کمالِ مطلق کی طرف رنج آمیز سعی و کوشش

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونه جلد 27
تلاوت کی فضیلت ۱۔ ایسی حدیث جس میں اعجاز ہے

جیسا کہ ہم نے اس سورہ کے مضامین کی تشریح میں کہا ہے ، اس سورہ کے آغاز میں ہی عظیم او رعجیب دنیا کے اختتام کے حوادث کی طرف اشارہ ہو اہے۔ پر وردگارِ عالم فرماتا ہے :
” جب آسمان میں شگاف پڑ جائیں گے اور آسمانی اجرام پراکندہ ہوجائیں گے او رنظام کواکب درہم و بر ہم ہو جائے گا “ ( اذا السماء انشقت)۔ ۱
اس کی نظیر جو سورہٴ انفطار کی آئی ہے ، اس میں فرماتا ہے : ( اذاالسماء انفطرت و اذا الکواکب انتثرت) جس وقت آسمان میں شگاف پڑ جائیں گے اور ستارے پراکندہ ہوجائیں گے اور بکھر جائیں ۔ ( انفطار۔ ۱،۲)۔اور یہ اختتام دنیا اور اس کی خرابی و فنا کا اعلان ہے ۔ اس کے بعد مزید فرماتاہے :
” اور کے پروردگار کا حکم تسلیم کیاجائے گا اور حقیقت میں ایسا ہی ہونا چاہئیے “ ( و اذنت لربھا و حقت )، مبادایہ تصور ہوکہ انسان اس عظمت کے باوجود حکم الہٰی کا معمولی سامقابلہ بھی کرے، وہ مطیع و فرمانبردار بندے کی طرح ہے ، جس کا اس کے حکم کے سامنے مکمل طور پر سرِ تسلیم خم ہے ۔
اذنت“ اصل میں ” اذن“ ( بر وزن افق) سے جو کان کے معنی میں ہے، لیا گیا ہے اور اس کے معنی کان لگاکر سننا ہےں اور یہاں اطاعت ِ فرمان کا کنایہ ہے ۔ ” حقت“ حق کے مادہ سے شائستہ لائق اور سزا وار کے معنی میں ہے ۔ کس طر ح ہوسکتا کہ وہ سر تسلیم خم نہ کرے جبکہ لمحہ بہ لمحہ وجود خدا ہی سے اس کو فیض پہنچ رہا ہو۔ اگر ایک لمحہ کے لئے بھی یہ رابطہ منقطع ہو جائے تو یہیں ختم ہو کر رہ جائے۔
جی ہاں ! آسمان و زمین نہ صرف آغاز ِ خلقت میں سورہ حٰم سجدہ کی آیت ۱۱ ( قالتا اتینا طائعین ) کے مطابق ، حق تعالیٰ کے فرمان کے مطابق ، حق تعالیٰ کے فرمان کے مطیع تھے ، بلکہ عمر کے اختتام میں بھی ایسے ہیں ۔
بعض مفسرین نے یہ بھی کہا ہے کہ ” حقت“ کے جملہ سے مراد یہ ہے کہ قیامت کی وحشت اور اس کا خوف ایسا ہے کہ سزا وار ہے کہ آسمان پھٹ جائیں اور شگافتہ ہوجائیں ، لیکن پہلی تفسیر زیادہ مناسب نظر آتی ہے اور بعد والے مرحلہ میں زمین کی کیفیت کی طرف اشارہ کرتے ہو ئے فرماتا ہے :
” اور جس وقت زمین کھینچی جائے گی اور وسیع کی جائے گی “ ( واذا الارض مدت) پہاڑ قرآن کی بہت سی آیات کی شہادت کے مطابق مکمل طور پر پراکندہ ہ وجائیں گے اور تمام بلندیاں اور پستیاں ختم ہوجائیں گی، زمین صاف و شفاف، وسیع و عریض اور اپنے صحن میں تمام بندوں کے حضور کے لئے آمادہ ہو جائے گی۔
جیساکہ سورہ طٰہٰ کی آیت ۱۰۵تا ۱۰۷ میں فرماتا ہے : ( یسئلونک عن الجبال فقل ینسیفھا ربی نسفاً فیذرھا قاعاً صفصفاً ترٰی فیھا عوجاً و لاامتاً)۔ تجھ سے پہاڑوں کے بارے میں سوال کرتے ہیں ، کہہ دے میرا پروردگار انہیں ہو امیں اڑائے گا اور بر باد کردے گا پھر زمین کو ہموار اور صاف کرے گا ، اس طرح کہ تو اس میں کوئی بلندی و پستی نہیں دیکھے گا اور اس قسم کی دادگاہ و عدالت جس میں اولین و آخرین جمع ہو ں ، اس کے لئے ایسے میدان کی ضرورت ہے ۔
بعض مفسرین نے کہا کہ آیت کے معنی یہ ہیں کہ خدا ایسی زمین کو قیامت میں اس سے کہیں زیادہ وسیع کردے گا کہ جس حالت میں اب ہے ، تاکہ مخلوق کے حشر کے لئے اس میں زیادہ سے زیادہ آمادگی ہو۔ 2
تیسرے مرحلہ میں مزیدکہتا ہے :” زمین اس چیز کو جو اس کے اندر ہے، باہر پھینک کر خالی ہوجائے گی “ ( القت مافیھا و تخلت)۔ مفسرین کے درمیان مشہور یہ ہے کہ آیت کا مفہوم یہ ہے کہ تمام وہ مردے ، جو مٹی اور قبروں میں آرام کر رہے ہیں ، اچانک باہر پھینک دئیے جائیں گے اور وہ لباسِ زندگی زیب تن کریں گے ۔
یہ اس کے مشابہ ہے جو سورہ زلزال میں آیا ہے ( اخرجت الارض اثقالھا )۔زمین اپنے وزنی بوجھ باہرنکالے گی۔ یا جو کچھ سورہ نازعات آیت ۱۳ ۔ ۱۴ میں آیاہے ( فانماھی زجرة واحدة فاذاھم بالساھرة)صرف ایک ہی صحیحہ ہو گا اور اس کے بعد سب کے سب صفحہٴ زمین پر ظاہرہو جائیں گے ۔
بعض مفسرین نے کہاکہ انسانوں کے علاوہ معدنیات اور خزانے جو زمین میں پوشیدہ ہیں ، سب کے سب زمین سے باہر آجائیں گے ۔
اس آیت کی تفسیر میں یہ احتمال بھی ہے کہ زمین کے اندر پگھلاہو امواد ہولناک اور وحشت ناک زلزلوں کی وجہ سے کلی طور پر باہرآکر گرے گا اور وہ تمام پستیوں کو پر کردے گا اس کے بعد زمین کے اندر کا حصہ بالکل خالی اور ساکن ہو جائے گا ۔
ان معانی کے درمیان جمع ہو نے میںبھی کوئی چیز مانع نہیں ہے ۔ اس کے بعد مزید کہتا ہے :
” اس کے بعد زمین اپنے پروردگار کے سامنے سر تسلیم ختم کردے گی اور سائستہ و لائق ہے کہ سر تسلیم خم کرے “ ( و اذنت لربھا و حقت)۔ یہ عظیم حوادث ، جو تمام موجوادت کے سر تسلیم خم کرنے کے ساتھ لازم وملزول ہیں ، ایک طرف تو اس دنیا کے فنا ہونے کو بیان کرتے ہیں ، زمین و آسمان م انسانوں ، خزانوں اور گنجینوں کی فنا، اور دوسری طرف عالم آفرینش میں نئے عالم ہستی کے ایجاد کی دلیل ہیں ۔ اور تیسرے خدا وندِ عظیم و بزرگ کی ہر چیز خصوصاً معاد و قیامت پر قدرت کی نشانی ہیں ۔
جی ہاں ! جب یہ حوادث واقع ہوں تو انسان اپنے نیک وبد اعمال کا نتیجہ دیکھ لیتا ہے ۔ ( یہ ایسا جملہ ہے جو تقدیر میں ہے ) ۔ اس کے بعد انسان کومخاطب کرتے ہوئے اور اس راہ میں جو ان کی سر نوشت ہے ، ان کے لئے واضح کرتے ہوئے فر ماتاہے :
” اے انسان تو سعی و کوشش اور رنج و تکلیف کے ساتھ اپنے پروردگار کی طرف بڑھ رہاہے اور آخر کار اس سے ملاقات کرے گا “(یا ایھا الانسان انک کادح ٌالی ٰ ربک کدحاً فملاقیہ ) ۔
کدح“ ( بر وزن مدح ) سعی و کوشش کے معنی میں ہے ، جو رنج و تعب کے ہمراہ ہو اورجسم و جان پر اثر انداز ہو۔ اسی لئے سخت محنت کرنے والے بیل کو ، جس میں کام کرنے کے آثار ظاہر ہوں ، ” ثورینہ کدوح “ کہتے ہیں۔
تفسیر کشاف، فخر رازی اور المعانی میں آیاہے کہ یہ لفظ اصل میں خراش کے معنی میںہے جو کھال پر لگ جاتی ہے ۔ اسی مناسبت سی ان کوششوں پر ، جو انسانی پر اثر انداز ہوں ، اس کا اطلاق ہو اہے ۔
یہ آیت ایک بنیادی اصل کی طرف اشارہ ہے جو تمام انسانوںکی حیات میں موجود ہے اور وہ یہ ہے کہ زندگی ہمیشہ زحمت اور رنج و تعب اپنے ساتھ رکھتی ہے ۔ اگر مقصود صرف متاعِ دنیا تک پہنچنا ہی ہو ، تب بھی ، چہ جائیکہ مقصود آخرت ، سعادت جاوداں اور قرب ِ پروردگار ہو۔
دنیاوی زندگی کی یہ طبیعت اور اس کا یہ مزاج ہے یہاں تک کہ وہ افراد جو انتہائی خوش حالی سے عمر گزارتے ہیں وہ بھی رنج و زحمت اور درد و تکلیف سے بچے ہوئے نہیں ۔
پروردگار کی ملاقات کی تعبیر سے یہاں مراد چاہے قیامت کے منظر کا دیکھنا ہو ، جو اس کی حاکمیتِ مطلقہ کا مظہرہے، یا اس کی جزا و سزا کا آمنا سامنا ہو ، شہود باطن کے طریقہ سے خود اس کی ملاقات ہو۔
اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ رنج و تعب اس دن تک جاری رہے گااور اس وقت ختم ہو گا جب اس دنیا کا سلسلہ ختم ہو جائے گا اور انسا ن پاکیزہ عمل کے ساتھ اپنے خدا سے ملاقات کرے گا ۔
جی ہاں ! رنج و تعب کے بغیر راحت و آرام صرف وہم ہے۔ ” انسان “ کے لفظ سے خطاب ، جو ساری نوع انسانی پر حاوی ہے ،( انسان کی انسانیت پر انحصار کی طرف توجہ کرتے ہوئے ) اس حقیقت کو بیان کرتاہے کہ خدا نے ضروری یہ توانائیاں اس اشرف المخلوقات میں پیدا کی ہیں اور عنوانِ رب پرانحصار اس طرف اشارہ ہے کہ یہ سعی و کوشش انسانیت کے تکامل و تربیت کے نظام الاوقات کاایک جز ہے ۔
جی ہاں ! ہم سب مسافر ہیں جنہوں نے سر حد عدم سے رختِ سفر باندھا ہ اور اقلیم وجود میں قدم رکھاہے ، ہم سب ا س کی راہ عشق کی راہ رو ہیں اور دوست کے رخ ِ انور کی مقناطیسی کشش کی بنا پر آئے ہیں ۔
اس تعبیر کی نظیر قرآن مجید کی دوسری آیات میں بھی آئی ہے ، مثلاً ( و ان الیٰ ربک المنتھیٰ ) اور یہ تمام امور تیرے پر وردگار کی طرف لوٹتے ہیں اور تمام خظوط اسی پر منتھیٰ ہوتے ہیں ۔( نجم۔ ۴۲) نیزفرماتا ہے : ( و الیٰ اللہ المصیر ) ” سب کی باز گشت خدا کی طرف ہے “ (فاطر۔ ۱۸)۔ اور دوسری آیات سب یہ بتاتی ہیں کہ موجودات کے تکامل کا یہ راستہ خداوند متعال کی طرف جاتا ہے لیکن یہاں تمام انسان دو گروہوں میں تقسیم ہو جاتے ہیں ، جیسا کہ فرماتا ہے :
” لیکن یہ شخص جس کا نامہ اعمال اس کے دائیں ہاتھ میں دیا گیا، عنقریب اس کا آسان حساب کتاب ہو گا“ ( فاما من اوتی کتابہ بیمینہ فسوف یحاسب حسابا ً یسیراً
اور وہ مسرور ہوکر اپنے اہل خانہ کی طرف پلٹ جائے گا ( و ینقلب الیٰ اہلہ مسرواً )۔ یہ ایسے لوگ ہیں جو آفرینش کے مدارِ اصلی میں ، وہی مدار جو خدانے اس انسان کے لئے اس کے سر مایوں ، طاقتوں اور توانائیوں کے لئے معین کیاہے ، حرکت کرتے ہیں اور ان کی سعی و کو شش ہمیشہ خدا کے لئے ہے اور ان کی حرکت خدا کی طرف ہے۔
وہاں ان کا نامہ اعمال ان کے دائیں ہاتھ میں دیں گے ۔ ان کے اعمال کی پاکیز گی ، ایمان کی سحت او رقیامت میں نجات کی علامت ہے اور ہل محشر کے مقابلہ میں سر فرازی و سر بلندی کا سبب ہے ۔
جس وقت میزان عدل کے نیچے کھڑے ہوں گے ، وہ میزان جو کم سے کم میزان کو تولتی ہے ، تو خدا ان کا حساب کتاب آسان کردے گا ، ان کی لغزشوں سے در گزر کرے گا اور ایمان و عمل صالح کی وجہ سے ان کی سیٴات کو حسنات مین تبدیل کردے گا۔
یہ کہ ” حساب یسیر“سے مکی امراد ہے ، بعض مفسرین نے کہا کہ اس سے مراد سہل و آسان حساب ہے جس میں سخت گیری و دقت نہ ہو، برائیوں سے در گزر اور حسنات کا اجر ہو ۔
ایک حدیث میں پیغمبر اسلام  سے منقول ہے : ( ثلاث من کن فیہ حاسبہ اللہ حساباً یسیراً و ادخلہ الجنة
برحمتہ قالوا و ما ھی یا رسول اللہ ؟ قال تعطی من حرمک و تصل من قطعک و تعفو عمن ظلمک
)
تین چیزیں جس شخص میں موجود ہوں خدا اس کے حساب کو آسان کر دے گا ، اور اس کو اپنی رحمت سے جنت میں داخل کردے گا ۔ لوگوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ  وہ کونسی چیزیں ہیں ؟ آپ نے فرمایا تو اس کو عطا کر جو تجھے محروم کرے ، اس سے صلہٴ رحم جو تجھ سے قطع رحم کرے اور اس کو معاف کر جو تجھ پر ظلم کرے ۔ 3
یہ مفہوم روایات سے بھی ظاہر ہوتاہے کہ قیامت میں حساب و کتاب میں دقت و سخت گیری انسانوں کی عقل و دانش کی میزان سے تعلق رکھتی ہے ، جیسا کہ امام محمد باقر علیہ السلام ارشاد فراماتے ہیں : ( انمایداق اللہ العباد فی الحساب یوم القیامة علی ما اٰتاھم من العقول فی الدنیا )خدا قیامت میں بندوںکے حساب وکتاب میں اس کی عقل کی مقدار کے مطابق ، جو دنیا میں بندہ کو دی گئی ہے ، سخت گیری کرے گا۔ 4
لفظ اہل کے لئے مندرجہ بالا آیات میں مختلف تفسیریں بیان ہو ئی ہیں ، بعض مفسرین نے کہا ہے کہ اس سے مراد اس کی بیوی اور ایمان دار اولاد ہے ، مومنین جنت میں اس کے پاس پہنچیں گے اور یہ خود ایک بہت بڑی نعمت ہے کہ انسان جن سے محبت رکھتا ہے ، انہیں جنت میں دیکھے اور ان سے قریب رہے۔
بعض دوسرے مفسرین نے اہل کوجنت کی حوروں کے معنی میں لیا ہے جو مومنین کے لئے معین ہوئی ہیں ۔ بعض نے اسے صاحبان ایمان افراد کے معنی میں لیا ہے جس سے وہ دنیا میں محبت کرتا تھا ۔ ان تمام معانی کے درمیان جمع بھی ممکن ہے ۔


 

۱۔ اذا حرف شرط ہے اور اس کی جزا محذوف ہے اور تقدیر میں اس طرح ہے : اذا السماء انشقتلاتی الانسان ربہ فحاسبہ و جازاہ/
2۔ تفسیر فخر رازی در ذیل ِآیات زیرِبحث۔
3۔ مجمع البیان ، زیر بحث آیات کے ذیل میں ۔
 4۔ نور الثقلین ، جلد ۵، ص۵۳۷۔

چند نکات
 
 
 

تلاوت کی فضیلت ۱۔ ایسی حدیث جس میں اعجاز ہے
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma