فرشتے امتحان کے سانچے میں

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 01
 انسان زمین میں خدا کا نمائندہ دوسوال اور ان کا جواب

پروردگار کے لطف و کرم سے آدم حقائق عالم کے ادراک کی کافی استعداد رکھتے تھے خدا نے ان کی اس استعداد کو فعلیت کے درجہ تک پہنچایا اور قرآن کے ارشاد کے مطابق آدم کو تمام اسماء ( عالم وجود کے حقائق و اسرار ) کی تعلیم دی ( وعلم اٰدم الاسماء کلھا
مفسرین نے اگر چہ --”علم اسماء “کی تفسیر میں قسم قسم کے بیانات دیئے ہیں لیکن مسلم ہے کہ آدم کو کلمات و اسماء کی تعلیم بغیر معنی کے نہیں دی تھی کیونکہ یہ کوئی قابل فخر بات نہیں بلکہ مقصد یہ تھاکہ ان اسماء کے معنی و مفاہیم اور جن چیزوں کے وہ نام تھے ان سب کی تعلیم ہو ۔ البتہ جہان خلقت اور عالم ہستی کے مختلف موجودات کے اسماء وخواص سے مربوط علوم سے باخبر وآگاہ کیا جانا حضرت آدم کے لئے بہت بڑا اعزاز تھا ۔
ایک حدیث میں ہے کہ حضرت امام جعفر صادق سے اس آیت کے متعلق سوال ہوا تو آپ نے فرمایا :
الارضین والجبال والشعاب والاودیہ ثم نظر الی بساط تحتہ فقال وھذا ابساط مماعلمہ۔
اسماء سے مراد زمینیں ، پہاڑ ،درے ،وادیاں (غرض یہ کہ تمام موجودات )تھے اس کے بعد امام نے اس فرش کی طرف نگاہ کی جو آپ کے نیچے بچھا ہو تھا اور فر ما یا یہا ں تک کہ یہ فرش بھی ان امو ر میں سے ہے کہ خد انے جن کی آدم کو تعلیم دی (۱)
اس سے ظاہر ہو کہ علم اسما ء علم لغت کے مشابہ نہ تھا بلکہ اس کا تعلق فلسفہ ،اسرار اور کیفیا ت وخو اص کا تھا ۔خداوند عالم نے آدم کو اس علم کی تعلیم دی تاکہ وہ اپنی سیر تکامل میں اس جہان کی مادی اور روحانی نعمتوں سے بہرہ ور ہو سکیں ۔اسی طرح چیزوں کے نام رکھنے کی استعداد بھی انہیں دی تاکہ و ہ چیزوں کے نام رکھ سکیں اور ضرورت کے وقت ان کا نام لے کر انہیں بلا سکیں یا منگوا سکیں اور یہ ضروری نہ ہو کہ اس کے لئے ویسی چیز دکھا نی پڑے ۔یہ خود ایک بہت بڑ ی نعمت ہے ۔اس مو ضو ع کی اہمیت ہم اس وقت سمجھتے ہیں جب دیکھتے ہیں کہ انسان کے پاس اس وقت جو کچھ ہے کتاب اور لکھنے کی وجہ سے ہے اور گذ رے ہوئے لوگو ں کے سب علمی ذخائر ان کی تحریروں میں جمع ہیں اور یہ سب کچھ چیزوں کے نام رکھنے کے اور ان کے خواص کی وجہ سے ہے و ر نہ کبھی بھی ممکن نہ تھا کہ ہم گذشتہ لوگو ں کے علوم آنے والوں تک منتقل کر سکتے ۔
پھر خداوند عالم نے فرشتوں سے فرمایا ۔اگر سچ کہتے ہوتو ان اشیاء اورموجودات کے نام بتاوٴجنہیں دیکھ رہے ہو اور ان کے اسرار وکیفیات کو بیان کرو (ثم عرضھم علی الملائکةفقال انبئو نی باسماء ھوٴلاء ان کنتم صدقین )لیکن فرشتے جو اتنا علم نہ رکھتے تھے اس امتحا ن میں رہ گئے ؛لہذا جواب میں کہنے لگے خداوندا!تو منزہ ہے تونے ہمیں جو تعلیم دی ہے ہم ا س کے علاوہ کچھ نہیں جانتے (قالو اسبحنک لاعلم لناالاما علمتنا ) توخود ہی علیم وحکیم ہے (انک انت العلیم الحکیم ) ۔اگر ہم نے اس سلسلے میں سوال کیا ہے تو یہ، ہماری نا آگاہی کی بناء پر تھا ہم نے یہ مطلب نہیں پڑھاتھااور آدم کی اس عجیب استعداداور قدرت سے بے خبر تھے جو ہمارے مقابلے میں اسکا بہت بڑا امتیاز ہے۔بے شک وہ تیری خلافت وجانشینی کی اہلیت رکھتا ہے جہان ہستی کی سر زمین اس کے وجود کے بغیر نا قص تھی۔
اب آدم کی باری آ ئی کہ ملائکہ کے سامنے موجودات کا نام لیں اور ان کے اسرار بیان کریں۔ خدا وندے عالم نے فرمایا : اے آدم !فرشتوں کو ان موجودات کے ناموں سے آگاہ کرو ( قال یا آدم انبئھم باسمائھم قال الم اقل لکم انی اعلم غیب السماوات والارض واعلم ماتبدون وماکنتم تکتمون )
اس مقام پر ملائکہ نے اس انسان کی وسیع معلومات اور فراواں حکمت ودانائی کے سامنے سر تسلیم خم کردیا اور ان پر واضح ہوگیا کہ صرف یہی زمین پر خلافت کی اہلیت رکھتا ہے۔
جملہ ”ماکنتم تکتمون “ ( جو کچھ تم اپنے اندر چھپائے ہوئے ہو ) اس بات کی نشاندہی ہے کہ فرشتوں نے جو کچھ ظاہر کیا تھا اس کے علاوہ کچھ دل میں چھپائے ہوئے تھے ۔ بعض کہتے ہیں یہ ابلیس کے غرور و تکبر کی طرف اشارہ ہے جو ان دنوں ملائکہ کی صف میں رہتا رہتا تھا لہذا وہ بھی ساتھ ہی مخاطب تھا ۔اس نے دل میں پختہ ارادہ کر رکھا تھا کہ وہ آدم کے سامنے ہر گز نہیں جھکے گا ۔
یہ بھی احتمال ہے فرشتے در حقیقت اپنے آپ کو روئے زمین پر خلافت الہی کے لئے ہرکس وناکس سے زیادہ اہل سمجھتے تھے اگرچہ اس مطلب کی طرف اشارہ تو کرچکے تھے لیکن صراحت سے یہ بیان نہ کیا تھا۔


 

(۱) مجمع البیان ،زیر نظر آیات کے ضمن میں ۔

 انسان زمین میں خدا کا نمائندہ دوسوال اور ان کا جواب
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma