تشدد کرنے والے عذاب ِ الہٰی کے سامنے

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونه جلد 27
۲۔ حفظ ایمان کے سلسلہ میں استقامت تونے دیکھا کہ خدا نے فرعون و ثمود کے لشکروں کے ساتھ کیا کیا؟

گزشتہ اقوام میں سے تشدد کرنے والوں کی عظیم بے رحمی کے بیان کے بعد جو صاحب ایمان لوگوں کو آگ میں زند ہ جلاتے تھے ان آیات میں ان تشدد کرنے والوں کے متعلق خدا کے سخت عذاب اور مومنین کے لئے عظیم ثواب کی طرف نوید ہے ۔ پہلے فرماتا ہے :
” وہ جنہوں نے ایماندارمردوں اور عورتوں کو موردِ آزار و عذاب قرار دیا اور پھر توبہ نہیں کی ان کے لئے دوزخ کا عذاب ہے اور اسی طرح جلانے والی آگ کا عذاب ہے “( ان الذین فتنوا الموٴمنین و الموٴ نات ثم لم یتوبوا فلھم عذاب جھنم و لھم عذاب الحریق )
فتنوا “ ” فتن“ ( بروزن متن)اور فتنہ کے مادہ سے اصل میں سونے کو آگ میں ڈالنے کے معنی میں ہے تاکہ اس کو پرکھاجاسکے اور کھرا کھوٹا قرار دیا جاسکے ۔ اس کے بعد یہ مادہ ( فتنہ) آز مائش ، عذاب و عقاب ، گمراہی اور شرک کے معنی میں بھی استعما ل ہوا ہے اور زیر بحث آیت میں عذاب، آزار اور تشدد کے معنی میں ہے ۔
اس کی نظیر سورہ ذاریات کی آیت ۱۳۔ ۱۴ میں بھی آئی ہے ( یوم ھم علی النار یفتنون ذوقوا فتمتکم ھٰذا الذی کنتم بہ تستعجلون) ” وہی دن جس دن وہ آگ میں جلائے جائیں گے اور ان سے کہیں گے کہ عذاب کا مزہ چکھو ۔ یہ وہی چیز ہے جس کے بارے میں تمہیں جلدی تھی “۔” ثم لم یتوبوا “ کا جملہ بتا تا ہے کہ توبہ کا راستہ اس قسم کا تشدد کرنے والوں کے لئے بھی کھلا ہو اہے اور یہ چیز بتاتی ہے کہ پروردگار عالم گناہ گاروں پر کتنا رحم کرنا چاہتاہے ۔
ضمناً یہ مکہ کے لوگوں کے لئے تنبیہ ہے کہ وہ جلد از جلد مومنین کو آزار پہنچانے اور تکلیف دینے سے باز آجائیں اور خدا کی طرف رجوع کریں ۔ قرآن اصولی طور پر باز گشت کی راہ کسی پر بند نہیں کرتا اور یہ چیز بتاتی ہے کہ درد ناک عذاب ِ دنیا بھی مفسدین کی اصلاح کے لئے ہے اور ان کے حق کی طرف لوٹ آنے کے لئے ہے ۔
قابلِ توجہ یہ ہے کہ اس آیت میں ان کے لئے دو قسم کے عذاب بیان ہوئے ہیں، ایک عذاب جہنم دوسرا عذاب حریق(جلانے والی آگ کا عذاب ) ان دو عذابوں کا ذکر ہوسکتا ہے کہ اس بناء پر ہوکہ چونکہ جہنم میں کئی قسم کی سزائیں اور عذاب ہیں ،جن میں سے ایک جلانے والی آگ ہے ۔ اس کا ذکر خصوصیت کے ساتھ اس بناء پر کہ تشدد کرنے والے مذکورہ افراد مومنین کو آگ میں جلاتے تھے لہٰذا وہاں انہیں آگ کی سزا ملنی چاہئیے، لیکن یہ آگ کہاں اور وہ آگ کہاں ۔ وہ آگ خدا کے قہر غضب کے شعلوں سے بھڑکائی گئی ہے اور و ہ ہمیشہ قائم رہنے والی ہے ، نیز ذلت و خواری اپنے ہمراہ لیئے ہوئے ہے ، جب کہ دنیا کی آگ ناپائیدار ہے جو کمزور مخلوق کی جلائی ہوئی ہے اور جو مومنین اس میں جلے ہیں وہ سر بلند پر افتخار ہوں گے اور راہ حق کے شہیدوں کی پہلی صف میں ان کی جگہ ہے ۔
بعض مفسرین نے یہ بھی کہا ہے کہ عذاب جہنم ان کی کفر کی سزا تھا اور عذاب حریق ان کے تشدد اعمال کے نتیجے میں ہے ۔ اس کے بعد مومنین کے اجر کو پیش کرتے ہوئے فرماتا ہے :
” وہ لوگ جو ایمان لائے اور انہوں نے اعمال صالح انجام دیئے ان کے لئے جنت کے باغات ہیں جن کے درختوں کے نیچے نہریں جاری ہیں اور یہ بہت بڑی کامیابی اور نجات ہے “۔ ( ان الذین امنوا و عملو ا الصالحات لھم جنات تجری من تحتھا الانھار ذالک الفوز الکبیر
اس سے بہتر کونسی کامیابی ہوگی کہ پروردگار عالم کے جوارا قدس میں انواع و اقسام کی پائیدار نعمتوں کے درمیان سر بلندی و افتخار کے ساتھ ان کو جگہ ملے۔ لیکن اس بات کو فراموش نہیں کرنا چاہیئے کہ اس فوز کبیر اور کامیابی کی اصل کلید ایمان اور عمل صالح ہے۔ اس راہ کا اصلی سرمایہ یہی ہے ، باقی جو کچھ ہے وہ اس کی شاخیں ہیں ۔
عملوا الصالحات “ کی تعبیر ( اس طرف توجہ کرتے ہوئے کہ صالحات صالح کی جمع ہے ) بتاتی ہے کہ صرف ایک یا چند عمل صالح کافی نہیں ہیں بلکہ ضروری ہے کہ انسان ہر قدم پر عمل صالح انجام دے ۔
” ذالک “ کی تعبیر جو عربی میں دور کے اشارے کے لئے آیا ہے ، اس قسم کے مقامات پر اہمیت اور بلندی کو ظاہر کرتی ہے یعنی ان کی کامیابی ، نجات اور اختیارات اور اعزازات اس قابل ہیں کہ ہماری فکر کی دسترس سے خارج ہیں ۔ اس کے بعد دوبارہ تشدد کرنے والوں اور کفار کو تنبیہ کرتے ہوئے فرماتا ہے :
” یہ یقینی بات ہے کہ تیرے پر وردگار کی قہر آمیز گرفت اور سزا بہت ہی شدید ہے “۔ ( ان بطش ربل لشدید)۔ اس کے بعد فرماتا ہے :” یہ گمان نہ کروکہ تمہارے درمیان میں قیامت نہیں ہے ، یا تمہاری باز گشت مشکل ہے ، وہی ہے جو خلقت کا آغاز کرتا ہے اور وہی ہے جو واپس لوٹا ئے گا۔ “ ( انہ یبدیٴ و یعید
” بطش“ کے معنی ایسی گرفت کے ہیں جس میں قہر و قدرت کا دخل ہو ، چونکہ عام طور پریہ کام سزا کی تمہید ہوتا ہے اس لئے یہ لفظ سزا کے معنی میں بھی آیا ہے ۔
” ربک “ تیرے پروردگار کی تعبیر پیغمبر کے دل کی تسلی اور خدا کی طرف سے ان کی حمایت کی تاکید ہے ۔ قابل توجہ یہ ہے کہ مندرجہ بالا آیت کئی قسم کی تاکید وں کو لیئے ہوئے ہیں ۔ ایک طرف تو لفظ بطش خود قہر آمیز گرفت کے معنی میںہے اور اس میں شدت پوشیدہ ہے ، دوسرے جملہ اسمیہ ہے جو عام طور پر تاکید کے لیئے آتا ہے ، تیسرے ” شدید“ کی تعبیر اور چوتھے لفظ” انّ“ ، اور پانچویں ” لام تاکید“ یہ سب اسی آیت میں جمع ہیں ، اس بناء پر قرآن مجید چاہتا ہے کہ انہیں انتہائی انداز میں سزاوٴں کے بیان سے تہدید کرے اور دھمکائے اور انہ یبدیٴ و یعید کا جملہ جس میں معاد کی اجمالی دلیل پوشیدہ ہے ،کہہ کر ایک اور تاکید کا اضافہ کرتا ہے ۔ ۱
( قل یحییھا الذی انشاٴ اوّل مرة و ھو بکل خلق علیم ) کہہ دے وہی ذات جس نے اسے ابتداء میں خلق کیا ہے ، دوبارہ زندہ کرے گی اور وہ اپنی پوری مخلوق سے آگاہ ہے ۔ کہتے ہیں کہ فارابی کی آرزو تھی کہ کاش مشہور یونانی فیلسوف ارسطو زندہ ہوتا تاکہ وہ محکم اور خوبصورت دلیل معاد و قیامت کے بارے میں قرآن مجید کی طرف سے سنتا ۔
اس کے بعد خدائے عظیم و برتر کے اوصاف میں سے پانچ اوصاف بیان کرتے ہوئے کہتا ہے : ” وہ توبہ کرنے والے بندوں کو بخشنے والا اور مومنین کو دوست رکھنے والا ہے “۔ ( وھو الغفور الودود
” وہ تخت قدرت والا ، عالم ہستی پر حکومت ِ مطلقہ رکھنے والا صاحب ِ مجدد و عظمت ہے “۔ (ذو العرش المجید )” وہ کام کا ارادہ کر کے اسے انجام دیتا ہے “۔ ( فعال لمایرید)
غفور“ و ” ودود“ دونوں مبالغہ کے صیغہ ہیں اور اس کی انتہائی بخشش اور محبت کی طرف اشارہ ہیں ۔ گناہ گار توبہ کرنے والوں کا بخشنے والااور بند گان صالح کے بارے میں شفیق و مہر بان ۔
حقیقت میں ان اوصاف کا ذکر اس تہدید کے مقابلہ میں ، جو گزشتہ آیات میں آئی ہے ، اس حقیقت کو بیان کرنے کے لئے ہے کہ باز گشت کا راستہ گناہگاروں کے سامنے کھولا ہے اور خدا شدید العقاب ہونے کے باوجود غفور و ،ودود ، و روٴف و مہر بان ہے ۔
جو کچھ کہا گیا ہے اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ ودود یہاں فاعل کے معنی رکھتا ہے ، نہ کہ مفعول کے ۔ اور یہ جو بعض مفسرین نے ودود کے لفظ کو اسم مفعول کے معنوں میں سمجھا ہے ، مثل رکوب کے جو مرکوب کے معنی میں آیا ہے یعنی خدا سے بہت زیادہ محبت و دوستی کی گئی ، غفور کی صفت کے ساتھ جو اس سے پہلے آئی ہے کوئی مناسبت نہیں رکھتا۔ اس لئے کہ خدا کا ہدف و مقصد بندوں سے محبت کرنا اور انہیں دوست رکھنا ہے ، نہ کہ بندوں کا اس کی نسبت دوست رکھنا اور محبت کرنا ہے ۔
تیسری صفت یعنی ذوالعرش ، اس طرف توجہ کرتے ہوئے کہ عرش بلند تختِ شاہی کے معنی میں ہے ، اس قسم کے موارد میں قدرت و حاکمیت کا کنایہ ہے اور اس حقیقت کو بیان کرتا ہے کہ جہانِ ہستی کی حکومت اسی لئے ہے اور جو کچھ وہ ارادہ کرے وہ انجام پاجاتا ہے۔
اس بناپر حقیقت میں ” فعا ل لمایرید“ کا جملہ اس حاکمیت مطلقہ کے لوازم میں سے ہے اور ان سب میں مسئلہ معاد اور مردوں کو موت کے بعد زندہ کرنے والے جباروں کو سزا دینے اور کیفرِ کردار تک پہنچانے کے سلسلہ میں اس کی طاقت و قدرت کی نشاندہی کرتا ہے ۔
مجید“ ” مجد“ کے مادہ سے کرم و شرافت و جلالت کی وسعت کے معنی میں ہے اور یہ ایسی صفات میں سے ہے جو خدا کی ذات سے مخصوص اور دوسروں کے بارے میں بہت کم استعمال ہوتی ہیں ۔ 2
یہ پانچویں صفتیں ایک واضح انجام اور ایک دوسرے سے تعلق رکھتی ہیں ، اس لئے کہ غفور و و دود ہونا اس وقت مفید ہے جب قدر ت حاصل ہو اور کرم ِ وسیع اور نعمت بے پایاں ہو، تاکہ وہ جو کچھ ارادہ کرے انجام دے سکے ۔ نہ کوئی چیز اس کے کام میں مانع ہو اور نہ کوئی مقابلہ کی قدرت رکھتا ہو اور اس کے ارادہ میں ضعف و نقاہت و شک اور تردید و فسخ کا امکان نہ ہو۔

۱۷۔ ھل اتٰک حدیث الجنود ۔
۱۸۔ فرعون َ و ثمود۔
۱۹۔ بل الذین کفروا فی تکذیب۔
۲۰۔ و اللہ من وآئِھم محیط۔
۲۱۔ بل ھو قرآن مجید۔
۲۲۔ فی لوح محفوظ۔
ترجمہ
۱۷۔ کیا لشکروں کی داستان تجھ تک پہنچی ہے ۔
۱۸۔ فرعون و ثمود کے لشکر ۔
۱۹۔ بلکہ کفار ہمیشہ حق کی تکذیب میں مصروف رہتے ہیں ۔
۲۰۔ اور خدا ان سب پر احاطہ رکھتا ہے ۔
۲۱۔ ( یہ کوئی جادواور جھوٹ نہیں ہے ) بلکہ باعظمت قرآن ہے ۔
۲۲۔ جو لوحِ محفوظ میں موجود ہے ۔

 


۱۔معاد کے بارے میںمندرجہ بالا خوب صورت دلیل وہی ہے جو سورہ یٰسین کے آخر میں آیہ۷۹ میں بھی آئی ہے ۔
2۔ توجہ رکھنی چاہئیے کہ اوپر والی آیت میں مجید مشہور قرائت کی بناء پر مرفوع ہے اور خداکے اوصاف میںسے ہے نہ کہ مجرد اور عرش کے اوصاف میں سے ۔
۲۔ حفظ ایمان کے سلسلہ میں استقامت تونے دیکھا کہ خدا نے فرعون و ثمود کے لشکروں کے ساتھ کیا کیا؟
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma