سخت حوادث خدائی سنت ہیں

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 01
دین اور معاشرہبہت سی آیات راہ خدا میں خرچ کرنے

مندرجہ بالا آیت سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ مومنین کا ایک گروہ یہ سمجھتا تھا کہ جنت میں داخل ہونے کا حقیقی عامل اور سبب یہ ہے کہ خدا پر ایمان کا صر ف اظہار کردیاجائے اور اس کے بعدا انہیں کسی قسم کی تکلیف ، زحمت اور رنج و الم اٹھانے کی ضرورت نہیں، ان کی کوششوں کے بغیر ہی خدا ان کے امور کو راہ پر ڈال دے گا اور ان کے دشمنوں کو نابود کردے گا
اس غلط طرز فکر کے مقابلے میں قرآن حقیقی سنت اور خدا کی دائمی روش کی طرف اشارہ کرتاہے۔ قرآن کے مطابق تمام مومنین کو راہ ایمان میں پیش رفت کے لیے مشکلات اور تکالیف کا استقلال کرنا پڑے گا۔ اس راہ میں فداکاری کرنا پڑے گی۔ یہ مشکلات تو در اصل آزمائش اور امتحان ہیں۔ ان کے ذریعے حقیقی اور غیر حقیقی ایمان میں امتیاز پیدا ہوتاہے۔ قرآن اس حقیقت کی بھی تصریح کرتاہے کہ یہ آزمائشیں اور مشکلات عمومی قوانین کے تحت ہیں اسی بناء پرگذشتہ امتیں بھی ان سے دوچار ہوئیں۔
اس غلط طرز فکرکے مقابلے میں قرآن حقیقی سنت اور خدا کی دائمی روش کی طرف اشارہ کرتاہے۔ قرآن کے مطابق تمام مومنین کو راہ ایمان میں پیش رفت کے لیے مشکلات اور تکالیف کا استقبال کرنا پڑے گا۔ اس را ہ میں فداکاری کرنا پڑے گی۔یہ مشکلات تو در اصل آزمائش اور امتحان ہیں۔ ان کے ذریعے حقیقی اور غیر حقیقی ایمان میں امتیاز پیدا ہوتاہے۔ قرآن اس حقیقت کی بھی تصریح کرتا ہے کہ یہ آزمائشیں اور مشکلات عمومی قوانین کے تحت ہیں اسی بناء پر گذشتہ امتیں بھی ان سے دوچار ہوئیں۔
مثلا فرعونیوں کے استعمار سے نجات کے لیے بنی اسرائیل کو خاص طور پرمصر سے نکلنا پڑا۔ وہ دریا اور لشکر فرعون کے در میان گھر گئے تھے جس کی وجہ سے وہ بہت سی مشکلات اور مصائب میں گرفتار ہوئے۔ یہاں تک کہ ان میں سے بہت سے تو اپنے ہاتھ پاؤں گنوا بیٹھے۔ لیکن سخت لمحات میں خدا کا لطف ان کے شامل حال ہوا۔ انہیں دشمنوں پر کامیابی نصیب ہوئی۔ یہ بات بنی اسرائیل سے مخصوص نہ تھی مندرجہ بالا آیت میں الذین خلوا من قبلکم (وہ جو تم سے پہلے گزرے ہیں)کے الفاظ اسی امر کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ اس نظر سے تو سب کی سرنوشت ایک جیسی تھی۔ گویا یہ ایک سنت الہی ہے جو تکامل ارتقاء اور تربیت کی ایک رمز ہے ۔ تمام امتوں کو حوادث کی سخت بھیٹوں میں ڈالا جانا چاہئیے، انہیں پگھل کر فولاد کی طرح بھٹی سے باہر آنا چاہئیے اور پھر زیادہ اہم اور سخت تر حوادث سے دوچار ہونے کے لیے تیار رہنا چاہئیے تا کہ زیادہ قابل افراد پہچانے جاسکیں اور نااہل لوگ الگ ہوجائیں اس طرح تصفیہ و تطہیر ہوجائے۔
دوسرا نکتہ جس کی طرف یہاں توجہ دی جانا چاہئیے وہ یہ ہے کہ آیت کے مطابق گذشتہ امتوں کو شدائد اور مشکلات اس طرح گھیر لیتی تھیں کہ اہل ایمان اور انبیاء ہم صدا ہوکر کہتے تھے: خدا کی مدد کہاں ہے؟ واضح ہے کہ ان کی مراد بارگاہ قدرت پر اعتراض کرنا نہ تھی بلکہ یہ تعبیر خود ایک قسم کی دعا اور تقاضا ہے۔
۲۱۵۔یَسْاٴَلُونَکَ مَاذَا یُنفِقُونَ قُلْ مَا اٴَنفَقْتُمْ مِنْ خَیْرٍ فَلِلْوَالِدَیْنِ وَالْاٴَقْرَبِینَ وَالْیَتَامَی وَالْمَسَاکِینِ وَابْنِ السَّبِیلِ وَمَا تَفْعَلُوا مِنْ خَیْرٍ فَإِنَّ اللهَ بِہِ عَلِیم
ترجمہ
۲۱۵۔تجھ سے پوچھتے ہیں کہ کیا خرچ کریں۔ کہہ دو کہ ہر خیر و نیکی (اور فائدہ بخش مادی و معنوی سرمایہ) جو تم خرچ کرتے ہو وہ ماں باپ، قریبیوں، یتیموں، مسکینوںاور مسافروں کے لیے ہونا چاہئیے اور جو کار خیر بھی تم کرتے ہو خدا اس سے آگاہ ہے (اور ضروری نہیں کہ اسے ظاہر کرتے پھرو اور اسے یا اسے بتاتے پھرو)۔
شان نزول
عمرو بن جموع ایک بوڑھا رئیس اور دولت مند تھا۔ اس نے نبی اکرم کی خدمت میںعرض کی کہ کس چیز سے اور کس کس کو صدقہ دوں۔ اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی۔
 

دین اور معاشرہبہت سی آیات راہ خدا میں خرچ کرنے
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma