اپنے پروردگار کے نام سے پڑھ

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونه جلد 27
اس سورہ کی قراٴت کی فضیلت۱۔ وحی کا آغاز ایک حرکت علمی کے آغاز کے ساتھ ہوا ۔

پہلی آیت میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے :” اپنے پروردگار کے نام سے پڑھ جس نے سارے جہان کوخلق کیا ہے “۔ ( اقراٴ باسم ربک الذی خلق1
بعض نے یہ کہا ہے کہ اوپر والے جملہ میں مفعول مخذوف ہے اور اصل میں اس طرح تھا اقراٴ القراٰن باسم ربّک اپنے پروردگار کے نام سے قرآن مجید پڑھ ، اور اسی بناء پر علماء نے اس آیت کو اس پر دلیل بنایاہے کہ بسم اللہ قرآن کی سورتوں کا جز ہے۔ 2
اور بعض نے ” باء “ کو زائدہ سمجھا ہے اور یہ کہاہے کہ اپنے پروردگارکے نام کو پڑھ ہے ، لیکن یہ تفسیر بعید نظر آتی ہے ، کیونکہ مناسب یہ ہے کہ کہاجائے اپنے پروردگار کے نام کو یاد کر۔
قابل توجہ بات یہ ہے کہ یہاں سب سے پہلے پروردگار کی ” ربوبیت“ کے مسئلہ پر تکیہ ہواہے ۔ اور ہم جانتے ہیںکہ ” رب“ ” مالک مصلح“ کے معنی میں ہے ، یعنی وہ ہستی جو کسی چیز کی مالک بھی ہے اور اس کی اصلاح و تربیت بھی کرتی ہو۔
اس کے بعد پروردگار کی ربوبیت کی ثابت کرنے کے لئے عالم ہستی کوخلقت و آفرینش پر تکیہ ہو اہے ، کیونکہ اس کی ربوبیت کی بہترین دلیل اس کی خالقیت ہے ، اور عالم کی تدبیر وہی کرسکتا ہے جس نے اس کو خلق کیا ہے ۔
یہ حقیقت میں عرب کے مشرکوں کا جواب ہے جو خدا کی خالقیت کو تو قبول کرتے ہیں لیکن ربوبیت اور تدبیر کے ضمن میں بتوں کے قائل تھے۔
اس کے علاوہ نظام ہستی میں خد اکی ربوبیت اور اس کی تدبیر اس کی ذاتِ مقدس کو ثابت کرنے کی بہترین دلیل ہے۔
اس کے بعد تمام مخلوقات میں سے عالم خلقت کے اہم ترین موجود اور آفرینش کے گل سر سبد یعنی انسان پر تکیہ کرتا ہے اور اس کی آفرینش کو ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے : ” وہی خداجس نے انسان کو جمے ہوئے خون سے پیدا کیا “۔ ( خلق الانسان من علق
”من علق“ اصل میں کسی چیز کے چپک جانے کے معنی میں ہے۔ اسی لیے جمے ہوئے خون کو اور اسی طرح” جو نک“ کو جو خون چُوسنے کے لیے بدن سے چپک جاتی ہے” علق“ کہتے ہیں، اور چونکہ نطفہ عالم جنین کا پہلا دورگزار نے کے بعد جمے ہوئے اور چپکے ہوئے خون کی صورت اختیار کرلیتا ہے ، جو ظاہرمیں بہت ہی کم قدر و قیمت رکھتا ہے لہٰذا اس آیت میں انسان کی خلقت کا مبداء اسی ناچیز موجودکو شمار کرتا ہے تاکہ پروردگار کی عظیم قدرت نمائی واضح ہوجائے جس نے اس قسم کی بے قدر و قیمت موجود سے ایسی قابل قدر اور قیمتی مخلوق پید اکردی ہے۔
بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ علق سے مرادیہاں آدم علیہ السلام کی مٹی ہے جو چپکنے کی حالت بھی رکھتی تھی ، اور یہ بات واضح ہے کہ وہ خدا جو اس عجیب مخلوق کو اس ” چپکی ہوئی مٹی “ کے ایک ٹکڑے سے وجود میں لایاہے ، وہی ہر قسم کی حمد و ستائش کے لائق ہے ۔
کبھی” علق“ کو ” صاحبِ علاقہ “ وجود کے معنی میں لیا ہے جو انسان کی اجتماعی روح اور ان کے ایک دوسرے کے ساتھ تعلق کی طرف اشارہ ہے ، اور یہ حقیقت میں تکامل بشر اور تمدنوں کی پیش رفت کا پایہ اصلی ہے ۔
بعض ” علق“ کو نر کے نطفہ ( سپرم) کی طرف اشارہ سمجھتے ہیں جو ” جونک“ کے ساتھ بہت زیادہ مناسبت رکھتا ہے یہ خورد بینی موجود نطفہ کے پانی میں تیرتا ہے ، رحم میں عورت کے نطفہ کی طرف بڑھتا ہے ، اس کے ساتھ چپک جاتا ہے اور ان دونوں کی ترکیب سے انسان کا کامل و مکمل نطفہ وجود میں آتا ہے ۔
یہ ٹھیک ہے کہ اس زمانہ میں یہ مسائل تحقیق و دریافت نہیں ہوئے تھے، لیکن قرآن مجید نے علمی اعجاز کے طریق سے اس سے پردہ اٹھایا ہے ۔ ان چار تفاسیر میں سے پہلی تفسیر زیادہ واضح معلوم ہوتی ہے، اگر چہ تفسیروں کے درمیان جمع کرنے میں بھی کوئی مانع نہیں ہے ۔
ہم نے جو کچھ بیان کیا ہے اس سے واضح ہو جاتاہے کہ ” انسان“ ایک تفسیر کے مطابق حضرت آدم علیہ السلام کے معنی میں ہے اور دوسری تفسیر کے مطابق انسانوں کے معنی میں ہے ۔
دوبارہ تاکید کے لئے مزید کہتا ہے : ” پڑھ کہ تیرا پروردگارہر کریم سے زیادہ کریم اور اور ہر بزرگوار سے اور باعزت سے بڑھ کر بزرگوار اور باعزت ہے ۔“( اقراٴو ربک الاکرم3
بعض کا نظر یہ ہے کہ دوسرا ” اقراٴ“ اسی ” اقراٴ“ کی ایک تاکید ہے جواس پہلی آیات میں ہے ۔ اور بعض نے یہ کہا کہ یہ اس سے مختلف ہے ۔ پہلے جملہ میں پیغمبر کا اپنے لیے پڑھنا مراد ہے ، اور دوسرے جملہ میں لوگوں کے لیے پڑھنا۔
لیکن تاکید زیادہ مناسب نظر آتی ہے کیونکہ اس فرق پر کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔
بہر حال اس آیت کی تعبیرحقیقت میں پیغمبر کی اس گفتگوکا جواب ہے کہ جو جبرئیل کے جواب میں آپ نے کہی تھی کہ میں پڑھا ہو انہیں ہوں۔ یعنی پروردگار کی برکت سے جو حد سے زیادہ کریم وبزرگوار ہے تو قراٴت و تلاوت کی طاقت وتوانائی رکھتا ہے ۔
اس کے بعداس خدا کی توصیف کر تے ہوئے جو سب کریموں سے بڑھ کر کریم و بزرگوار ہے ، فرماتا ہے :
”وہی ہستی جس نے قلم کے ذریعے تعلیم دی ہے“۔( الذی علم الانسان بالقلم )
”اور انسان کو وہ سب کچھ سکھا دیا جو وہ نہیں جانتا تھا “۔ ( علم الانسان مالم یعلم
یہ آیات بھی درحقیت پیغمبر کی اسی گفتگو کا جواب ہیں جس میں آپ نے فرمایاتھا کہ : ” میں قراٴت کرنے والانہیں ہوں“۔ یعنی وہی خدا جس نے انسان کو قلم کے ذریعہ تعلیم دی ہے اور جو کچھ انسان نہیں جانتاتھا اسے سکھا یا ہے، وہ اس بندے کو بھی جس نے کسی سے سبق نہیں پڑھا ہے قراٴت و تلاوت سکھانے کی قدرت رکھتا ہے ۔
الذی علم بالقلم “کے جملہ کے دو معنی نکلتے ہیں، ایک یہ کہ : خدا نے انسان کو لکھنا اور کتابت کرنا سکھا یا ،اوراس عظیم کام کی قدرت و توانائی، جو تاریخ بشرکا مبداء اور تمام علوم و فنون اور تمدنوں کا سر چشمہ ہے ، اس میں ایجاد کی ۔
دوسرا یہ کہ اس سے مراد یہ ہے کہ انسان کو اس طریق سے اور اس وسیلہ سے علوم و فنون سکھائے۔
خلاصہ یہ ہے کہ ایک تفسیر کے مطابق تولکھنے کی تعلیم مراد ہے ،اور دوسری تفسیر کے مطابق وہ علوم مراد ہیں جو کتابت کے ذیعہ انسان تک پہنچے ہیں ۔
بہرحال یہ ایک ایسی پر معنی تعبیر ہے، جو نزول وحی کے ا ن حسّاس لمحات میں ان عظیم اور پر معنی آیات میں منعکس ہو گئی ہے ۔


 

1۔ ”راغب“ مفردات“ کہتا ہے ” قراٴت“ حروف کلمات کو ایک دوسرے میں ملانے اور ضم کرنے کے معنی میں ہے ، اس لیے حرف کو قرائت نہیں کہتے ۔
2۔ اس صورت میں ” باء“ ملابست کے لیے ہے ۔
3۔ ” وربک الاکرم “ کا جملہ اسمیہ استینافیہ ہے اور ” مبتدا“ اور ” خبر‘ سے مرکب ہے۔

اس سورہ کی قراٴت کی فضیلت۱۔ وحی کا آغاز ایک حرکت علمی کے آغاز کے ساتھ ہوا ۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma