اس سورہ کی سات آیات میں سے ہر ایک، ایک اہم مقصد کی طرف اشارہ کرتی ہے
”بسم اللہ“ ہر کام کی ابتداء کا سرنامہ ہے اور ہر کام کے شروع کرتے وقت ہمیں خدا کی ذات پاک سے مدد طلب کرنے کی تعلیم دیتی ہے۔
”الحمد للہ رب العالمین“ یہ اس بات کا درس ہے کہ تمام نعمتوں کی برگشت او رتمام موجودات کی پرورش و تربیت کا تعلق صرف اللہ کے ساتھ ہے۔ یہ امر اس حقیقت سے مربوط ہے کہ تمام عنایات کا سر چشمہ اسی کی ذات پاک ہے۔
” الرحمن الرحیم“ یہ اس بات کا تکرار ہے کہ خدا کی خلقت، تربیت او رحاکمیت کی بنیاد رحمت و عطوفت پر ہے اور دنیا کا نظام تربیت اسی قانون پر قائم ہے۔
”مالک یوم الدین“ یہ آیت معاد، اعمال کی جزا و سزا اور اس عظیم عدالت میں خدا وند عالم کی حاکمیت کی جانب توجہ دلاتی ہے۔
” ایاک نعبد و ایاک نستعین“ یہ توحید عبادی کا بیان ہے اور انسانوں کے لئے اس اکیلے مرکز کا تذکرہ ہے جو سب کا آسرا او رسہارا ہے۔
”اھدنا الصراط المستقیم“ یہ آیت بندوں کی احتیاج ہدایت اور اشتیاق ہدایت کو بیان کرتی ہے۔ یہ آیت اس طرف بھی توجہ دلاتی ہے کہ ہر قسم کی ہدایت اسی کی طرف سے ہے۔
سورہ کی آخری آیت اس بات کی واضح اور روشن نشانی ہے کہ صراط مستقیم سے مراد ان لوگوں کی راہ ہے جو نعمات الہیہ سے نوازے گئے ہیں اور یہ راستہ مغضوب اور گمراہوں کے راستے سے جدا ہے۔
ایک لحاظ سے یہ سورہ دو حصوں میں تقسیم ہوجاتی ہے۔ ایک حصہ خدا کی حمد وثناء ہے اور دوسرا بندے کی ضروریات وحاجات۔ عیون اخبار الرضا، میں سرکار رسالت(ص) سے اس سلسلے میں ایک حدیث بھی منقول ہے۔ آپ(ص) نے فرمایا :
خدا وندعالم کا ارشاد ہے کہ میں نے سورہ حمد کو اپنے اور اپنے بندوں کے درمیان تقسیم کردیا ہے ، لہذا میرا بندہ حق رکھتا ہے کہ وہ جو چاہے مجھ سے مانگے۔ جب بندہ کہتا ہے ”بسم اللہ الرحمن الرحیم“ تو خدائے بزرگ و برتر ارشاد فرماتا ہے میرے بندے نے میرے نام سے ابتداء کی ہے مجھ پر لازم ہے کہ میں اس کے کاموں کو آخر تک پہنچادوں اور اسے ہر حالت میں برکت عطا کروں۔ جب و ہ کہتا ”الحمد للہ رب العالمین“ تو خدا وند تعالی فرماتا ہے میرے بندے نے میری حمد وثنا کی ہے۔ اس نے سمجھا ہے کہ جو نعمتیں اس کے پاس ہیں وہ میری عطا کردہ ہیں لہذا میں مصائب کو اس سے دور کئے دیتا ہوں۔ گواہ رہو کہ میں دنیا کی نعمتوں کے علاوہ اسے دار آخرت میں بھی نعمات سے نوازوں گا اور اس جہان کے مصائب سے بھی اسے نجات عطا کروں گا۔ جیسے اس دنیا کی مصیبتوں سے اسے رہائی دی ہے۔ جب وہ کہتا ہے ”الرحمن الرحیم“ تو خدا وند عالم فرماتا ہے میرا بندہ گواہی دے رہا ہے کہ میں رحمن و رحیم ہوں۔ گواہ رہو کہ میں اس کے حصے میں اپنی رحمت و عطیات زیادہ کئے دیتا ہوں۔ جب وہ کہتا ہے ”مالک یوم الدین“ تو خدافرماتا ہے کہ گواہ رہو جس طرح اس نے روز قیامت میری حاکمیت و مالکیت کا اعتراف کیا ہے حساب و کتاب کے دن میں اس کے حساب و کتاب کو آسان کردوں گا۔ اس کی نکیوں کو قبول کرلوں گااور اس کی برائیوں سے در گذر کروں گا۔ جب وہ کہتا ہے ”ایاک نعبد“ تو خداتعالی فرماتا ہے میرا بندہ سچ کہہ رہا ہے وہ صرف میری عبادت کرتاہے۔ میں تمہیں گواہ قرار دیتا ہوں کہ اس خالص عبادت پر میں اسے ایسا ثواب دوں گا کہ وہ لوگ جو اس کے مخالف تھے اس پر رشک کریں گے جب وہ کہتا ہے ”ایاک نستعین“ تو خدا فرماتا ہے میرے بندے نے مجھ سے مدد چاہی ہے اور صرف مجھے سے پناہ مانگی ہے گواہ رہو اس کے کاموں میں ، میں اس کی مددکروں گا۔ سختیوں اور تنگیوں میں اس کی فریاد پہنچوں گا اور پریشانی کے دن اس کی دستگیری کروں گا جب وہ کہتا ہے” اھدنا الصراط المستقیم“ ولا الضالین“ تو خدا وند عالم فرماتا ہے میرے بندے کی یہ خواہش پوری ہوگئی ہے اب جو کچھ وہ چاہتا ہے مجھ سے مانگے میں اس کی دعا قبول کروں گا۔ جس چیز کی امید لگائے بیٹھا ہے وہ اسے عطا کروں گا، اور جس چیز سے خائف ہے اس سے مامون قرار دوںگا(۱)۔