تونے دیکھا کہ خدا نے فرعون و ثمود کے لشکروں کے ساتھ کیا کیا؟

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونه جلد 27
تشدد کرنے والے عذاب ِ الہٰی کے سامنے سورہ طارق

گزشتہ آیات میں خدا کی قدرت ِ مطلقہ اس کی قطعی حاکمیت اور تشدد کرنے والے کفار کی تہدید کے طور پر تھیں ۔
یہ بتانے کے لئے یہ تہدید یں عملی ہیں ، باتوں اور نعروں کی حد تک محدود نہیں ہیں ، زیر بحث آیات میں روئے سخن پیغمبر کی طرف کرتے ہوئے فرماتا ہے :
” کیا لشکروںکی داستان تجھ تک پہنچی ہے “۔ ( ھل اتاک حدیث الجنود ) ۔ وہ عظیم لشکر جنہوں نے خدائی پیغمبروں کے مقابلہ میں صف آرائی کی اور لڑنے کے لئے مستعد ہو گئے اس گمان میں کہ وہ خدائی قدرت کے مقابلہ میں اپنے کو پیش کرسکتے ہیں۔ اس کے بعد ان کے دو بہت ہی واضح اور آشکار نمونوں کی طرف جن میں سے ایک قدیم الایام میں اور دوسرا بہت ہی نزدیک کے زمانے میں وقوع میں آیا، اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے :
”وہی فرعون اور ثمود کے لشکر “ ( فرعون و ثمود)۔ ” وہی جن میں سے بعض نے دنیا کے مشرق و مغرب کو اپنے زیر ِ تسلط کرلیا تھا اور بعض نے پہاڑوں کے چیر کر بڑے بڑے پتھر کاٹ کر ان سے بڑے بڑے مکانات ، قصر اور محل بنائے اور کسی میں بھی ان کا مقابلہ کرنے کی جراٴت نہیں تھی ، لیکن خدا نے اپنے گروہ کو پانی کے ذریعہ اور دوسرے کی آندھی کے وسیلے سے ، جو دونوں انسانی زندگی کا ذریعہ ہیں اور زیادہ لطیف موجودات شمار ہوتے ہیں، سپرد کوبی کی ۔ دریائے نیل کی موجیں فرعون اور اس کے لشکر کو نگل گئیں اور ٹھنڈی اور سر کوبی کرنے والی ہَو ا قومِ ثمود پرِکاہ کی طرح اٹھا تی اور تھوڑے وفقہ کے بعد ان کے بے جاں جسموں کو سطح زمین پر پھینک دیتی تھی تاکہ مشرکین عرب جان لیں کہ وہ کچھ بھی کرسکتے ۔
جب خدا نے ان عظیم اور طاقتور لشکروں سے اس طرح انتقام لیا تو ان لوگوں کی کیا ہستی ہے جو ان کے مقابلہ میں بہت ہی کمزور و ناتواں ہیں ، اگر اس کی قدرت مقابلہ میں ضعیف قوی برابر ہیں ۔
گزشتہ عام اقوام میں سے قوم ثمود و فرعون کا انتخاب سر کش قوموں کے نمونہ کے طور پر اس بناء پر ہے کہ وہ دونوں قومیں انتہائی طاقتور تھیں ۔ ایک گزشتہ ادوار سے متعلق تھی ( قوم ثمود ) اور دوسری زیادہ نزدیک ماضی سے تعلق رکھتی تھی ( قوم فرعون ) علاوہ از یں قوم عرب ان ناموں سے باخبر تھی اور اجمالی طور پر ان کی تاریخ سے آشنا تھی ۔
بعد والی آیت میں مزید کہتا ہے :” بلکہ وہ لوگ کافر ہوگئے وہ ہمیشہ حق کی تکذیب میں گرفتار و مبتلا ہیں “۔ ( بل الذین کفروا فی تکذیب)۔ اس طرح نہیں ہے کہ حق کی نشانیاں کسی سے مخفی ہیں ۔ عناد اور ہٹ دھرمی اجازت نہیں دیتے کہ بعض لوگ راہ نکال کر منزل حق کی طرف قدم بڑھائیں ۔
بل “ کی تعبیر جو اصطلاح کے ،مطابق ” اضراب“ ( ایک چیز سے دوسری چیزکی طرف عدول کرنے ) کے لیئے ہے ، گویا اس طرف اشارہ ہے کہ یہ مشرک گروہ قومِ فرعون و ثمود سے بھی بد تر اور زیادہ ہٹ دھرم ہے۔ یہ لوگ ہمیشہ قرآن کے انکار اور تکذیب میں لگے رہتے ہیں اور اس مقصد کے لئے اور وسیلہ سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔
لیکن انہیں جان لینا چاہئیے کہ خدا ان سب پر احاطہ رکھتاہے اور وہ سب ان کی قدرت کی گرفت میں ہیں( و اللہ من ورائھم محیط
اگر خدا انہیں مہلت دیتا ہے تو عجز و توانائی کی بناپر نہیں ہے اور اگر انہیں جلدی سزا نہیں دیتا تو وجہ یہ نہیں ہے کہ وہ اس کی اقالیم قدرت سے باہرہیں ۔( ورائھم ) ان کے پیچھے اور پسِ پشت کی تعبیر اس طرف اشارہ ہے کہ وہ ہر جہت سے قدرت الہٰی کے قبضہ میں ہیں اور قدرت تمام اطراف سے ان کا احاطہ کئے ہوئے ہے ۔
اس بناپر ممکن نہیں ہے کہ اس کی عدالت اور سزا سے راہ فرار اختیار کرسکیں ۔
یہ احتمال بھی ہے کہ اس سے مراد ان کے اعمال پر تمام جہات سے خدا کا علمی احاطہ ہو اس طرح سے کہ ان کی کوئی گفتار، ان کا کوئی کردار اور ان کا کوئی کام اس سے مخفی نہیں ہے۔ بعد والی آیت میں مزید کہتا ہے :
” ان کا قرآن مجید کی تکذیب پر اصراراور اسے سحر ، جادو، شعر اور کہانت سے تشبیہ دینا ، بیہودہ اور فضول بات ہے ، بلکہ وہ قرآن مجید با عظمت اور بلند مرتبہ ہے “( بل ھو قراٰن مجید) ۔ ” ایسا کلام ہے جو لوح محفوظ میں ثبت ہے اور نااہل شیاطین اور کاہنوں کا ہاتھ ہر گز اس تک نہیں پہنچتا ، اور ہر قسم کے تغیر، تبدیلی ، اضافہ اور نقصان سے محفوظ ہے ( فی لوح محفوظ
اس بناپر اگر وہ ناروا نسبتیں تیری طرف دیتے ہیں اور تجھے شاعر ، ساحر، کاہن ، اور مجنون کہتے ہیں تو تواس سے ہر گز غمگین نہ ہو۔ تیری تکیہ گاہ محکم ، تیری راہ روشن اور تیرا حمایتی صاحبِ قدرت ہے ۔
” مجید “ جیسا کہ ہم نے کہا ہے ” مجد“ کے مادہ سے شرافت و جلالت کی وسعت کے معنی میں ہے اور یہ معنی قرآن کے بارے میں پورے طور پر صادق آتے ہیں ، اس لئے کہ قرآن کے مشمولات و مضامین وسیع و عظیم ہیں اور اس کے معانی بلند و پر مایہ ہیں ۔
معارف و عقائد کے سلسلہ میں بھی اور اخلاق و مواعظ و احکام و تسنن کے بارے میں بھی۔ ( لوح ، لام کے زبر کے ساتھ ) عریض و وسیع صفحہ کے معنی میں ہے جس پر کوئی چیز لکھتے ہیں اور لوح ( لام کے پیش کے ساتھ ) پیاس کے معنی میں ہے ۔ اس ہَوا کو بھی کہتے ہیں ، جو زمین و آسمان کے درمیان موجود ہے ، وہ فعل جو پہلے تلفظ سے مشتق ہوتا ہے آشکار ہونے اورچمکنے کے معنوں میں ہے ۔
بہر حال یہاں مرادہ وہ صفحہ ہے جس پر قرآن مجید تحریر ہے ۔ لیکن وہ صفحہ نہیں جو ہمارے درمیان رائج ہے جو الواح کی مانند ہے بلکہ ایک تفسیر کے مطابق جو ابن عباس سے منقول ہے کہ:
لوحِ محفوظ کا طول زمین و آسمان کے درمیانی فاصلے کے برابر ہے اور عرض مغرب و مشرق کے فاصلے کے برابر ہے ۔ یہ وہ مقام ہے جہاں محسوس ہوتاہے کہ لوحِ محفوظ وہی علم خدا کا ایک صفحہ ہے جس نے عالم مشرق و غرب کو گھیر رکھا ہے اور وہ ہر قسم کی دگر گونی ، تغیراور تبدیلی و تحریف سے محفوظ ہے ۔
جی ہاں ! قرآن مجید کا سر چشمہ حق تعالیٰ کا علم ِ بے پایاں ہے ۔ یہ انسانی فکر کی پیدا وار نہیں ہے ، نہ یہ القائے شیاطین کا نتیجہ ہے ۔ اس کے مشمولات و مضامین اس حقیقت کے گواہ ہیں ۔
یہ احتمال وہی چیز ہے جسے قرآن مجید میں کبھی کتاب مبین سے اور کبھی ام الکتاب سے تعبیر کیا گیاہے جیسا کہ سورہ رعد کی آیت ۳۹ میں ہم پڑھتے ہیں ( یمحو االلہ مایشاء و یثبت و عندہ ام الکتاب) خدا جسے چاہتا ہے محو کردیتا ہے اور جسے چاہتاہے ثابت رکھتا ہے اور اس کے پاس ام الکتاب ہے ۔ اور سورہ انعام کی آیت ۵۹ میں آیاہے (ولا رطب ولا یابس الاَّ فی کتاب مبین ) خشک و تر کی کوئی چیز ایسی نہیں مگریہ کہ واضح کتاب میں ثبت ہے ۔
خدا وندا ! ہمیں اپنی اس عظیم آسمانی کتاب کی حقیقت سے زیادہ آشنا فرما۔
پر وردگارا ! اس دن جس میں مومنین ِ صالح فوزِ کبیر حاصل کریں گے اور کافرین مجرم عذاب ِ حریق میں گرفتار ہوں گے اپنے دامن عافیت میں پناہ دیجو۔
بار الہٰا ! تو غفور و ودود و روٴف و مہر بان ہے ۔ تو ہم سے وہ سلوک کر جو تیرے ان اسمائے صفات سے ہم آہنگ ہے ۔ وہ سلوک نہ کیجو جس کا ہمارے اعمال تقاضا کرتے ہیں ۔
آمین یا رب العالمین
سورہٴ بروج کا اختتام


 

تشدد کرنے والے عذاب ِ الہٰی کے سامنے سورہ طارق
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma