لوگوں کی پروردگار کی پناہ ما نگتا ہوں

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونه جلد 27
اس سورہ کی تلاوت کی فضیلت ۱۔ ہم خدا کی پناہ کیوں ما نگتے ہیں ؟

اس سور ہ میں ،جو قرآن مجید کا آخری سورہ ہے ،لوگوں کے لیے نمونہ اور پیشواہونے کے لحاظ سے خود پیغمبر کی طرف روئے سخن کرتے ہوئے فر ماتا ہے :”کہہ دیجئے ،میں لوگوں کے پرور دگار کی پناہ مانگتا ہوں ۔“(قل اعوذ برب الناس)
”لوگوں کے مالک و حاکم کی ۔“(ملک الناس
”لوگوں کے خدا و معبود کی ۔“(الٰہ الناس
قابل توجہ بات یہ ہے کہ یہاں خدا کے عظیم او صاف میں سے تین اوصاف (ربو بیت ،ملکیت اور الو ہیت ) کا ذکر ہوا ہے جو سب کی سب براہ ِراست انسان کی تر بیت اور وسوسے ڈالنے والوں کے چنگل سے نجات کے ساتھ ار تبا ط رکھتی ہیں ۔
البتہ خدا سے پناہ ما نگنے سے مراد یہ نہیں ہے کہ انسان صرف زبان سے یہ جملہ کہے ،بلکہ فکر و نظر اور عقیدہ و عمل کے ساتھ بھی انسان خود کو پناہ میں قرار دے ۔شیطانی راستوں ،شیطانی پرو گراموں ،شیطانی افکار و تبلیغات ،شیطانی مجالس و محا فل سے خود کو دور رکھے ،اور رحمانی افکار و تبلیغات کے راستے کو اختیار کرے ۔ورنہ وہ انسان جو عملی طور پر ان وسوسوںکے طو فان میں ٹہرا رہے گا وہ صرف اس سورہ کے پڑھنے اور ان الفاظ کے کہنے سے کہیں نہیں پہنچے گا ۔
وہ ”رب الناس “کہنے کے ساتھ پرور دگار کی ربوبیت کا اعتراف کرتا ہے اور خود کو اس کی تر بیت میں قرار دیتا ہے ۔
”ملک الناس “کہنے سے خود کو اس کی ملکیت سمجھتا ہے اور اس کے فر مان کا بندہ ہو جاتا ہے ۔
اور ”الٰہ الناس “کے کہنے سے اس کی عبو دیت کے راستہ میں قدم رکھ دیتا ہے اور اس کے غیر کی عبادت سے پر ہیز کرتا ہے ۔اس میں شک نہیں ہے کہ جو شخص ان تینوں صفات پر ایمان رکھتا ہو اور خود کو ان تینوں کے ساتھ ہم آہنگ کر لے ،وہ وسوسہ ڈالنے و الوں کے شر سے امان میں رہے گا ۔
در حقیقت یہ تینوں اوصاف تین اہم تربیتی درس،پیش رفت کے تین پرو گرام اور وسوسے ڈالنے والوں کے شر سے نجات کے تین ذریعے ہیںاور یہ سورہ انسان کا ان کے مقابلہ میں بیمہ کر دیتا ہے ۔
اسی لیے بعد والی آیت میں مزید کہتا ہے:”وسوسے ڈالنے والے خناس کے شر سے “(من شر لو سواس الخناس
”وہی جو انسان کے سینوں میں وسوسے ڈالتے ہیں ۔“(الذی یو سوس وصدور الناس
”جنوں اور انسانوں میں سے وسوسے ڈالنے والے ۔“(من الجنتہ والناس
”وسواس“کا لفظ”مفر دات “میں” راغب “کے قول کے مطابق اصل میں ایسی آہستہ آواز ہے جو آلات زینت کے آپس میں ٹکرانے سے پیدا ہوتی ہے ۔
اس کے بعد ہر آہستہ آواز پر بولا جانے لگا اور اس کے بعد ایسے نا مطلوب اور برے افکار و خیالات پر،جو انسان کے دل و جان میں پیدا ہوتے ہیں ،اور ایسی آہستہ آواز کے مشابہ جو کان میں کہی جاتی ہے ،اطلاق ہوا ہے ۔
”وسواس “مصدری معنی رکھتا ہے ،بعض اوقات ”فاعل“(وسوسہ ڈالنے والا )کے معنی میں بھی آتا ہے ،اور زیر بحث آیت میں یہی معنی ہے ۔
”خناس “”خنوس “(بر وزن خسوف )کے مادہ سے ،صیغہ مبا لغہ ہے ،جو جمع ہونے اور پیچھے جانے کے معنی میں ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ جب خدا کا نام لیا جاتا ہے تو شیا طین پیچھے ہٹ جاتے ہیں اور چو نکہ یہ کام پنہاںہونے کے ساتھ توام ہے ،لہٰذا یہ لفظ”اختفاء“کے معنی میں بھی آیا ہے ۔
اس بناء پر آیات کا مفہوم اس طرح ہو گا :”کہہ دیجئے میں شیطان صفت وسوسہ ڈالنے والے کے شر سے ،جو خدا کے نام سے بھاگتا ہے اور پنہاں ہو جاتا ہے ،خدا کی پنہاں ما نگتا ہوں ۔“
اصولاََ” شیا طین “اپنے پرو گراموں کو چھپ کر کرتے ہیںاور بعض اوقات انسان کے دل کے کان میں اس طرح سے پھو نک مارتے ہیں کہ انسان یہ یقین کر لیتا ہے کہ یہ فکر خود اسی کی فکر ہے اور خود اسی کے دل میںخود بخود پیدا ہوئی ہے ،یہی بات اس کے بہکنے اور گمراہی کا سبب بن جاتی ہے ۔شیاطین کا کام زینت دینا ،باطل کو حق کے لعاب میں چھپانا ،جھوٹ کو سچ کے چھلکے میں لپیٹ کر گناہ کو عبادت کے لباس میں اور گمراہی کو ہدایت کے سر پوش میں پیش کر نا ہے ۔
خلاصہ یہ ہے کہ وہ بھی مخفی ہوتے ہیں اور ان کے پرو گرام بھی پنہاہ ہوتے ہیں ،اور یہ راہ حق کے ان تمام رہ روؤں کے لیے ایک تنبیہہ ہے جو یہ تو قع نہیں رکھتے کہ شیاطین کو ان کے اصلی چہرے اور قیا فہ میں دیکھیں ،یا ان کے پروگر ا موںکو انحرافی شکل میں مشا ہدہ کریں ۔سو چنے کی بات ہے ،وسوسے ڈالنے والے خناس ہوتے ہیںاور ان کا کام چھپانا ،جھو ٹ بولنا،دھوکا دینا، ریا کاری کرنا،ظاہر سازی اور حق کو پو شید ہ کرنا ہے ۔
اگر وہ اصلی چہرے میں ظاہر ہو جائیں،اگر وہ باطل کو حق کے ساتھ نہ ملائیں ،اگر وہ صریح اور صاف بات کریں تو علی علیہ السلام کے قول کے مطابق لم یخف علی المرتادین :خدا کی راہ پر چلنے والوں پر مطلب مخفی نہیں رہتا ۔
وہ ہمیشہ کچھ حصہ تو ”اس“سے لیتے ہیں ،اور کچھ حصہ ”اس “سے اور انہیں آپس میں ملا دیتے ہیں ،تاکہ لوگوں پر مسلط ہو سکیں،جیساکہ امیر المومنین علیہ السلام اسی گفتگوکو جاری رکھتے ہوئے فر ماتے ہیں :فھنالک یستولی الشیطان علی او لیائہ “۱
الذی یو سوس فی صدور الناس “کی تعبیر ،اور لفظ ”وسوسہ “کا انتخاب ،اور لفظ ”صدور “(سینے )بھی اسی معنی کی تا کید ہیں۔
یہ سب کچھ تو ایک طرف ،دوسری طرف سے ”من الجنةوالناس “کا جملہ خبر دار کرتا ہے کہ ”وسوسے“ڈالنے والے خناس ،صرف ایک ہی گروہ ،ایک ہی جماعت ،ایک ہی طبقہ ،اور ایک ہی لباس میں نہیں ہوتے ،بلکہ یہ جن و انس میں پھیلے ہوئے ہیں اور ہر لباس اور ہر جماعت میں پائے جاتے ہیں ۔لہٰذا ان سب پر نظر رکھنی چا ہیئے اور ان سب کے شر سے خدا کی پناہ ما نگنی چا ہیئے ۔
نا مناسب دوست ،منحرف ہم نشین ،گمراہ اور ظالم اور پیشوا ،جبار اور طاغوتی کا رندے ،فاسد مقر رین اور لکھنے والے ،ظاہر فر یب الحادی والتقاطی مکاتب اور اجتماعی طور پر وسوسے ڈالنے والوں کے وسائل ارتباط سب کے سب ”وسو اس خناس “کے وسیع مفہوم میں داخل ہیں کہ جن کے شر سے انسان کو خدا کی پناہ ما نگنی چا ہیئے ۔


 

۱۔ ”نہج البلاغہ “خطبہ ۵۰

اس سورہ کی تلاوت کی فضیلت ۱۔ ہم خدا کی پناہ کیوں ما نگتے ہیں ؟
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma