔ ایک یہ کہ (اشربت البعیر) کے باب سے ہو یعنی (میں نے اونٹ کی گردن میں رسی باندھی) اس معنی کے لحاظ سے مندرجہ بالا جملہ کا مفہوم یہ ہوگا کہ (محبت و وابستگی کی مضبوط رسی نے ان کے دلوں کو بچھڑے سی باندھ دیا۔

۲۔ دوسرا یہ کہ اس کا مادہ شراب سے ہو جس کا معنی ہے آبیاری کرنا: اور دوسرے کو پانی دینا اس صورت میں لفظ حب مقصود ہوگا۔ یوں مندرجہ بالا جملے کا مفہوم یہ ہوگا بنی اسرائیل نے اپنے دلوں کی بچھڑے کی محبت سے آبیاری کی(

یہ اہل عرب کی عادات کا حصہ ہے کہ جب کسی چیز کے متعلق سخت قسم کا تعلق یا زیادہ کینہ ظاہر کرنا چاہیں تو مندرجہ بالا تعبیر ہی کی طرح کا انداز اختیاز کرتے ہیں۔

اس سے ضمنا ایک اور نکتہ بھی نکلا کہ بنی اسرائیل کے ان غلط کاموں پر تعجب نہیں کرنا چاہئے ۔ کیونکہ یہ اعمال ان کے دلوں کی اس سرزمین کا حاصل ہیں جس کی شرک کے پانی سے آبیاری کی گئی ہے اور جو زمین ایسے پانی سے سیراب ہو اس سے خیانت ، قتل و ظلم کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوسکتا۔

اس بات کی اہمیت اس وقت اور نمایان ہوجاتی ہے جب دین یہود میں موجود قتل کی قباحت اور انسان کے قتل کی برائی کے احکام پر نظر جاتی ہے جہنیں اہمیت کے ساتھ بیان کیاگیاہے۔

یہودیوں کا دین اس ظلم کو اس قدر برا سمجھتا تھا کہ قاموس کتاب مقدس صفحہ ۶۸۷ کی تحریر کے مطابق قتل عمد اور اس کی قباحت اسرائیلیوں کے نزدیک اتنی اہمیت رکھتی تھی کہ مدتیں گذرجانے کے بعد اور مدتوں ایسے شہروں میں پناہ لینے کے بعد بھی جنہیں پناہ گاہ کہاجاتا تھا اور مقامات مقدسہ پر التجا کے با وجود بھی قاتل بری الذمہ نہیں سمجھاجاتا تھا بلکہ اس ہے ہر صورت میں قصاص لیاجاتا

یہ تو کئی عام انسان کے قتل کے بارے میں ہے چہ جائیکہ خدا کے انبیاء کا قتل ۔ پس اگر بنی اسرائیل تورات پرایمان رکھتے تو انبیاء کو قتل نہ کرتے۔

۹۴۔ قُلْ إِنْ کَانَتْ لَکُمْ الدَّارُ الْآخِرَةُ عِنْدَ اللهِ خَالِصَةً مِنْ دُونِ النَّاسِ فَتَمَنَّوْا الْمَوْتَ إِنْ کُنتُمْ صَادِقِین

۹۵۔ وَلَنْ یَتَمَنَّوْہُ اٴَبَدًا بِمَا قَدَّمَتْ اٴَیْدِیہِمْ وَاللهُ عَلِیمٌ بِالظَّالِمِینَ

۹۶۔ولَتَجِدَنَّہُمْ اٴَحْرَصَ النَّاسِ عَلَی حَیَاةٍ وَمِنْ الَّذِینَ اٴَشْرَکُوا یَوَدُّ اٴَحَدُہُمْ لَوْ یُعَمَّرُ اٴَلْفَ سَنَةٍ وَمَا ہُوَ بِمُزَحْزِحِہِ مِنْ الْعَذَابِ اٴَنْ یُعَمَّرَ وَاللهُ بَصِیرٌ بِمَا یَعْمَلُونَ

 

ترجمہ

۹۴۔ کہہ دو اگر (جیسا کہ تم دعوی کرتے ہو) خدا کے ہاں آخرت کا گھر دوسرے لوگوں کو چھوڑ کر تمہارے لئے مخصوص ہے تو پھر مرنے کی تمنا کرو اگر تم سچے ہو۔

۹۵۔  لیکن وہ برے اعمال کی صورت میں جو آگے بھیج چکے ہیں ان کے باعث کبھی مرنے کی تمنا نہیں کریں گے اور خدا ظالموں سے پوری طرح آگاہ ہے۔

۹۶۔ انہیں سب لوگوں سے زیادہ حریص یہاں تک کہ مشرکین سے بھی بڑھ کر لالچی (دولت جمع کرنے اور اس دنیا کی) زندگی پر پاؤگے (یہاں تک کہ) ان میں سے ہر ایک چاہتا ہے کہ ہزار سال عمر پائے حالانکہ یہ طولانی عمر (بھی) اسے خدا کے عذاب سے نہیں بچاسکے گی اور خدا ان کے اعمال کو دیکھتاہے۔

 

(قَالُوا سَمِعْنَا وَعَصَیْنَا) کا مفہوم:خود پسند گروہ
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma