تقویٰ اور خدائی امدادیں

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونه جلد 27
اس سورہ کی تلاوت کی فضیلتانفاق اور جہنم کی آگ سے دوری

اس سورہ کے آغاز میں ہم پھر تین فکر انگیز ( مخلوقات اور خالقِ عالم کی ) قسموں کاسامنا کررہے ہیں ، فرماتا ہے : ” قسم ہے رات کی جبکہ وہ سارے جہاں کو ڈھانپ لے “۔ ( و اللیل اذا یغشیٰ)۔
” یغشیٰ “ کی تعبیر ممکن ہے اس بناء پرہوکہ رات کی تاریکی پردہ کی طرح آدھے کرہٴ زمین پر پڑتی ہے ، اور اسے اپنے نیچے ڈھانپ لیتی ہے ۔
یا اس بناپر کی دن کا چہرہ یا آفتاب ِ عالمتاب کا چہرہ اس کے پہنچ جانے سے ڈھک جاتا ہے ۔ بہرحال یہ رات کی اہمیت اور انسانوں کی زندگی میں اس کے اثرات کی طرف سورج کے اعتدال سے لے کر ، اس کے سائے میں تمام زندہ موجودات کے آرام و سکون اور شب زندہ دار، بیداردل اور آگاہ افراد کے مسئلہ تک ایک اشارہ ہے ۔
اس کے بعد دوسری قسم کو بیان کرتاہے اور مزید کہتا ہے :” اور قسم ہے دن کی جب کہ وہ آشکار و ظاہر ہو “۔ ( النھار اذا تجلیٰ ) ۱
اور یہ اس لمحہ کی بات ہے جب سپیدہ صبح رات کے ظلماتی پردہ کو چیر دیتا ہے اور تاریکیوں کو پیچھے دھکیل کر سارے صفحہ آسامانی پر حاکم بن جاتا ہے ۔ اور ہر چیز کو نور اور روشنی میں نہلادیتا ہے۔ وہی نور و روشنی جو حرکت وحیات کی رمز اور تمام زندہ موجودات کی پرورش کا سبب ہے ۔
قرآن مجید میں ” نور“ و ” ظلمت“ کے نظام کے مسئلہ اور ان کی انسانی زندگی پر تاثیر کی طرف بہت زیادہ توجہ دی گئی، کیونکہ یہ عظیم دائمی نعمتیں پروردگار کی اہم آیات میں سے دوآیتیں ہیں ۔
اس کے بعد آخری قسم کو بیان کرتے ہوئے فرماتاہے : ” اور قسم ہے اس ذات کی جس نے مذکر و موٴنث کی جنس کو پیدا کیا “۔ ( وماخلق الذکر و الانثیٰ
کیونکہ عالم ” انسان “ و حیوان“ اور ” نبات“ میں ان دونوں جنسوں کا وجود ، اور وہ تغیرات جو انعقاد نطفہ سے لے کر تولد تک راہ نما ہوئی ہیں ، اور وہ خصوصیات و صفات جو دونوں جنسوں میں ان کی فعالیتوں اور پروگراموں کی نسبت سے پائی جاتی ہیںاور وہ بہت سے اسرار جو جنسیت کے مفہوم میں چھپے ہوئے ہیں ، یہ سب عظیم عالم ِ آفرینش کی نشانیاں اور آیات ہیں جن کے ذریعے ان کے پیدا کرنے والے سے واقفیت حاصل کی جاسکتی ہے ۔
” ما“ ( وہ چیز)کی تعبیر یہاں خدا کے بارے میں اس کی ذات پاک کی حد سے زیادہ عظمت سے کنایہ ہے ، اور یہ وہ ابہام ہے جو اس لحاظ سے یہاں اس طرح حکم فرماہے کہ وہ اسے خیال قیاس و گمان و وہم سے بر تر کردیتا ہے ۔
بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ ” ما“ یہاں مصدر یہ ہے ، تو اس بناء پر اس جملہ کا معنی یہ ہوگا : قسم ہے مذکر وموٴنث کی خلقت کی لیکن یہ احتمال بھی ضعیف نظر آتا ہے ۔
حقیقت میں پہلی اور دوسری دو قسمیں آیات آفاقی کی طرف اشارہ ہیں ، اور تیسری قسم آیات انفسی کی طرف اشارہ ہے ۔
آخر کار ان قسموں کے ہدف کو بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے:” زندگی کے لئے تمہاری سعی و کوشش گوناں گوں ہے ۔ ( انّ سعیکم لشتیٰ
ان کوششوں کی سمت ، اور ان کے نتائج بھی مکمل طور پر مختلف اور متفاوت ہیں ، جو اس طرف اشارہ ہے کہ تم بہر حال زندگی میں سکون و آرام سے نہیں رہو گے ، اور یقینی طورپر سعی و کوشش کے لئے ہاتھ پاوٴں مارو گے ، اور خدا داد قوتوں اور توانائیوں کو ، جو تمہارے وجود کا سرمایہ ہیں ۔ کسی نہ کسی راستہ میں خرچ کروگے اب تم خود دیکھو گے کے تمہاری سعی و کوشش کس راستے ، کس سمت اور کس نتیجہ کی حامل ہے ؟ کہیں ایسا نہ ہو کہ تم اپنے سرمایوں اور صلاحیتوں کو تھوڑی سی قیمت پر بیچ ڈالو، یا فضول مفت میں ضائع کربیٹھو ۔
” شتی“ ” شتیت“کی جمع ہے جو” شت“( بر وزن شط)کے مادہ سے جمیعت کو پراکندہ کرنے کے معنی میںہے اور یہاں کیفیت و مقصد حصول اور انکے نتیجہ کے لحاظ سے لوگوں کی کوششوں کے اختلاف کی طرف اشارہ ہے ۔
اس کے بعد لوگوں کو دو گروہوں میں تقسیم کرکے ہر ایک کی خصوصیت کو شمار کرتے ہوئے فرماتاہے : ” پس وہ شخص جو راہ خدا میں بخشش کرے اور پرہیزگاری اختیار کرے “۔ ( فاما من اعطٰیو اتقٰی
” اور راہ خد اکی اچھی جزا پر ایمان رکھتا ہو“ ( صدق بالحسنیٰ
” ہم اس کے لئے راستہ کو آسان بنا دیں گے اور بہشت ِ جاوداں کی طرف ہدایت کریں گے۔“ ( فسنیسرہ للیسرٰی
”اعطٰی“ سے مراد وہی راہ خدا میں خرچ کرنا اور حاجت مندوں کی مدد کرنا ہے۔
اور اس کے بعد تقویٰ کے لئے تاکید ممکن ہے کہ پاک نیت ، اور خرچ کرتے وقت قصدِ خالص، اور مشروع طریقہ سے اموال کاحصول اور انہیں مشروع و جائز طریقہ سے خرچ کرنا اور ہر قسم کا احسان جتانے اور اذیت و آزار پہنچانے سے خالی ہونے کے لزوم کی طرف اشارہ ہو کیونکہ ان اوصاف کا مجموعہ تقویٰ کے عنوان میں جمع ہے ۔
بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ ” اعطیٰ“ مالی عبادتوں کی طرف اشارہ ہے اور” اتقٰی “ باقی تمام عبادتوں کی طرف ، اور واجبات کو انجام دینے اور محرمات کو چھوڑ دینے کی طرف ، لیکن پہلی تفسیر ظاہر آیت کے ساتھ ساز گار ہے، اور شانِ نزول کے ساتھ بھی جو ہم نے اوپر بیان کی ہے ۔
حسنٰی “ کی تصدیق (” حسنٰی“ ” احسن“ کی موٴنث ہے “ جو زیادہ اچھے کے معنی میں ہے )۔
یہ خدا کی اچھی جزاوٴں پرایمان رکھنے کی طرف اشارہ ہے،جیسا کہ شانِ نزول میں بیان ہواہے کہ ” ابو الدحداح“ نے خدا کی جزاوٴں پر ایمان رکھتے ہوئے اپنے اموال خرچ کئے ۔ سورہٴ نساء کی آیہ ۹۵ میں آیا ہے : و کلاً وعد اللہ الحسنٰی :” خد انے ان میں سے ہر ایک کو اچھے اجر اور جزاوٴں کا وعدہ دیا ہے ۔ ( اس آیت میں بھی حسنی اچھی جزا کے معنی میں ہے )۔
اور بعض نے اس کی کلمہ لا الہ الاَّاللہ یا شہادتین کے ساتھ تفسیر کی ہے ۔
لیکن سیاقِ آیات ، شانِ نزول ، اور بہت سی آیاتِ قرآنی میں حسنٰی کا اچھی جزا کے معنی میں ہونے کے ذکر کی طرف توجہ کرتے ہوئے پہلی تفسیر زیادہ مناسب نظر آتی ہے۔
فسنیسرہ للیسری“ کا جملہ ممکن ہے توفیق الٰہی ، اور ایسے اشخاص پر امر اطاعت کے آسان کرنے کی طرف اشارہ ہو، یا ان کی طرف جنت کی راہ کھولنے اور تحیت و سلام کے ساتھ ملائکہ اور فرشتوں کے استقبال کرنے ، یا ان تمام چیزوں کی طرف اشارہ ہو۔
یہ بات یقینی ہے کہ جو لوگ انفاق و تقویٰ کی را ہ اختیار کرتے ہیں اور عظیم خدائی جزاوٴں پر گرم جوشی کے ساتھ ایمان رکھتے ہیں ، ان کے لئے مشکلات آسان ہوجاتی ہیں او روہ دنیا و آخرت میں ایک خاص قسم کے سکون و آرام کے حامل ہوتے ہیں ۔
ان سب سے قطع نظر ممکن ہے کہ مالی انفاق ابتداء میں انسان کی طبیعت و مزاج کے لئے شاق اور مشکل ہو، لیکن تکرار کرنے اور مسلسل جاری رکھنے سے اس پر راستہ اس طرح آسان ہو جاتا ہے کہ وہ اس سے لذت آٹھا تا ہے ۔
کتنے ہی سخی لوگ ایسے ہیں جو اپنے دسترخوان پر مہمان کی موجودگی میں خوش ہوتے ہیں، لیکن اس کے برعکس اگر کسی دن ان کے پاس مہمان نہ آئے تو وہ پریشان ہو جاتے ہیں اور یہ بھی مشکلات آسان کرنے کی ایک قسم ہے۔ اور اس نکتہ سے بھی غافل نہیں ہونا چاہئیے کہ ا صولی طور پر خدا ئی عظیم جزاوٴں پر ایمان ، انسان کے لئے انواع و اقسام کی مشکلات کی بر داشت کو آسان اور سہل بنا دیتا ہے ، نہ صرف مال بلکہ وہ اپنی جان کو بھی اخلاص کے مطابق گزارتا ہے اور عشق شہادت میں میدان جہاد میں شرکت کرتا ہے ، اور اپنی اس قربانی اور ایثار سے لذت حاصل کرتا ہے۔
” یسریٰ “ ”یسر“ کے مادہ سے اصل میں گھوڑے پر زین کسنے ، اسے لگام دینے اور سواری کے لئے آمادہ و تیارکرنے کے معنی میں ہے ۔ اس کے بعد اس کا ہر سہل اور آسان کام کے لئے اطلاق ہواہے۔ 2
بعد والی آیات میں اس گروہ کے نقطہٴ مقابل کو پیش کرتے ہوئے فرماتا ہے : ” لیکن وہ شخص جو بخل کرے اور اس طریقے سے بے نیازی چاہے“۔ (وامامن بخل و استغنٰی)  ہم عنقریب راستوں کو اس پر دشوار اور مشکل بنادیں گے “۔ ( فسنیسرہ للعسرٰی
بخل“ یہاں ” اعطاء“ کا نقطہٴِ مقابل ہے ، جو پہلے گروہ ( سعادت مند سختیوں کے گروہ) میں بیان ہوا ہے ۔” و استغنیٰ “ ( بے نیازی چاہے ) یابخل کرنے کے لئے ایک بہانہ ، یا مال جمع کرنے کے لئے ایک وسیلہ ہے ، اور یا یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ وہ خدا ئی جزاوٴں سے اپنے آپ کو بے نیاز شمار کرتا ہے ، پہلے گروہ کے بر عکس ، جن کی آنکھ ہمیشہ لطفِ خدا پر لگی رہتی ہے یا وہ اپنے آپ کو خدا کی اطاعت سے بے نیاز سمجھتا ہے ، اور ہمیشہ گناہ میں آلودہ رہتا ہے۔ان تینوں تفاسیر میں سے پہلی تفسیر زیادہ مناسب نظر آتی ہے۔ اگر چہ تینوں تفاسیر کے درمیان جمع بھی ممکن ہے ۔
حسنٰی“کی تکذیب سے مراد وہی قیامت کی جزاوٴں کا انکار ہے، یا پیغمبروں کے دین و آئین اور نیک روش کا انکار ہے ۔
فسنیسرہ للعسری“کی تعبیر جو واقعی طور پر دو ظاہر اً متضاد تعبیریں ہیں ( ہم ان کی راہ کو مشکلات کی طرف آسان کردیں گے )۔
” فسنیسرہ للیسریٰ “ کا نقطہٴ مقابل ہے ، اس طرح سے کہ خدا پہلے گروہ کو تو اپنی تو فیقات کا مشمول قرار دے گا اور ان کے لئے اطاعت و انفاق کی راہ کو طے کرنا آسان بنادے گا تاکہ وہ زندگی کی مشکلات سے رہائی حاصل کرلیں لیکن دوسرے گروہ کی توفیقات سلب ہو گئی ہیں ، لہٰذا ان کے لئے طے کرنا مشکل ہوجاتا ہے ، اور انہیں دنیا و آخرت میں سختیوں کا سامنا کرنا پڑے گا اور اصولی طور پر ان بے ایمان بخیلوں کے لئے نیک اعمال کو انجام دینا ، خصوصاً راہ خدا میں انفاق کرنا سخت اور دشوار کام ہے ، جب کہ پہلے گروہ کے لئے نشاط آور اور ،روح افزا ہے ۔ 3
اور آخری زیر بحث آیت میں ان دل کے اندھے بخیلوں کو خبردار کرتے ہوئے فرماتا ہے :” جب وہ قبر یا جہنم میں جا گرے گا ، تو اس کے اموال ا س کے کچھ کام نہ آئیں گے “۔ ( وما یغنی عنہ مالہ اذا تردّٰی
نہ تو وہ ان اموال کو دنیا سے اپنے ساتھ لے جاسکتا ہے اور اگر وہ گروہ لے بھی جائے تو وہ اس کے جہنم کی آگ میں جانے سے مانع نہیں ہوں گے ۔
”ما“ اس آیت کے آغاز میں ممکن ہے ” نافیہ “ ہو( جیساہم نے او پر بیان کیا ہے ) یا استفہام انکاری کے لئے ہو ، یعنی اس کے اموال قبر یا دوزخ میں جاگرنے کے وقت ا سکو کیا فائدہ دیں ؟
تردّٰ ی “ ” ردئت“ اور ردٰی “ کے مادہ سے ہلاکت کے معنی میں ہے اور بلندی سے گرنے کے معنی میں بھی آ یا ہے جو ہلاکت کا سبب ہو ۔ بلکہ بعض تو اس کی اصل ہی سقط کے معنی میں سمجھتے ہیں، ، اور چونکہ جگہ سے گرنا ہلاکت کا سبب ہوتا ہے ، لہٰذا ہلاکت کے معنی میں بھی آیا ہے اور زیر بحث آیت میں ممکن ہے کہ قبر یا دوزخ میں گرنے کے معنی میں ہو یا ہلاکت عذاب کے معنی میں ہو۔
اس طرح قرآن ان آیات میں دو گروہوں کے بارے میں گفتگو گو کرتا ہے ، ایک گروہ مومن ، متقی اور سخی اور دوسرے گروہ بے ایمان ، بے تقویٰ اور بخیل ، اور ان دونوں گروہوں کانمونہ شانِ نزول میں وضاحت کے ساتھ بیان ہوا ہے ۔
پہلا گروہ تو فیقا ت ِ الہٰی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ، اپنی راہ کو سہولت کے ساتھ طے کرتا ہے، اور جنت اور اس کی نعمتوں کی طرف بڑھا چلا تاجا ہے ، جب کہ دوسراگروہ زندگی میں بے شمار مشکلات میں گھرا ہواہوتا ہے، بہت سال مال جمع کرتا ہے اور یہیں پر چھوڑ کر آگے چلا جاتا ہے ، اور سوائے حسرت، اندوہ و بال اور خدائی عذاب کے انہیں کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا ، اور وہ اس سے کوئی چیز نہیں خرید تے
۱۲۔ انّ علینا للھدیٰ ۔ ۱۳۔ و انّ لنا للاٰخرة و الاولیٰ ۔ ۱۴۔ فاٴنذرتکم ناراً تلظّٰی۔
۱۵۔ لایصلٰھآ الاَّ الاشقی۔ ۱۶۔ الذی کذّب و تولیّٰ۔ ۱۷۔ و سیجنبھا الاتقی۔
۱۸۔ الذی یُوٴ تی مالہ یتزکیّٰ۔ ۱۹۔ و ما لاحدٍ عندہ من نّعْمَةٍ تُجزٰٓی۔ ۲۰۔ الاَّ ابتغآء وجہ ربِّہ الاعلیٰ۔
۲۱۔ وَ لَسوفَ یرضٰی۔
ترجمہ
۱۲۔ یقینا ہدایت کرنا ہمارے ذمہ ہے۔ ۱۳۔ اور دنیا و آخرت ہمارے لئے ۔ ۱۴۔ اور میں تمہیں شعلہ نکالنے والی آگ سے ڈراتا ہوں ۔
۱۵۔ بدبخت ترین لوگوں کے سوا کوئی شخص اس میں داخل نہیں ہوگا۔ ۱۶۔وہی شخص جس نے آیاتِ ( خدا کی ) تکذیب کی اور پیٹھ پھیر لی۔
۱۷۔ اور زیادہ تقویٰ اختیار کرنے والے عنقریب اس سے دور رہیں گے ۔
۱۸۔ وہی شخص جو اپنے مال کو ( خدا کی راہ میں ) بخش دیتا ہے تاکہ اپنے نفس کا تزکیہ کرے ۔
۲۰۔ اور کسی شخص کا اس کے پاس کوئی حقِ نعمت نہیں ہے تاکہ وہ ( اس انفاق کے ذریعے ) اس کا بدلہ دے۔ ۲۰: سوائے اپنے بلند و بر تر پر وردگار کی رضا مندی چاہنے کے لئے ۔
۲۱۔ اور وہ عنقریب راضی و خوشنود ہوجائے گا۔


 

۱۔ قابل توجہ بات یہ ہے ” یغشیٰ“ فعل مضارع کی صورت میں ذکر ہوا ہے ، لیکن ” تجلیّٰ“ فعل ماضی کی صورت میں ہے ۔بعض نے کہا ہے : یہ اس بناء پر ہے کہ اس زمانہ میں جب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی دعوت کا آغاز تھا تو جاہلیت کی تاریکی نے ہر جگہ کو گھیر رکھا تھا ۔ لیکن اس صورت میں ایسی ظلمت و تاریکی کی قسم کھانا کچھ اچھا دکھائی نہیں دیتا ۔ بہتر یہ ہے کہ یہ کہا جائے کہ یہ فعل ماضی چونکہ ”اذا“ شرطیہ کے بعد واقع ہواہے : لہٰذا فعل مضارع کا معنی دیتا ہے ، یا یہ اصل میں ” تتجلی“ تھا اور ا سکی ایک ” تاء “ حذف ہوگئی ہے ، لیکن اس صورت میں فعل مونث ہو جائے گا، اور پھر ” نہار“ ( دن ) اس کا فاعل نہیں ہوسکتا بلکہ پھر تقدیر میں اس طرح ہونا چاہئیے۔ ” اذا تجلی الشمس فیہ “ ( جب اس میں سورج آشکار و ظاہر ہو)۔
2۔ ” تفسیر کشاف“ جلد ۴ ، ص ۷۶۲۔
3۔ ” یسریٰ“ و” عسرٰی“ دونوں موٴنث کے صیغہ ہیں ( ان کا مذکر ” الیسر“ و ” اعسر“ و” اعسر“ ہے) اور ان دونوں کا موٴنث کے صیغہ کی صورت میں ذکر کرنا تو اس بناء پر ہے کہ ان کا موصوف ( افعال کا مجموعہ ) ہے اور تقدیر میں اس طرح ہوگا ۔ ” فسنیسرہ الاعمال یسریٰ۔ او۔ لا اعمال عسری یا تمام مسائل اور زندگی میںپیش آنے والے واقعات میں، اور اگر اس کا موصوف مفرد ہو تو ممکن ہے کہ ” طریقة“ یا” خلّة“ یا اس قسم کا کوئی لفظ ہو۔

اس سورہ کی تلاوت کی فضیلتانفاق اور جہنم کی آگ سے دوری
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma