ایک اور مثال

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 01
راہ خدا میں خرچ کرنے کے اسباب و نتائج کیسے ما ل کو خرچ کر نا چاہیئے

”یود احدکم ان تکون لہ الجنة۔۔۔۔۔۔۔“
انسا ن کو روز قیامت اعمال صالح کی سخت ضرورت ہوگی نیز ریاکاری ، احسان جتلانا اور کسی کو تکلیف پہنچانا انفاق اور عمل صالح کو ضائع کر دیتا ہے یہ مطالب واضح کر نے کے لئے زیر آیت میں ایک عمدہ مثال بیان کی گئی ہے ۔
یہ ایسے شخص کی مثال ہے جس کا سر سبز وشاداب باغ ہو اس میں کھجوروں اور انگور جیسے طرح طرح کے پھل دار درخت ہوں ،درختوں کے نیچے پا نی بہتا رہتا ہواور آبیاری کی احتیا ج نہ ہو۔وہ شخص بوڑھا ہو چکا ۔ اس کی اولا ابھی کمزور وناتواں ہو اور ان کی زندگی کا دار ومدار اسی باغ پر ہو ۔اب اگر یہ باغ اجڑ جا ئے تو وہ اور اس کی اولا داسے آبا د نہیں کرسکتے ۔اگر اچانک آتش با رآندھی کے گولے اس باغ پر بر سنے لگیں اور اسے جلاکر خا کستر کردیں تو اس وقت وہ بوڑھاشخص جوجوانی کی توانائیاں کھو چکا ہے اور کسی اور ذریعے سے اپنے اخراجا ت بھی پور ے نہیں کرسکتاتو اس کی حالت کیا ہوگی اور کیسی حسرت وغم کی کیفیت سے دوچار ہوگا ۔جو لوگ نیک عمل بجالاتے ہیں اور پھر ریا کاری ،احسان دھرنے اور اذیت دینے سے اسے ضائع کردیتے ہیں اسی شخص کی طرح ہیں جس نے محنت سے باغ تیار کیا ہواور جب پھل حاصل کرنے کی ضرورت ہو تواس کے کا م کانتیجہ بالکل برباد ہو جا ئے اور اس کے پا س حسرت واندوہ کے علاوہ کوئی چیز باقی نہ جا ئے ۔
کذٰلک یبین اللہ لکم الاٰیٰت لعلکم تتفکرون “۔
تمام بد بختیوں کا سر چشمہ یہ ہے کہ غوروفکر سے کام نہ لیا جائے اس ضمن میں خصوصا ایسے کا م ہیں جوبےوقوف لوگ کرتے ہیں مثلا احسان جتلانا ، جن کا فائدہ بہت کم اور نقصان بڑی تیزی سے اور بہت زیا دہ ہوتا ہے اس لیے آیت کے آخر میں اللہ تعالی لوگوں کو غور فکر کر نے کی دعوت دیتا ہے اورفرماتا ہے:اس طرح خداتمہارے لیے اپنی آیات کی وضاحت کر تاہے کہ شاید تم غوروفکرکرو۔
چنداہم نکات
واصابہ الکبر لہ ذریةضعفاء“یعنی باغ کا مالک بوڑھا ہو چکاہے اور اس کے بچے ابھی کمزور وناتواں ہیں ۔اس جملے سے معلوم ہو تا ہے کہ راہ خدا میں بخشش کرنا اور ضرورت مندوں کی مدد کر نا خرمے کے باغ کی طرح ہے جس کے پھلو ں سے انسان خود بھی بہر ہ مند ہو تاہے اور اس کی اولا د بھی جب کہ ریاکاری ،احسان دھرنااور ایذ ارسانی خود انسان کی اپنی محرومیت کا سبب منتی ہیں اور اس کی آئندہ نسلیں بھی اس سے محرومیت کا شکار ہوتی ہیں حالانکہ انہیں تو اس کے نیک اعمال اور ثمرات کافائدہ پہنچنا چاہیئے تھا
یہ بات اس امر کی بھی دلیل ہے کہ آئندہ نسلیں گذشتہ نسلوں کے اعمال نیک کے نتائج میں حصہ دار ہو تی ہیں ۔عام طور پر ایسا ہی ہو تا ہے کیو نکہ آباوٴاجداد اپنے نیک کاموں کی وجہ سے لوگوں کے افکا رمیں جو ایک محبو بیت اور اعتما د پیدا کر لیتے ہیں وہ ان کی کے لئے بھی ایک بہت بڑا سر ما یہ ہو تا ہے ۔
”اعصار فیہ نار“ :یعنی ۔۔ہوا کا بگولہ جس میں آگ بھی ہو ۔ممکن ہے یہان بگولوں کی طرف اشارہ ہو جو با د سموم جلانے والی اور خشک کرنے والی ہو اہو تی ہے ۔ یا پھر اس سے وہ بگو لہ مراد ہے جو آگ کے الا وٴ سے گزرے اور عام طور پر بگولے کے راستے جو چیز آتی ہے و ہ اسے اپنے ساتھ لے اڑتا ہے تو ہو سکتا ہے وہ آگ کو ایک جگہ سے اٹھا کر دوسری جگہ پھینکے ۔یہ بھی ممکن ہے کہ یہ صا عقہ کے سا تھ پڑنے والے بگولے کی طرف اشارہ ہو جو تمام چیزوں کو خاکستر کردے ۔بہر حا ل یہ فوری اور مکمل نابودی کی طرف اشارہ ہے (۱)
(۱) لغت میں اعصار کا معنی وہ بگولہ ہے جو ہو اکے چلتے وقت دومختلف سمتوں سے بنتا ہے اور عمودی شکل میں ہوتا ہے ۔اس کا ایک سر ا زمین سے لپٹا ہوتا ہے اور دوسرافضا میں ہو تا ہے ۔
۲۶۷۔یا ایھا الذین آمنو اانفقو امن طیبات ما کسبتم ومما اخرجنا لکم من الارض ولا تییموا الخبیث منہ تنفقون ولستم بآخذیہ الا ان تغمضوا فیہ  واعلموآان اللہ غنی حمید
ترجمہ
۲۶۷۔اے ایمان والو !پاکیزہ اموال (جو تجارت کے ذریعے )تمہا رے ہاتھ آئے ہیں اور جو ہم نے تمہا رے لئے زمین (کے خزانو ں اور معادنو ں )سے نکا لے ہیں خرچ کرو حالانکہ یہ اموال( قبو ل کر تے وقت) تم چشم پوشی کر تے ہو ئے اور نا پسندیدگی کے علاوہ قبول کر نے کو تیا ر نہیں ہو اور جا ن لو کہ خدا بڑا بے نیا ز اور لا ئق تعریف ہے ۔
شان نزول
امام صادق علیہ السلا م سے منقو ل ہے کہ یہ ایک گروہ کے با رے میں نا زل ہو ئی جس نے زما نہ جاہلیت میں سود کے طور پر دولت جمع کر رکھی تھی اور ا س میں سے راہ خدا میں خرچ کرتا تھا ۔خدا تعالی نے انہیں اس کا م سے روکا او ر انہیں حکم دیاکہ وہ پاک او رحلال مال خرچ کریں ۔
تفسیر مجمع البیان میں یہ حدیث نقل کرنے کے بعد میں حضرت علی علیہ السلا م ایک روایت بیان کی گئی ہے کہ آپ نے فرمایا :
یہ آیت ایسے لوگوں کے با رے میں نازل ہو ئی ہے جو خرچ کرتے وقت خشک،کم مادہ ااور غیر مرغوب کھجوریں ،اچھی کھجوروں میں ملاکر دیتے تھے ۔اس میں انہیں حکم ہو اکہ اس کا م سے اجتنا ب کریں ۔
دونو ں شان نزول ایک دوسرے سے کوئی اختلاف نہیں رکھتیں ۔ممکن ہے یہ آیت دونو ں گروہوں کے با رے میں نازل ہو ئی ہو یعنی ایک معنوی پاکیزگی کی طرف اور دوسری ظاہری اور عام مرغوبیت کے بارے میں ہو۔
لیکن خیال رہے کہ سورہ بقرہ کی آیت ۲۷۵ کے مطابق جن لوگوںنے زمانہ جاہلیت میںسود خوری کوجا ری رکھنے سے اجتناب کیا مگر گذشتہ مال ان پر حرام نہیں ہوا تھا یعنی یہ قانون گذشتہ اموال کے لئے نہ تھا اور حقیقت میں ان اموال سے مشابہ تھا جو ناپسندیدہ طریقے سے حاصل کئے گئے ہوں ۔

راہ خدا میں خرچ کرنے کے اسباب و نتائج کیسے ما ل کو خرچ کر نا چاہیئے
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma