”قسم“

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 01
جمع بین طهارت و توبه بعض قسمیں تو اسلام کی نگاہ میں بالکل لغو

ایمان“ ”یمین“ کی جمع ہے۔ اس کا معنی ہے ”قسم“
”عرضة“کا معنی ہے کسی چیز کا معرض قرار دینا۔ مثلا کوئی جنس بازار میں بیچنے کے لیے لاتے ہیں اور اسے معاملے کے معرض میں قرار دیتے ہیں یعنی اسے معاملے کے بیچ میں لاتے ہیں تو اُسے عرضہ کہتے ہیں۔ بعض اوقات موانع اور رکاوٹوں کو بھی عرضہ کہتے ہیں۔ کیونکہ وہ معرض انسان میں واقع ہوتے ہیں اور انسان کے راستے میں حائل ہوتے ہیں ”عرضة“کے مذکورہ مفہوم کو نظر میں رکھتے ہوئے آیت کی تفسیر کچھ اس طرح ہوگی: خدا کو اپنی قسموں کے معرض میں نہ لاؤ اور ہر چھوٹے بڑے کام کے لیے قسم نہ کھاؤ۔ خدا کے نام کو معمولی نہ بنادو۔ اہم مقاصد کے علاوہ یوں قسم کھانا غیر مناسب اور غیر مطلوب کام ہے۔ یہ بات بہت سی احادیث میں بھی بیان کی گئی۔ ان میں سے امام صادق -کا ایک فرمان ملاحظہ کیجئے ، آپ نے فرمایا۔
”و لا تحلفوا بااللہ صادقین و لا کاذبین فانہ سبحانہ یقول لا تجعلوا اللہ عرضة لایمانکم“
خدا کی قسم کبھی نہ کھانا، چاہے تم سچے ہو یا جھوٹے کیونکہ خدا فرماتاہے کہ خدا اپنی قسموں میں نہ لاؤ۔
اس صورت میں شان نزول کے ساتھ اس کی مناسبت یوں ہوگی کہ اچھے کاموں میں بھی قسم کھانا پسندیدہ عمل نہیں ہے چہ جائیکہ انسان کسی اچھے کام مثلا لوگوں کے در میان صلح صفائی و غیرہ ترک کرنے کے معاملے میں قسم کھائے۔ اس تفسیر کے مطابق ”ان تبروا و تتقوا و تصلحوا بین الناس “اس طرف اشارہ ہے کہ نیک کاموں اور لوگوں کے در میان مصالحت کرانے میں بھی قسم نہ کھاؤ۔
یہ بھی ہوسکتاہے کہ ”عرضة“آیت میں رکاوٹ اور مانع کے معنی میں ہو یعنی خدا کے نام کی قسم کو نیک عمل اور لوگوں کے در میان صلح کروانے میں رکاوٹ نہ بناؤ اور ایسی ہر قسم کی کوئی قیمت اور اعتبار نہیں۔ شان نزول سے اس تفسیر کی مناسبت مکمل طور پر واضح ہے۔
”لاَیُؤَاخِذُکُمْ اللهُ بِاللَّغْوِ فِی اٴَیْمَانِکُمْ وَلَکِنْ یُؤَاخِذُکُمْ بِمَا کَسَبَتْ قُلُوبُکُمْ “
اس آیت میں اللہ تعالی دو طرح کی قسموں کی طرف اشارہ کرتاہے
پہلی قسم۔ لغو قسموں کی ہے، جن کا کوئی اثر نہیں اور جن کی پرواہ نہیں کرنا چاہئیے۔ یہ وہ قسمیں ہیں جو لوگ بغیر توجہ کے کھاتے ہیں۔ بعض لوگ تکیہ کلام اور عادت کے طور پر قسمیں کھاتے ہیں۔ ہر کام میں ”لاو اللہ“ اور ”بلی و اللہ“ یعنی نہ بخدا اور ہاں بخدا کہتے ہیں۔ ایسی قسمیں لغو ہیں ”لغو“ لغت میں ان تمام کاموں اور باتوں کو کہتے ہیں جن کا ھدف اور مقصد معین نہ ہو یا جو قصد و ارادہ سے سرزد نہ ہوں ۔
اس لیے وہ قسمیں لغو کہلائیں گی جو انسان غضب اور غصے کی حالت میں کھاتاہے (جب کہ حالت غضب میں وہ عام حالت میں نہ رہے)۔
مندرجہ بالا آیت کے مطابق ایسی قسمیں جو قصد و ارادہ سے انجام پذیر نہ ہو ان میں مؤاخذہ نہیں ہے اور نہ وہ کوئی اثر رکھتی ہیں۔ البتہ یہ بات اہم ہے کہ انسان اس طرح سے ہونا چاہئیے کہ وہ ایسی قسموں سے بھی سے کنارہ کش رہے۔
دوسری قسم۔ ان قسموں کی ہے جو قصد و ارادہ کی ما تحت ہوں اور قرآن کی تعبیر کی مطابق اس میں ”کسب قلبی “ موثر ہے۔ ایسی قسم معتبر ہے اور اس کی پابندی کرنا چاہیئے اور اس کی مخالفت نہ فقط گناہ ہے بلکہ اس کا کفارہ بھی دینا پڑتاہے۔ مگر اس کی کچھ شرائط ہیں جن کی طرف ہم بعد میں اشارہ کریں گے۔
قسمیں ۔ جو قابل اعتبار ہیں
 

جمع بین طهارت و توبه بعض قسمیں تو اسلام کی نگاہ میں بالکل لغو
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma