میں سپیدئہ صبح کے پر وردگار کی پناہ مانگتا ہوں ۔

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونه جلد 27
اس سورہ کی فضیلت ۱-۔شرو فساد کے اہم ترین سر چشمے

قرآن اس سورہ کی پہلی آیت میں خود پیغمبر کو ایک نمونہ اور پیشوا کے عنوان سے اس طرح حکم دیتا ہے : کہہ دیجئے ،میں سفیدئہ صبح کے پرور دگا رسے پناہ مانگتا ہوں جو رات کی سیاہی کو چیر دیتا ہے ۔(قل اعوذبرب الفلق )۔ ان تمام چیزوں کے شر سے جو اس نے پیدا کی ہیں۔(من شر ما خلق
تمام شریر موجودات کے شر سے ،شریر انسانوں سے ،جنوں ،حیوانات،شر کے پیش آنے والے واقعات اور نفس اماّرہ کے شر سے ۔”فلق “(بروزن شفق )”فلق “(بر وزن خلق )کے مادہ سے اصل میں کسی چیز میں شگاف کرنے اور ایک کو دوسرے سے جدا کرنے کے معنی میں ہے ،اور چونکہ سفیدئہ صبح کے پھوٹنے کے وقت رات کا سیاہ پردہ چاک ہو جاتاہے ۔لہٰذا یہ لفظ طلوع صبح کے معنی میں استعمال ہوا ۔جیسا کہ”فجر “کا بھی اسی منا سبت سے طلوع صبح پر اطلاق ہوتا ہے ۔
بعض اسے تمام موالید اور تمام زندہ موجودات کے معنی میں سمجھتے ہیں ،چاہے وہ انسان ہو یا حیوان و نبا تات کیو نکہ ان موجودات کا پیدا ہونا ،جو دانہ یا گٹھلی وغیرہ کے شگافتہ ہونے سے صورت پذیر ہوتا ہے ،وجود کے عجیب ترین مراحل میں سے ہے اور حقیقت میں تولد کے وقت اس موجود میں ایک عظیم تحرک رونما ہوتا ہے اور وہ ایک عالم سے دوسرے عالم میں قدم رکھتا ہے ۔
سورئہ انعام کی آیہ ۹۵میں آیا ہے :”ا ن اللہ فالق الحب والنوی یخرج الحی من ا لمیت و مخرج ا لمیت من الحی“”خدا دانہ اور گٹھلی کا شگافتہ کرنے والا ہے ،جو زندہ کو مردہ سے اور مردہ کو زندہ سے خارج کرتا ہے ۔
بعض نے ”فلق “کے مفہوم کو اس سے بھی زیادہ وسیع معنی میں لیا ہے اور اس کا ہر قسم کی آفر ینش وخلقت پر اطلاق کیا ہے ،کیو نکہ ہر موجود کی آفر ینش وخلقت سے عدم کا پردہ چاک ہو جاتا ہے ،اور وجود کا نور ظاہر و آشکار ہو جاتاہے ۔
ان تینوں معا نی (طلوع صبح،زندہ موجودات کا تولد ،اور ہر موجود کی خلقت و آفر ینش )میں سے ہر ایک عجیب و غریب وجود میں آنے والی چیز ہے جو پروردگار اور اس کے خالق و مدبر کی عظمت کی دلیل ہے ،اور اس وصف کے ساتھ خدا کی تو صیف ایک عمیق مفہوم و مطلب رکھتی ہے ۔
بعض احادیث میں یہ بھی آیا ہے کہ :”فلق “دوزخ میں ایک کنواں یا زندان ہے ،اور وہ جہنم کے وسط میں ایک شگاف کی مانند دکھائی دیتا ہے ۔
یہ رو ا یت ممکن ہے اس کے مصادیق میں سے ایک مصداق کی طرف اشارہ ہو ،لیکن یہ ”فلق “کے وسیع مفہوم کو محدود نہیں کرتی ۔”من شر ما خلق “کی تعبیر کا یہ مفہوم نہیں ہے کہ آفر ینش و خلقت الٰہی اپنی ذات میں کوئی شر رکھتی ہے کیو نکہ آفر ینش خلقت تو ایک ایجاد ہی ہے ،ور ایجاد وجود خیر محض ہے ،قرآن کہتا ہے :الذی احسن کل شیء خلقہ ”وہی خدا جس نے چیز کو بھی پیدا کیا بہتراور زیادہ سے زیادہ اچھا کر کے پیدا کیا “(الم سجدہ ۔۷)
بلکہ شر اس وقت پیدا ہوتا ہے جب مخلوقات قوانین آفر ینش سے منحرف ہو جائیں اور معینہ راستے سے الگ ہو جائیں۔مثلاََ ڈنک جانوروںکے کاٹنے والے دانت ایک دفاعی حربہ ہیں ،جنہیں وہ اپنے دشمنوں کے مقا بلہ میں استعمال کرتے ہیں اب اگر یہ ہتھیار اپنے مو قع و محل پر ہوں تو خیر ہی خیر ہیں،لیکن اگر یہ بے موقع اور دوست ہی کے مقابلہ میں استعمال ہونے لگیں تو پھر شر اور برائی ہیں ۔
بہت سے ایسے امور ہیں ،جنہیںہم ظاہر میں شر سمجھتے ہیں ،لیکن وہ با طن میں خیر ہیں،مثلاََبیدار کرنے والے اور ہو شیار و خبر دار کرنے والے حوادث بلائیںاور مصائب ،جو انسان کو خواب غفلت سے بیدار کرکے خدا کی طرف متو جہ کرتے ہیں ،یہ مسلمہ طور پر شر نہیں ہیں ۔
اس کے بعد اس مطلب کی تو ضیح و تفسیر میں مزید کہتا ہے :”اور ہر مزاحمت کرنے والے موجود کے شر سے جب کہ وہ وارد ہو تا ہے ۔“(و من شر غاسق اذا وقب
”غاسق “”غسق “( بر وزن شفق )کے مادہ سے ”مفر دات “میں ”راغب “کے قول کے مطابق ،رات کی ظلمت کی اس شدت کے معنی میں ہے جو آدھی رات کے وقت ہوتی ہے ،اسی لیے قرآن مجید نماز مغرب کے اختتام کے وقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فر ماتا ہے :الیٰ غسق اللیل ،اور یہ جو لغت کی بعض کتا بوں میں ”غسق“ کی آغاز شب کی تا ریکی کے معنی میں تفسیر ہوئی ہے ،بعید نظر آتا ہے ،خصوصاََجب کہ اس کا اصلی ریشہ اور جڑ،امتلا ء(پُر ہونے )اور بہنے کے معنی میں ہے ،اور مسلمہ طور پر رات کی تاریکی اس وقت زیادہ یعنی پُر اور لبریز ہوتی ہے جب آدھی رات ہو جائے ۔اس کے مفا ہیم میں سے ایک ،جو اس کا معنی کا لازمہ ہے ،ہجوم کرنا اور حملہ آور ہونا ہے ،اس لیے یہ معنی میں بھی استعمال ہوا ہے ۔
اس بناء پر زیر بحث آیت میں ”غاسق “کا معنی یاتو حملہ کرنے والا شخص ہے ،یا ہر وہ شریر موجود ہے جو حملہ کر نے کے لیے رات کی تا ریکی سے فائدہ اُٹھا تا ہے ،کیو نکہ نہ صرف درندے اور ڈنک مارنے والے جانور ہی رات کے وقت اپنے بلوں اور ٹھکانوںسے باہر نکل آتے ہیں ،بلکہ شریرو ناپاک اور پلید افراد بھی اپنے برے مقا صد کے لیے عام طور پر رات کی تاریکی سے فائد ہ اُٹھاتے ہیں ۔
”وقب “(بر وزن شفق )”وقب “(بر وزن نقب )کے مادہ سے گڑھے اور خندق کے معنی میں ہے ۔اس کے بعد اس کا فعل گڑھے میں داخل ہونے کے معنی میں استعمال ہونے لگا ۔گویا شریر اور نقصان پہنچانے والے موجودات رات کی تاریکی سے فائدہ اُٹھا تے ہوئے نقصان پہنچانے والے گڑھے کھود کر اپنے پلید اور گندے مقاصد کو پورا کرنے کے لیے اقدام کرتے ہیں ۔یا یہ ہے کہ یہ تعبیر ”نفوذ کرنے “کی طرف اشارہ ہے ۔
اس کے بعد مزید کہتا ہے :”اور ان کے شر سے جو گر ہوں میں دم کرتے ہیں۔“(و من شر النفا ثات فی العقد
”نفا ثات “”نفث“(بر وزن حبس )کے مادہ سے اصل میں تھو ڑی سی مقدار میںتھو کنے کے معنی میں ہے ۔اور چو نکہ یہ کام پھو نک مارنے کے ساتھ انجام پاتا ہے ،لہٰذا”نفث “”نفخ“(پھو نکنے اور دم کرنے )کے معنی میں آیا ہے ۔
لیکن بہت سے مفسرین نے ”نفا ثات “کی ”جادو گر عورتوں“کے معنی میں تفسیر کی ہے ۔(نفاثات جمع مونث ہے اور اس کا مفرد ”نفا ثہ “”نفث “کے مادہ سے صیغہ مبالغہ ہے )وہ عورتیں کچھ اوارد پڑ ھتی تھیں اور گر ہوں پر دم کیا کرتی تھیں اور ا س طرح سے وہ کرتی تھیں ،لیکن کچھ لوگ اسے وسوسے پیدا کرنے والی عورتوں کی طرف اشارہ سمجھتے ہیں ۔جو مسلسل مردوں کے ،خصو صاََجو اپنے شو ہروں کے کان بھرتی رہتی تھیں ،تاکہ مثبت کاموں کے انجام دینے میں ان کی آہنی عزم کو کمزور کر دیں اور اس قسم کی عورتوںکے وسوسوں نے طول تاریخ میں کیسے کیسے حوادث پیدا کیے ،کیسی کیسی آگ بھڑ کائی ،اور کیسے کیسے استوار و مظبوط ارادوں کو کمزور کر کے رکھ دیا ۔
”فخر ر ازی“ کہتا ہے :عورتیں مردوں کے دلوں میں اپنی محبت کے نفوذ کی بناء پر تصرف کر لیتی ہیں ۔۱
یہ معنی ہمارے زمانہ میں ہر وقت سے زیادہ ظاہر ہے کیو نکہ دنیا کے سیا ست دانوں میں جا سو سوں کے نفو ذ کرنے کا ایک اہم ترین ذریعہ جا سوسہ عورتوں سے فائدہ اُٹھانا ہے ،کیو نکہ ان ”نفا ثات فی العقد “کے ذریعے پو شیدہ بھیدوں کے صندوقوں کے تالے کھل جاتے ہیں اور وہ ا تنہائی مر موز اور پو شیدہ مسائل سے با خبر ہو جاتی ہیں ،اور انھیں دشمن کے حوالے کر دیتی ہیں ۔
بعض نے نفاثات کی ”نفو س شریرہ “یا ”وسوسے پیدا کرنے والی جماعتوں “کے ساتھ بھی تفسیر کی ہے جو اپنے مسلسل پرو پیگنڈوں کے ذر یعے پختہ ارادوں کی گر ہوں کو کمزور کر دیتے ہیں ۔
بعید نہیں ہے کہ یہ آیت ایک عام اور جامع مفہوم رکھتی ہو جو ان تمام معا نی کو شامل ہو ،یہاں تک کہ سخن چینی کرنے والوں اور چغل خوروں کی باتوں کو بھی ،جو محبت کے مرا کز کو سست ،کمزور اور ویران کر دیتے ہیں ۔
البتہ یہ بات قابل توجہ ہے کہ سا بقہ شان نزول سے قطع نظر ،آیت میں کوئی ایسی نشانی موجود نہیں ہے کہ اس سے خصو صیت کے ساتھ جادو گروں کا جادو مراد ہو اور بالفرض اگر ہم آیت کی اس طرح تفسیر بھی کریں،تو بھی یہ اس شان نزول کی صحت پر دلیل نہیں ہوگی ۔بلکہ یہ اس بات کی دلیل ہوگی کہ پیغمبر اکرم جادو گروں کے شر سے خدا کی پناہ مانگ رہے ہیں ۔اسی طرح سے جیسے صحیح و سالم افراد سر طان کی بیماری سے پناہ ما نگتے ہیں ،چا ہے وہ ہر گز بھی اس میں مبتلا نہ ہوئے ہوں۔
اس سورہ کی آخری آیت میں فر ماتا ہے :اور ہر حسد کرنے والے کے شر سے جب وہ حسد کرے ۔“(ومن شر حاسد اذا حسد
یہ آیت اس بات کی نشا ن دہی کرتی ہے کہ حسد بد ترین اور قبیح ترین صفات رذیلہ میں سے ہے ،کیو نکہ قرآن نے اسے درندہ جانوروں ،ڈسنے والے سا نپوںاور وسوسے ڈالنے والے شیا طین کے کاموں کے ساتھ قرار دیا ہے


 

۱۔”تفسیر فخر رازی “جلد ۳۲ ص ۱۹۶

اس سورہ کی فضیلت ۱-۔شرو فساد کے اہم ترین سر چشمے
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma