طیبات وخبائث

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 01
 ینعق کا مفہوم:  حرام گوشت کی تحریم کا فلسفہ:

وہ کجرویاں جو جڑ پکڑچکی ہیں ان کی اصلاح کے لئے قرآن کا اسلوب ہے کہ وہ مختلف طرزوں اور طریقوں کی تاکید و تکرار سے استفادہ کرتاہے۔ ان آیات میں زمانہ جاہلیت میں مشرکین کی حرام کر دہ حلال غذاؤں کے بارے میں دوبارہ گفتگو کرتا ہے ۔ فرق یہ ہے کہ اب روئے سخن مومنین کی طرف ہے جب کہ گذشتہ آیات میں تمام لوگ (یا ایھا الناس) مخاطب تھے۔ فرماتا ہے: اے ایمان والو! ان پاکیزہ نعمتوں میں سے میں نے تمہیں جو روزی دی ہے اسے کھاؤ (یا ایھا الذین امنوا کلوا من طیبت ما رزقنکم)۔اگر خدا ہی کی عبادت کرتے ہو تو پھر اس کا شکر ادا کرو (و اشکروا للہ ان کنتم ایاہ تعبدون) یہ پاک و حلال نعمتیں جو ممنوع نہیں ہیں، انسان کی فطرت سلیم کے موافق ہیں اور تمہارے لئے پیدا کی گئی ہیں تم ان سے کیوں استفادہ نہیں کرتے۔ ذمہ داریوں کی ادائیگی کے لئے یہ تمہیں قوت بخشتی ہیں۔ علاوہ ازیں یہ تمہیں شکر و عبادت کے لئے پروردگار کی یاد دلاتی ہیں۔
اسی سورہ کی آیت ۱۶۸۔ یا ایھا الناس کلوا مما فی الارض۔ کا اگر اس آیت سے تقابل کیا جائے تو وہ لطیف نکتے سمجھ میں آتے ہیں۔
۱۔ یہاں فرماتاہے: من طیبت ما رزقنکم (پاک غذاؤں میں سے جو کچھ ہم نے تمہیں دیا ہے) جب کہ وہاں فرماتا سے: مما فی الارض (جو کچھ زمین میں ہے) یہ فرق گویا اس طرف اشارہ ہے کہ پاکیزہ نعمتیں اصل میں ایماندار افراد کے لئے پیدا کی گئی ہیں اور بے ایمان لوگ ان کے صدقے میں روزی حاصل کرتے ہیں۔ جیسے باغبان پانی تو پھلوں اور پھولوں کے لئے دیتاہے لیکن کانٹے اور فضول گھاس پھوس بھی اس سے فائدہ اٹھالیتی ہے۔
۲: عام لوگوں سے کہتاہے: کھاؤ و لیکن شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو۔ جب کہ مومنین سے زیر نظر آیت میں کہتاہے: کھاؤ اور خدا کا شکر ادا کرو۔ یعنی صرف نعمتوں سے سوء استفادہ سے نہیںروکتا بلکہ حسن استفادہ کی شرط عاید کرتاہے۔
در حقیقت عام لوگوں سے صرف یہ خواہش کی جاتی ہے کہ وہ گناہ نہ کریں لیکن صاحبان ایمان سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ ان نعمتوں کا بہترین استعمال کریں۔
ممکن ہے پاکیزہ غذاؤں سے استفادہ کرنے کے بارے میں متعدد آیات میں بار بارکی کی تائید بعض لوگوں کے لئے تعجب کا باعث ہو لیکن اگر زمانہ جاہلیت کی تاریخ پر نظر کی جائے تو یہ حیرت نہیں رہتی۔ ان لوگوں نے بیہودہ رسومات و آداب اختیار کررکھے تھے۔ بغیر کسی دلیل کے جائز نعمتوں کو اپنے اوپر حرام قرار دے رکھا تھا اور یہ بات ان میں اس طرح راسخ تھی کہ وہ ان امور کو وحی آسمانی کی طرح سمجھتے تھے بلکہ بعض اوقات تو بالصراحت ایسی نسبت خدا کی طرف دیتے تھے۔ اس لئے قرآن نے اتنی تاکید و تکرار کی ہے کیونکہ قرآن یہ بے بنیاد اور بے ہودہ افکار ان کے ذہنوں سے پوری طرح نکال دینا چاہتاہے۔
طیب غذاؤں کا ذکر سب کو اس اسلامی حکم کی اہمیت کی طرف متوجہ کرتاہے تاکہ وہ آلودہ اور نا پاک غذاؤں سے پرہیز کریں جن میں سور کا گوشت ،درندے، حشرات الارض اور نشہ آور چیزیں شامل ہیں اور یہ چیزیں اس زمانے کے لوگوں میں شدت و کثرت سے مروج تھیں۔
اس تفسیر کی چھٹی جلد میں سورہ اعراف کی آیہ ۲۲ کے ضمن میں مومنین کے لئے پاکیزہ غذاؤں اور معقول زینتوں سے استفادہ کرنے کے متعلق تفصیلی بحث آئے گی۔
اگلی آیت میں حرام اور ممنوع غذاؤں کو واضح کیاگیاہے اور اس سلسلے میں ہر طرح کے بہانوں کو ختم کردیاگیاہے۔ ارشاد ہوتاہے : خدانے مردار کا گوشت، خون، سورکا گوشت اور اس جانور کا گوشت جسے ذبح کرتے ہوئے غیر خدا کا نام لیاجائے حرام گیاہے (انما حرم علیکم المیتة و الدم و لحم الخنزیر و ما اہل بہ لغیر اللہ
یہاں پر چار طرح کے گوشت اور خون کی حرمت کا حکم ہے۔ یاد ہے کہ خون ان لوگوں کو بہت مرغوب تھا۔ ان میں سے بعض چیزوں میں تو ظاہری نجاست ہے جیسے مردار، خون اور سور کا گوشت اور بعض میں معنوی نجاست ہے جیسے وہ قربانیاں جو وہ بتوں کے لئے کیاکرتے تھے۔
آیت سے بالعموم اور لفظ ”انما“ جو کلمہ حصر ہے اور اصطلاحی طور پر حصر اضافی ہے سے بالخصوص ظاہر ہوتاہے کہ مقصد تمام محرمات کو بیان کرنا نہیں بلکہ اصل غرض بدعات کی نفی ہے جو بعض حلال غذاؤں کو حرام قرار دے کر انہوں نے جاری کی ہوئی تھیں۔ بہ الفاظ دیگر انہوں نے کچھ پاکیزہ اور حلال گوشت خرافات اور توہمات کے نتیجے میں اپنے اوپر حرام قرار دیئے ہوئے تھے۔ لیکن غذا کی کمی کے وقت وہ مردار، سور کا گوشت اور خون تک استعمال کرلیتے تھے۔ قرآن انہیں بتاتاہے کہ یہ تمہارے لئے حرام ہیں نہ کہ وہ اور یہی حصر اضافی کا مطلب ہے)۔
بعض اوقات ایسی ضروریات پیش آتی ہیں کہ انسان بعض حرام چیزوں کے استعمال پر بھی مجبور ہوجاتاہے لہذا قرآن اس استثنائی پہلو کے بارے میں کہتاہے: لیکن جو شخص (اپنی جان کے تحفظ کے لئے) مجبور ہوکر انہیں کھالے تو اس پر کوئی گناہ نہیں بشرطیکہ و ہ ظالم و متجاوز نہ ہو (فمن اضطر غیر باغ و لا عاد فلا اثم علیہ)۔ اس بناء پر کہ کہیں اضطرار کو بہانہ ہی نہ بنالیاجائے ان حرام غذاؤں کے کھانے میں زیادتی اور تجاوز روکنے کے لئے ”غیر باغ و لا عاد“ فرمایا گیاہے۔
یعنی یہ اجازت صرف، ان افراد کے لئے ہے جو ان محرمات کو لذت کے لئے نہ کھانا چاہیں اور اتناہی کھائیں جتنا حفظ جان کے لئے ضروری ہو اس سے تجاوز نہ کریں۔ باغ ٍاور عادٍ اصل میں باغی اور عادی ہیں۔ باغی کا مادہ ہے ”بغی“جس کا معنی ہے طلب کرنا یہاں مقصود طلب لذت ہے اور عادی متجاوز کے معنی میں ہے۔
”غیر باغ و لا عاد“ کی ایک اور تفسیر بھی مذکور ہے جو پیش کر دہ مفہوم سے متضاد نہیں۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ دونوں معانی آیت کے مفہوم میں شامل ہوں۔ وہ تفسیر یہ ہے کہ ”بغی“ کا ایک معنی ظلم و ستم بھی ہے۔ لہذا مقصد یہ ہوا کہ حرام گوشت کھانے کی اجازت فقط ان لوگوں کے لئے ہے جو ظلم و ستم اور گناہ کا سفر نہ کررہے ہوں (سفر کا ذکر اس لئے ہے کہ عموما اضطراری کیفیت اور مجبوری کی حالت سفر میں ہی در پیش ہوتی ہے) لہذا اگر سفر گناہ کے لئے ہو اور مسافر حالت مجبوری کو پہنچ جائے کہ حفظ جان کے لئے اسے حرام غذا کھانی پڑے تو اس کا گناہ اس کے نامہ اعمال میں لکھا جائے گا۔ دوسرے لفظوں میں اگر چہ ان ستمگروں کے لئے بحکم عقل واجب ہے کہ جان کی حفاظت کے لئے ایسے حرام گوشت کھائیں لیکن یہ وجوب ان کی مسئولیت اور ذمہ داری میں کمی نہیں کرسکے گا۔
وہ روایات جو یہ کہتی ہیں کہ یہ آیت ان لوگوں کے بارے میں ہے جو امام مسلمین کے خلاف اقدام نہ کریں در اصل ایسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہیں جیسے نماز مسافر کے احکام میں آیاہے کہ نماز قصر صرف ان مسافروں کے لئے ہے جن کا سفر حرام نہ ہو۔ اسی لئے ”غیر باغ و لا عاد“ سے روایات میں دونوں احکام کے لئے استدلال کیاگیاہے (یعنی نماز مسافر اور حالت اضطرار میں گوشت کھانے کے احکام)۔۱


 


۱- امام صادق سے ایک روایت ہے کہ آپ نے مندرجہ بالا آیت کی تفسیر میں فرمایا:
باغی سے مراد وہ ہے جوشکار کے پیچھے سیر و تفریح کے طور پر (نہ کہ ضرورت و احتیاج کے لئے جائے اور عادی سے مراد چورہے۔ یہ دونوں حق نہیںکھتے کہ مردار کا گوشت کھائیں وہ ان کے لئے حرام ہے اور یہ نماز قصر بھی نہیں پڑھ سکتے۔ (وسائل الشیعہ، ج۵، ص۵۰۹)
آیت کے آخر میں فرمایا: خدا غفور و رحیم ہے (ان اللہ غفور رحیم) وہی خدا جس نے یہ گوشت حرام قرار دیے ہیں اسی نے اپنی رحمت خاص سے شدید ضرورت کے وقت ان سے استفادہ کرنے کی اجازت بھی دے دی ہے۔

 ینعق کا مفہوم:  حرام گوشت کی تحریم کا فلسفہ:
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma