لفظ ”احد

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونه جلد 27
اللہ “خدا کااسم خاص ہے ۱۔ توحید کے دلائل

لیکن ”احد “کا لفظ”وحدت “کے مادّہ سے ہی ہے اور اسی لیے بعض نے ”احد “اور ”واحد “کی ایک ہی معنی کے ساتھ تفسیر کی ہے ۔ ان کا عقیدہ یہ ہے کہ یہ دونوں ہی اس ذات کی طرف اشارہ ہیں جو ہر لحاظ سے بے مثل و بے نظیر ہے۔علم میں یگانہ ہے ،قدرت میں بے مثل ہے ،رحما نیت اور رحیمیت میں یکتا ہے اور خلا صہ یہ ہے کہ وہ ہر لحاظ سے بے نظیر ہے ۔
لیکن بعض کا نظریہ یہ ہے کہ”احد “اور ”واحد“ میں فرق ہے ۔”احد “اس ذات کو کہا جاتا ہے جو کثرت کو قبول نہیں کرتا ،نہ تو خارج میں اور نہ ہی ذہن میں۔لہٰذا وہ شمار کرنے کے قابل نہیں ہے اور ہر گز عدو میں داخل نہیں ہوتا ،”واحد “کے بر خلاف کہ اس کے لیے دوسرے اور تیسرے کا تصور ہوتا ہے ،چا ہے وہ خارج میں ہو یا ذہن میں ۔اسی لیے بعض اوقات ہم یہ کہتے ہیں کہ :احدی ازاں جمعیت نیا مد ،یعنی ان میں سے کوئی شخص بھی نہیں آیا لیکن جب ہم یہ کہتے ہیںکہ :واحدی نیامد (ایک نہیں آیا )تو ممکن ہے کہ دو یا چند افراد آئے ہوں ۔۱
لیکن یہ فرق قرآن مجید اور احادیث کے مو ارد استعمال کے ساتھ چنداں سا ز گا ر نہیں ہے ۔
بعض کا یہ بھی نظریہ ہے کہ ”احد “(جنس و فصل اور ما ہیت و وجود )کے اجزائے تر کیبیہ خارجیہ یا عقلیہ کے مقابلہ میں خدا کی بساطتِ ذات کی طرف اشارہ ہے کہ جب کہ واحد خارجی کثرتوں کے مقابلہ میں اس کی ذات کی یگانگت کی طرف اشارہ ہے ۔ایک حدیث میں امام باقر علیہ السلام سے آیا ہے کہ ”احد “فرد یگا نہ کو کہتے ہیں ،اور ”احد “اور ” واحد “کا ایک ہی مفہوم ہے ،اور وہ ایک ایسی منفرد ذات ہے جس کا کوئی مثل و نظیر نہیں ہے ۔ او ر” توحید “اس کی یگا نگت ،وحدت اور انفرا دیت کا اقرار ہے ۔
اسی حدیث کے ذیل میں آیا ہے ۔
”واحد عدد نہیں ہے ، بلکہ واحد اعداد کی بنیاد ہے ۔عدد دو سے شروع ہو تا ہے ،اس بناء پر اللہ احد “یعنی وہ معبود جس کی ذات کے ادراک سے انسان عاجز ہیں،اور جس کی کیفیت کا احاطہ کر نے سے نا تو اں ہیں “کا معنی یہ ہے کہ وہ الٰہیت میں فرد ہے اور مخلو قات کی صفا ت سے بر تر ہے ۔۲
قرآن مجید میں ”واحد “ و ” احد “دونوں کا خدا کی ذات پا ک پر اطلاق ہو اہے ۔
یہ بات قابل توجہ ہے کہ تو حید صدوق میں آیا ہے کہ جنگ جمل میں ایک اعرابی نے کھڑے ہو کر عرض کیا اے امیر المو منین!کیا آپ یہ کہتے ہیں کہ خدا واحد ہے ؟تو واحد کا کیا معنٰی ہے ؟
اچا نک لوگو ں نے ہر طرف سے اس پر حملہ کر دیا اور کہنے لگے :”اے اعرابی یہ کیا سوال ہے ؟کیا تو دیکھ نہیں رہا ہے کہ امیر المو منین علیہ السلام مسئلہ جنگ کی فکر میں کتنے مشغول ہیں ؟ہر سخن جائے و ہر نکتہ مقامی دارد !ہر بات کا ایک مو قع اور ہر نکتہ کا ایک مقام ہو تا ہے ۔
امیر المو منین علیہ السلام نے فر مایا :” اسے اس کی حالت پر چھوڑدو کیو نکہ جو کچھ وہ چا ہتا ہے وہی چیز ہم اس دشمن گروہ سے چا ہتے ہیں ۔(وہ تو حید کے بارے میں پو چھ رہا ہے ،ہم بھی مخالفین کو کلمئہ تو حید ہی کی دعوت دے ر ہے ہیں)۔“
اس کے بعد آپ نے فر مایا:
”اے اعرابی یہ جو ہم کہتے ہیںکہ خدا ”واحد“ہے تو اس کے چار معا نی ہو سکتے ہیں جن میں سے دو معا نی خدا کے لیے صحیح نہیں ہیںاور ا س کے دو معا نی صحیح ہیں ۔
”اب وہ دوجو صحیح نہیں ہیں ،ان میں سے ایک وحدت عددی ہے ۔یہ خدا کے لیے جا ئز نہیں ہے (یعنی ہم یہ کہیں کہ وہ ایک ہے دو نہیں ہیں )کیو نکہ اس بات کا مفہوم یہ ہے کہ اس کے لیے دوسرے کا تصور ہو سکتا ہے لیکن وہ مو جود نہیں ہے۔حا لانکہ مسلہ طور پر حق تعالیٰ کی غیر متناہی ذات کے لیے دوسرے کا تصور نہیں ہو ہی سکتا ۔کیو نکہ جس چیز کا کوئی ثانی ہی نہیں ہے وہ باب اعداد میں داخل نہیں ہو تی ۔کیا تو دیکھتا نہیں کہ خدا نے ان لوگو ں کی،جنہوں نے یہ کہا تھاکہ :”ان اللہ ثالث ثلا ثة۔“(خدا تین میں کا تیسرا ہے ،تکفیر کی ہے ۔
”واحد کا دوسرا معنی جو خدا کے لیے صحیح نہیں ہے یہ ہے کہ وہ واحد نو عی کے معنی میں ہو ،مثلاََ:ہم یہ کہیںکہ فلاں آدمی لو گو ں میں سے ایک ہے ،یہ بھی خدا کے لیے صحیح نہیں ہے ۔(کیو نکہ خدا کی کوئی جنس اور نوع نہیں ہے )اس بات کا مفہوم تشبیہ ہے ،اور ہر قسم کی تشبیہ اور نظیر سے برترو بالا تر ہے۔”اب رہے وہ دو مفہوم جو خدا کے بارے میں صحیح اور صادق ہیں، ان میں سے پہلا یہ ہے کہ یہ کہا جائے کہ خدا واحد ہے یعنی اشیاء عالم میں کوئی اس کی شبیہ نہیں ہے ،ہاں!ہمارا پر ور دگار ایسا ہی ہے ۔
”دوسرے یہ کہ یہ کہا جائے کہ ہمارا پروردگار احدی المعنی ہے ،یعنی اس کی ذات نا قابل ِ تقسیم ہے ،نہ تو خارج میں،نہ توعقل میںاور نہ ہی وہم میں ،ہاں!خدائے بزرگ ایسا ہی ہے ۔3
”خلاصہ یہ ہے کہ خدا واحد و احد ہے اور یگانہ ویکتا ہے ۔واحد عددی یا نوعی و جنسی کے معنی میں نہیں بلکہ وحدت ِذاتی کے معنی میں ،زیادہ واضح عبا رت میں اس کی وحدانیت کا معنی یہ ہے اس کا کوئی مثل و نظیر اور مانند و شبیہ نہیں ہے “اس بات کی دلیل بھی واضح وروشن ہے :وہ ایک ایسی ذات ہے جو ہر جہت سے غیر متناہی ہے اور مسلّمہ طور پر ہر جہت سے دو غیر متنا ہی ذاتیںناقابل تصور ہیں ،کیو نکہ اگر دو ذاتیں ہوں گی تو وہ دونوں محدود ہو جا ئیں گی ،اس میں اس کے کما لات نہ ہوں گے اور نہ اس میں اس کے کما لات (غور کیجئے )۔
بعد والی آیت میں اس یکتا ذات مقدس کے بارے میں فر ماتا ہے :”وہ ایسا خدا ہے کہ تمام حاجت مند اسی کی طرف رخ کرتے ہیں ۔“(اللہ الصمد
”صمد“کے لیے روایات اور مفسرین و ارباب لغت کے کلمات میں بہت زیادہ معنی بیان ہو ئے ہیں ۔
”راغب “”مفر دات “میں کہتا ہے :صمد اس آقا اور بزرگ کے معنی میں ہے جس کی طرف کاموں کی انجام دہی کے لیے جاتے ہیں ۔اور بعض نے یہ کہاہے کہ”صمد “اس چیز کے معنی میں ہے جو اندر سے خالی نہ ہو بلکہ پُر ہو ۔
مقا ییس اللغت“میں آیا ہے کی دو اصلی جڑ بنیادیں ہیں :ایک قصد کے معنی میں ہے اور دوسرا صلابت واستحکام کے معنی میں ،اور یہ جو خدا کو ”صمد “کہا جاتا ہے تو یہ اس بناء پر ہے کہ بندے اس کی بار گاہ کا قصد و ارادہ کرتے ہیں ۔
اور شاید یہی وجہ ہے کہ ذیل کے متعدد معانی بھی لغت کی کتا بوں میں ”صمد “کے لیے ذکر ہوئے ہیں:ایسی بزرگ ہستی جو انتہا ئی عظمت ہو،اور ایسی ذات جس کی طرف لوگ اپنی حاجات لے کر جاتے ہیں ،ایسی ذات جس سے برتر کوئی چیز نہیں ہے ،ایسی ہستی جو مخلوق کے فناو نابود ہونے کے بعد بھی دائم اور باقی رہنے والی ہے ۔اسی لیے امام حسین بن علی علیہماالسلام نے ایک حدیث میں ”صمد“کے لیے پانچ معانی بیان کیے ہیں ۔
”صمد“اس ہستی کو کہتے ہیں جوانتہائی سیادت و آقائی میں ہو ۔
”صمد “وہ ذات ہے جو دائم اور ازلی و ابدی ہو۔
’صمد “وہ موجود ہے جو ف (اندر سے خلا ) نہ رکھتا ہو ۔
”صمد“وہ ہستی جو نہ کھاتی ہو نہ پیتی ہو ۔
”صمد“وہ ہستی جو کبھی نہ سوتی ہو ۔ 4  
اور دوسری عبارتوںمیں آیا ہے کہ :”صمد اس ہستی کو کہتے ہیں جو قائم بہ نفس ہو اور غیر سے بے نیاز ہو ۔“
”صمد“اس ہستی کو کہتے ہیں جس میں تغیرات اور کون و فساد نہیں ہے ۔امام علی بن الحسین علیہ السلام سے نقل ہو اہے کہ آپ نے فرمایا :
”صمد“اس ہستی کو کہتے ہیںجس کا کوئی شریک نہ ہو کسی چیز کی حفا ظت کرنا اس کے لیے مشکل نہ ہواور کوئی چیز اس سے مخفی نہیں رہتی ۔5
بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ ”صمد“اس ذات کو کہتے ہیں کہ وہ جب بھی کسی چیز کا ارادہ کرے تو اسے کہتا ہے ہو جا ،تو وہ فوراََہو جاتی ہے ۔
ایک حدیث میں آیا ہے کہ ”اہل ِبصرہ “نے امام حسن علیہ السلام کی خدمت میں ایک خط لکھا اور ”صمد “کے معنی در یافت کیے ۔امام علیہ السلام نے ا ن کے جواب میں فر مایا :
”بسم اللہ الرحمان الرحیم ،اما بعد قرآن میں آگاہی کے بغیر بحث و گفتگو نہ کرو ،کیو نکہ میں نے اپنے نانا رسول اللہ سے سنا ہے ،آپ فرما رہے تھے :جو شخص علم کے بغیر بات کرے گااسے آگ میںاس مقام پر رہنا پڑے گا جو اس کے لیے معین ہے ۔خدا نے خود ”صمد “کی تفسیر بیان فر مائی ہے ”لم یلد ولم یولد ولم یکن لہ کفواََاحد “
نہ اسے کسی نے جنا اور نہ وہ کسی سے پیدا ہو ا،اور نہ ہی کوئی اس کی ماننداور مثل و نظیر ہے ۔ہاں !خدا وندِ”صمد “وہ ہے جو کسی چیز سے وجود میں نہیں آیا ،اور نہ ہی وہ کسی چیز کے اندر موجود ہے نہ کسی چیز کے اوپر قرار پایا ہے ،وہ تمام چیزوں کا پیدا کرنے والا اور ان کا خالق ہے ،تمام چیزوں کو وہی اپنی قدرت سے وجود میں لایا ہے ۔جن چیزوں کو اس نے فنا کے لیے پیدا کیا ہے وہ اس کے ارادہ سے متلا شی ہو جائے گی ،اور جسے بقاء کے لیے پیدا کیا ہے وہ اس کے علم سے باقی رہے گی ۔یہ ہے خدا وند صمد ۔۔“6
اور بالآخر ایک اور حدیث میں آیا ہے کہ ”محمد بن حنفیہ“نے امیر المومنین علی علیہ السلام سے ”صمد “کے بارے میں سوال کیا تو آپ  نے فر مایا :
”صمد “کی تا ویل یہ ہے کہ وہ نہ اسم ہے اور نہ جسم ہے ،نہ اس کا کوئی مثل ہے نہ کوئی نظیر ہے ،نہ صورت ہے ، نہ تمثال ہے ،نہ حد ہے ،نہ حدود ہے ،نہ محل ہے ،نہ مکان ہے،نہ حال ہے ،نہ یہ ہے ،نہ یہاں ہے ،نہ وہاں ہے ،نہ پر ہے ،نہ خالی ہے ،نہ کھڑا ہے ،نہ بیٹھا ہے ،نہ ساکن ہے ،نہ محترک ہے ،نہ ظلما تی ہے ،نہ نو رانی ہے ،نہ نفسانی ہے ،اس کے باوجود کوئی جگہ اس سے خالی نہیں ہے اور کسی مکان میں اس کی گنجائش نہیں ہے ۔نہ وہ رنگ رکھتا ہے ،نہ انسان کے دل میں سماتا ہے اور نہ ہی اس کی کوئی بو ہے ۔یہ سب چیزیںاس کی ذات پاک سے منتقی ہے ۔7
یہ حدیث اچھی طرح سے نشان دہی کرتی ہے کہ ”صمد “کا ایک بہت ہی جامع اور وسیع مفہوم ہے ۔جو اس کی ساخت قدس سے مخلوقات کی ہر قسم کی صفات کی نفی کر تاہے ،کیو نکہ مشخص اور محدود اسماء اور اسی طرح جسم و رنگ و بو و مکان وسکون و حرکت و کیفیت و حد و حدود اور اسی قسم کی دوسری چیزیں،یہ سب ممکنات و مخلوقات کی صفات ہیں ،بلکہ زیادہ تر عالم مادّہ کے او صاف ہیں،اور ہم جانتے ہیںکہ خدا ان سب سے برتر اور بالاتر ہے ۔آخری انکشافات سے معلوم ہوا ہے کہ جہان مادّہ کی تمام چیزیں بہت ہی چھوٹے چھو ٹے ذرّات سے مل کر بنی ہے جنہیں ”ایٹم “کہا جاتا ہے ۔اور ”ایٹم “خود بھی دو عمدہ حصوں کا مر کّب ہے ۔مر کز ی ذرہ اور وہ الکڑون جو اس کے گرد گر دش کر رہے ہیں۔اور تعجب کی بات یہ ہے کہ اس ذرہ اور الکڑونوں کے در میان بہت زیادہ فا صلہ ہے ۔(البتہ یہ زیادہ ایٹم کے حجم کے اندازہ سے ہے )اس طرح سے کہ ا گر یہ فاصلہ اُٹھا دیا جائے تو اجسام اس قدر چھوٹے ہو جائیں گے کہ وہ ہمارے لیے حیرت میں ڈالنے والے ہو ں گے ۔
مثلاََاگر ایک انسان کے وجود کے ایٹمی ذرات کے فاصلے ختم کردیں اور اسے مکمل طور پر دبا دیں تو ممکن ہے کہ وہ ایک ذرہ کی صورت اختیار کر لے ،جس کا آنکھ کے ساتھ دیکھنا مشکل ہو جائے ۔لیکن اس کے باوجود وہ ایک انسان کے بدن کے سارے وزن کے برا بر ہوگا ،(مثلاََ:یہی معمولی ذرّہ ۶۰کلووزنی ہو گا)
بعض نے اس علمی انکشاف سے استفادہ کرتے ہوئے اور اس بات کی طرف توجہ دیتے ہوئے کہ ”صمد “کا ایک معنی ایسا وجود ہے جو اندر سے خالی نہیں ہے ،یہ نتیجہ نکالا ہے کہ قرآن اس تعبیر سے یہ چاہتا ہے کہ خدا سے ہر قسم کی جسما نیت کی نفی کر دے ،کیو نکہ تمام اجسام ایٹم سے بنے ہوئے ہیںاور ایٹم اندر سے خالی ہوتے ہیں ۔اور اس طرح یہ آیت قرآن کے علمی معجزات میں سے ایک ہو سکتی ہے ۔
لیکن اس بات کو نہیں بھو لنا چا ہیئے کہ اہل لغت میں ”صمد “ایک ایسی عظیم ہستی کے معنی میں ہے جس کی طرف تمام حاجت مند رخ کرتے ہیں اور وہ ہر لحاظ سے کامل ہو ،اور ظاہراََباقی تمام معانی اور تفا سیر جو اس کے لیے بیان کی گئی ہیں اسی اصل کی طرف لو ٹتی ہیں۔
اس کے بعد اگلی آیت میں نصاریٰ،یہود اور مشرکین عرب کے عقائد کی رد پیش کر تے ہوئے ۔جو خدا کے لیے بیٹے یا باپ کے لیے قائل تھے ۔فر ماتا ہے :”اس نے نہ تو کسی کو جنا ہے اور نہ ہی وہ خود کسی سے پیدا ہو اہے ۔“(لم یلد ولم یو لد )۔اس بیان کے مقا بلہ میں ان لوگوں کا نظریہ ہے جو تثلیث (تین خداؤں )کا عقید ہ رکھتے تھے ،باپ خدا ،بیٹا خدا ،اور روح القدس ۔
نصاریٰ”مسیح“کو خدا کا بیٹا کہتے تھے اور یہود ”عزیر“کو اس کا بیٹا سمجھتے تھے،و قالت الیھود عزیر ابن اللہ و قالت النصاریٰ المسیح ابن اللہ ذالک قو لھم با فواھھم یضاھئون قول الذین کفرو امن قبل قا تلھم اللہ انیّ یوٴ فکون :
”یہود نے تو یہ کہا کہ عزیر خدا کابیٹا ہے اور عیسا ئیوں نے کہا کہ مسیح خدا کا بیٹا ہے ۔یہ ایک ایسی بات ہے جو وہ اپنی زبان سے کہتے ہیں اور ان کی یہ بات گز شتہ کافروں کے قول کے مانند ہے ان پر خدا کی لعنت ہو ،وہ حق سے کیسے منحرف ہو جاتے ہیں ،(توبہ ۔۳۰)
مشرکین عرب کا یہ عقیدہ بھی تھا کہ ملا ئکہ خدا کی بیٹیاں ہیں ،و خر قوا لہ بنین و بنات بغیر علم : ”انہوں نے جھو ٹ اور جہا لت کی بناء پر خدا کے لیے بیٹے اور بیٹیاں گھڑ لی تھیں ۔“(انعام ۔۱۰۰)
بعض روا یات سے معلوم ہوتاہے کہ آیہ ”لم یلد و لم یولد “میں تو لدایک و سیع معنی رکھتا ہے اور اس سے ہر قسم کی مادّی ولیطف چیزوں کے خروج اس ذات ِ مقّدس کے دوسری مادّی و لطیف چیزوں سے خروج کی نفی کرتا ہے ۔جیسا کہ اسی خط میں ۔جو امام حسین نے ”اہل ِ بصرہ “کے جواب میں صمد کی تفسیر میں لکھا تھا۔”لم یلد ولم یو لد “کے جملہ کی اس طرح تفسیر کی گئی تھی:(لم یلد )یعنی کوئی چیز اس سے خارج نہیں ہوئی ،نہ تو بیٹے جیسی کوئی مادّی چیز اور نہ ہی وہ تمام چیزیں جو مخلوق سے خارج ہوئی ہیں (جیسے ماں کی چھا تیوں سے دودھ )اور نہ ہی نفس جیسی کوئی لطیف چیز ،اور نہ ہی قسم قسم کے حالات ،جیسے خواب وخیال حزن و اندوہ ،خو شحال ہونا ،ہنسنااور رونا،خوف و رجاء ،شوق و ملالت ،بھوک اور سیری وغیرہ ۔خدا اس سے بر تر و بالاتر ہے کہ کوئی چیز اس سے خارج ہو ۔
اور وہ اس بات سے بھی بر تر و بالاتر ہے کہ وہ کسی مادّی چیز سے متو لّد ہو ۔۔۔۔جیسا کہ کسی زندہ موجود کا کسی دوسرے زندہ موجود سے خارج ہونا اور گھاس کا زمین سے ،پانی کا چشمہ سے ،پھل کا درختوں سے اور اشیائے لطیف کا اپنے منا بع سے ،جیسے نگاہ کا آنکھ سے ،سماعت کا کان سے ،سو نگھنے کا ناک سے ،چکھنے کا منھ سے ،گفتگو کا زبان سے معر فت و شناخت کا دل سے اور آگ کی چنگاری کا پتھر سے نکلنا ۔8
اس حدیث کے مطا بق تولد ایک وسیع معنی رکھتا ہے جو ہر قسم کے خروج اور ایک چیز کے کسی دوسری چیز کا نتیجہ ہونے کو شامل ہے ،اور یہ حقیقت میں آیت کا دوسرا معنی ہے اور اس کا پہلا اور ظاہری معنی وہی تھا جو ابتداء میں بیان کیا گیا ہے ۔اس کے علاوہ دوسرا معنی پہلے معنی کی تحلیل کرنے سے پورے طور پر قابل ادراک ہے کیو نکہ اگر خدا کے بیٹا نہیں ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ مادّی عوارض سے پاک و منزّہ ہے ۔یہی معنی تمام مادّی عوارض میں بھی صادق آتا ہے ۔(غور کیجئے )
اور آخر میں اس سورہ کی آخری آیت میں خدا کے اوصاف کے بارے میں مطلب کو مرحلہٴ کمال تک پہنچاتے ہوئے فرماتا ہے : اور ہر گز اس کاکوئی شبیہ اور ہمسر نہیں ہے ۔( ولم یکن لہ کفواً احد9
”کفواً“ اصل میں مقام و منزلت اور قدر میں پلہ کے معنی میں ہے اور اس کے بعد اس کا ہر قسم کے شبیہ اور مانند پر اطلاق ہوا ہے ۔
اس آیت کے مطابق مخلوقات کے تمام عوارض او رموجودات کی صفات اور ہر قسم کا نقص و محدودیت اس کی ذاتِ پاک سے منتفی ہے ۔ یہ وہی توحید ِ ذاتی و صفاتی ہے جو اس توحید عددی و نوعی کے مقابلہ میں ہے جس کی طرف اس سورہ کے آغاز میں اشارہ ہوا ہے ۔
اس بناء پر نہ تو ذات میں اس کا کوئی شبیہ ہے اور نہ صفات میں کوئی اس کے مانند ہے ، او رنہ ہی افعال میں کوئی اس کا مثل و نظیر ہے ، وہ ہر لحاظ سے بے مثل و نظیر ہے ۔
امیر المومنین علی علیہ السلام نہج البلاغہ کے خطبہ میں فرماتے ہیں :”لم یلد “ فیکون مولودا ً “ ” ولم یولد فصیر محدود اً ولا ”کفٴ“ لہ فیاکفئہ ولا نظیر لہ فیساویہ
”اس نے کسی کونہیں جنا کہ وہ خود بھی مولود ہو۔ اور وہ کسی سے پیدا نہیں ہوا ورنہ وہ محدود ہو جاتا اس کا کوئی مثل و نظیر نہیں ہے کہ وہ اس کا ہم پلہ ہو جائے ، اور اس کے لئے کسی شبیہ کا تصور نہیں ہو سکتا کہ وہ اس کے مساوی ہو جائے۔ 10
اور یہ ایک ایسی عمدہ تفسیر ہے جو توحید کے عالیترین دقائق کو بیان کرتی ہے ۔ ( سلام اللہ علیک یا امیر المومنین
 



 
۱۔ ”المیزان “جلد ۲۰، ص۵۴۳
۲۔”بحارالانوار “جلد ۳،ص۲۲۲
3۔”بحار الانوار “جلد ۳،ص۳۰۶،حدیث۱
4۔”بحار الانوار “جلد ۳،ص۲۲۳
5۔”بحارالانوار “جلد ۳،ص ۲۲۳
6۔”مجمع البیان“جلد ۱۰ ،ص۵۶۵
7۔”بحار الانوار “جلد ۳، ص۲۳۰ ،حدیث۲۱
8 ۔”بحار الانوار “جلد ۳ ص ۲۲۴
9۔”احد“ ” کان“ کا اسم ہے اور ” کفواً “ اس کی خبر ہے ۔
10۔ ” نہج البلاغہ“ خطبہ ۱۸۶۔
 
اللہ “خدا کااسم خاص ہے ۱۔ توحید کے دلائل
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma