(۳)خداکی طرف سے ہدایت وگمراہی :

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 01
(۲)مچھر کی مثال کیوں :(۴) فاسقین

گذشتہ آیت کا ظاہری مفہوم ممکن ہے یہ شک پیدا کرے کہ ہدیت اور گمراہی میں جبر کا پہلو ہے اور اس کا دارومدار خدا کی چاہت پر ہے جب کہ اس آیت کا آخری جملہ اس حقیقت کو آشکا ر کرتا ہے کہ ہدا یت وضلالت کا سرچشمہ ا نسان کے اپنے اعمال ہیں ۔
اس کی وضاحت یہ ہے کہ انسان کے اعمال وکردار کے ہمیشہ خاص نتا ئج وثمرات ہو تے ہیں ان میں سے اگر عمل نیک ہو تو اس کا نتیجہ روشن ضمیری ،توفیق الہی،خداکی طرف سے ہدایت اور بہترانجام کارہے ۔
سورہ انفال کی آیت ۲۹اس بات کی گواہ ہے ۔ارشاد ہے:
یاایھاالذین امنوا ان تتقوااللہ یجعل لکم فرقاناََ
اے ایمان والو !اگر پرہیز گاری کو اپنا لو تو خدا تمہیں تمیز حق وباطل اور روشن ضمیر ی عطاکرے گا۔
اور اگر انسان برے کاموں کے پیچھے لگا رہے تو اس کے دل کی تیر گی اور بڑھ جائے گی اور وہ گناہ کی طرف اس کارجحان زیادہ ہو گا بلکہ بعض اوقات انکار خدا تک پہنچ جائے گا ۔
اس کی شاہد سورہ رو م کی آیت ۱۰ ہے جس میں فرمایا ہے:
ثم کان عاقبةالذین اساٰء والسوایٰ ان اکذب بٰایٰات اللہ وکانوا بھا یستھزؤن ہ
برے انجام دینے والے اس مقام پر جا پہنچے ہیں کہ اب آیات الہی کا مذاق اڑانے لگے ہیں ۔
ایک اور آیت میں ہے۔
فلما زاغو ازاغ اللہ قلوبھم
جب حق سے پھر گئے تو خدا نے بھی ان کے دلوں کو پھیر دیا (صف ۵۰)
زیر بحث آیت بھی اسی مفہوم کی شاہد ہے کہ جب وہ فرماتا ہے وما یضل بہ الاالفٰسقین یعنی خدا فاسقین ہی کو گمراہ کرتا ہے ۔
اس بنا ء پراچھے یا برے راستے کا انتخاب پہلے ہی سے خود ہمارے اختیار میں ہے ا س حقیقت کو ہر شخص کا وجدان قبول کرتا ہے ۔انتخا ب کے بعد اس کے قہری نتائج کا ہمیں سامنا کرنا پڑتا ہے۔
مختصر یہ کہ قرآن کے مطابق ہدایت وضلالت اچھے یا برے راستے کے جبری اختیار کا نام نہیں بلکہ قرآن کی متعدد آیات شہادت دیتی ہیں کہ ہدایت کے معنی ہیں سعادت کے وسائل فراہم ہونا اور ضلالت کا مطلب ہے مساعد حالات کا ختم ہو جانا ،لیکن اس میں جبر کا پہلونہیں ہے اور یہ اسباب کا فراہم کرنا ( جس کا نام ہمارے نزدیک توفیق ہے ) یا اسباب ختم کردینا (جسے ہم سلب توفیق کہتے ہیں ) انسان کے اپنے ہی اعمال کا نتیجہ ہے ۔
اس حقیقت کو ہم ایک سادہ سی مثال سے پیش کر سکتے ہےں ۔ جب انسان کسی گرنے کی جگہ یا کسی خطرناک بڑی نہر سے گذرتا ہے تو وہ جتنا اپنے آپ کو نہر سے قریب تر کرتا ہے اس کے پاؤں کی جگہ زیادہ پھسلنے والی ہوتی ہے ایسے میں گرنے کا احتما ل زیادہ اور نجات پانے کا کم ہو جاتا ہے اور انسان جتنا اپنے آپ کو اس سے دور رکھے گا اس کے پاؤں رکھنے کی جگہ زیادہ محکم اور اطمینان بخش ہوگی اور گرنے کا احتمال کم ہوگا ، ان میں سے ایک کا نام ہدایت اور دوسرے کا ضلالت ہے ۔ اس گفتگو سے ان لوگوں کی بات کا جواب پورے طور پر واضح ہو جائے گا جو آیات ہدایت و ضلالت پر اعتراض کرتے ہیں ۔
 

(۲)مچھر کی مثال کیوں :(۴) فاسقین
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma