میں دشمنوں کے منصوبوں کو خاک میں ملا دیتا ہوں

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونه جلد 27
اے انسان دیکھ کہ تو کس چیز سے پید اہو اہے  سورہ اعلیٰ

گزشتہ آیا ت کے بعد، جن میں انسان کے نطفہ اور اس کی پہلی زندگی کی طرف توجہ کے حوالے سے استدلال تھا ، ان آیات میں پھر امر معاد پر تاکید کرتے ہوئے اور دوسرے دلائل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتاہے : ” قسم ہے بارش سے پر آسمان کی “۔ ( و السماء ذات الرجمع ) اور قسم ہے زمین کی جو شگافتہ کی جاتی ہے اور اس میں سے سبزہ پھوٹتا ہے “۔ ( و الارض ذات الصدع )۔ ” کہ یہ ایک حق بات ہے کہ تم زندہ ہوجاوٴ گے “۔(انہ لقول فصل
” یہ پکّی بات اور اس میں کسی قسم کی شوخی اور مزاح نہیں ہے “۔ (وما ھو بالھزل )
رجع “ رجوع کے مادہ سے باز گشت کے معنی میں ہے اور عرب بارش کو رجع کہتے ہیں ، اس وجہ سے کہ پانی زمین اور سمندروں سے اٹھتا ہے اور بارش کی صورت میں زمین کی طرف لوٹ آتاہے ۔ یہ کہ مختلف فاصلوں پر بار بار بارش ہوتی ہے۔
وہ گڑھے جن میں بارش جمع ہوجاتی ہے انھیں بھی رجع کہتے ہیں، بارش کے پانی کے جمع ہو جانے کی بناء پر ، یا ان لہروں اور موجوں کی بناء پر جو ان کی سطح پر ہوا کی جنبش سے پیدا ہوتی ہیں۔ ۱
”صدع“ سخت اجسام میں شگاف پڑ جانے کے معنی میں ہے ، اس طرف توجہ کرتے ہوئے کہ جو کچھ رجع کے معنی میں کہا گیا ہے اس کو کشک و سخت زمینوں کے بارش کے نزول کے بعد شگافتہ ہونے اور سبزہ کی نشو نما کی طرف اشارہ سمجھا ہے۔ حقیقت میں یہ دونوں قسمیں اشارہ ہیںمردہ زمینوں کی بارش کی وجہ سے زندہ ہونے کی طرف ،جسے قرآن نے باربار مسئلہ معاد کے سلسلہ میں بطور دلیل پیش کیا ہے ۔ مثلاً سورہ ق کی آیت ۱۱ ( و احیینابہ بلدة میتاً کذالک الخروج) ” ہم نے بارش کے ذریعہ مردہ زمینوں کوزندہ کیا اور قیامت میں تمہارا خروج بھی اسی طرح ہوگا۔ “
اسی طرح ان قسموںکے درمیان اور ان چیزو ںکے درمیان جن کے لئے قسم کھائی گئی ہے ، واضح مناسبت ہے یہ قرآن کے محاسن میں سے ایک ہے کہ قسموں کے درمیان اور ان کے درمیان جنکے لئے یہ قسمیں کھائی جارہی ہیں ، ایک عمدہ اور پر کشش تناسب نظر آتا ہے ، جس طرح سورہ ج کی آیت ۵ میں مسئلہ معاد پر نطفہ سے انسان کی خلقت اور جنین کے اسرار استدلال کرتا ہے اور بارش کے نزول کے زیر اثر مردہ زمینوں کے زندہ ہونے پر استدلال کرتا ہے ، اسی طرح اس سورہ( سورہ طارق) میں بھی ان دونوں مسائل پر انحصارکیا ہے ۔
بعض مفسرین نے ” و السماء ذات الرجع“ کے جملے کے لئے ایک اور تفسیر بھی بیان کی ہے اور وہ ہے آسمان کے ستاروں کی گردش کی تکرار اور ان کا پہلی حالت کی طرف پلٹنا، زمین کی مختلف ادوار میں اپنے گرداور سورج کی گردش اور نظام شمسی کے سیاروں کی حرکت، چاند سورج اور ستاروں کی طلوع و غروب کی حرکت ۔ یہ سب حرکات باز گشت کی حامل ہیں۔ ان باز گشتوں کا وجود انسان کی حیاتِ تازہ کی طرف باز گشت کی علامت ہے ۔ البتہ پہلے معنی زمین کے شگافتہ ہونے اور مسئلہ معاد کے دلائل کے ساتھ بہت زیادہ مناسبت رکھتے ہیں ۔
قول فصل کے معنی ایسی بات کے ہیں جو حق و باطل کو الگ الگ کردے ۔ یہاں گزشتہ آیتوں کے قرینہ سے ایک گروہ نے اسے قیامت کی طرف اشارہ سمجھا ہے جبکہ مفسرین کی ایک دوسری جماعت اسے قرآن کی طرف اشارہ سمجھتی ہے ۔
معصومین علیہم السلام کی بعض روایات میں بھی اس طرف اشارہ ہو اہے ۔ البتہ قیامت کو قول فصل سے تعبیر کرنا قرآن کی بہت سی آیتوں میں نظر آتا ہے ، جو ضمنی طور پر معاد کی خبر دیتی ہیں ۔اس طرح دونوں تفسیروں کے درمیان جمع ممکن ہے ۔ ایک حدیث میں امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کے واسطے سے پیغمبر اسلام  سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا :
( انھا ستکون فتنة قلت فما المخروج منھا یا رسول اللہ قال کتاب اللہ فیہ نباٴ من قبلکم و خبر مابعد کم وحکم مابینکم ھو الفصل لیس بالھزل من ترکہ من جبار قصمہ اللہ و من ابتغی الھدی فی غیرہ اضلّہ اللہ )
” عنقریب تمہارے درمیان فتنہ ظاہر ہو گا ۔ میں نے عرض کیا اے خدا کے رسول اس سے نجات کی کیا صورت ہے ؟ فرمایا:قرآن جس میں گزشتہ اور آئندہ لوگوں کی خبریں اور تمہارے درمیان کے فیصلے ہیں اور وہ ایسا کلام ہے جو حق کو باطل سے جدا کردیتاہے ، محکم و پختہ ہے ، اس میں شوخی و مزاح نہیں ہے ، جو جبار اس کو چھوڑے گا خدا اس کی کمر توڑے گا اور جو شخص اس کے غیرسے ہدایت چاہے گا خدا اس کو گمراہ کردے گا ۔ 2
اس کے بعد پیغمبر و مومنین کو تسلی دینے کے لئے اور دشمنان اسلام کی تہدید کی غرض سے خدا وند عالم مزید فرماتاہے : ” وہ ہمیشہ مکر و حیلہ کرتے ہیں اور منصوبے بناتے ہیں ( انھم یکیدون کیداً)۔ میں بھی ان کے مقابلہ میں ایک منصوبہ بناتا ہوں اور ان کی سازش کو خاک میں ملا دیتا ہوں ۔ ( وکید کیداً) اب جبکہ معاملہ اس طرح ہے تو کافروں کو تھوڑی سے مہلت دے دے تاکہ وہ اپنے اعمال کا انجام دیکھ لیں ۔( فمھل الکافرین املہھم رویدا ً
ہاں ! وہ ہمیشہ منحوس منصوبہ تم سے لڑنے کے لئے بناتے رہتے ہیں ۔ کبھی مذا ق ا ڑاتے ہیں ، کبھی ، کبھی دیوانہ کہتے ہیں ، کبھی صبح کو ایمان لاتے ہیں اور عصر کے وقت کافر ہو جاتے ہیں تاکہ ایک گروہ کو اپنے ساتھ واپس کفر کی طرف لے جائیں ۔
کبھی کہتے ہیں کہ جو لوگ تیرے گرد جمع ہو گئے ہیں وہ فقراء وبے نوا ہیں ۔ انہیں دور کرتا کہ تیرا ساتھ دیں۔ کبھی کہتے ہیں کم از کم ہمارے بعض خدا وٴں کو قانونی طور پر قبول کرلے تو ہم تیرا ساتھ دیں گے ۔ کبھی تجھے جلا وطن کرنے کا اور قتل کرنے کا منصوبہ بناتے ہیں ۔ خلاصہ یہ کہ ہر لمحہ اور نئے بھیس میں آتے ہیں تاکہ تیری جماعت کو متفرق و منتشر کردیں اور تیر ے اصحاب و انصار پر دباوٴ ڈالیں یا تجھے ختم کردیں اور خدا کے نور کو بجھا دیں ۔
لیکن انہیں جانتا چاہئیے کہ خدا نے ارادہ کیا ہے کہ یہ نور عالمگیر ہو جائے ۔ یہ خدا کا نور ہے ۔ یہ کسی کے پھونک مارنے سے نہیں بجھ سکتا ۔ یہ فروزاں آفتاب ہے جو چمگادڑوں کی چشم پوشی سے ختم نہیں ہوسکتا۔ وہ منصوبہ بناتے اور ہم بھی اپنی تدابیرکرتے ہیں ۔
کید “ بقول مفرد ات راغب، ایک قسم کی چارہ جوئی ہے اور یہ دو قسم کا ہوتاہے ۔ ایک مذموم دوسرا پسندیدہ ، اگر چہ اس کا استعمال مذموم چارہ جوئی میں زیادہ ہوتاہے لیکن ممدوح چارہ جوئی میں بھی ہوتاہے ،مثلاً( کذالک کدنا لیوسف) ہم نے اس طرح یوسف کے لئے چارہ جوئی کی ۔(سورہ یوسف۔ ۷۶)
دشمنوں کے کیدو مکر کی مراد زیرِ بحث آیت میں واضح ہے ۔ یہ وہی صورت ِ حال ہے جس کے کچھ عنوانات کے متعلق ہم نے اوپر اشارہ کیا ہے اور قرآن کی ایذا رساں سازشوں اور شرارت پر مبنی واقعات سے پر ہے ۔ باقی رہا خدائی کی ، اس سے یہاں کیا مراد ہے ؟
بعض نے یہاں کہاہے کہ وہی مہلت دیتاہے جو دردناک عذاب پر منتھی ہوتی ہے اور بعض نے خود عذاب کے معنی میں سمجھا ہے ۔ لیکن زیادہ مناسب یہ ہے کہ کہاجائے کہ مراد وہی الطاف الہٰی ہیں جو پیغمبر اور مومنین کے شامل حال تھے اور دشمنان اسلام کو غافل کردیتے اور ان کی کوشش کو ختم کردیتے ۔ ان کی سازشوں کو درہم برھم کردیتے جس کے نمونے تاریخ اسلام میں بہت زیادہ ہیں ۔
ان آیات میں خصوصیت کے ساتھ پیغمبر کو حکم دیتا ہے کہ کافروں سے لطف و مدارت سے پیش آ، انہیں مہلت دے اور ان کے فنا ہوجانے کے بارے میں عجلت سے کام نہ لے ۔ انہیں چھوڑ دے کہ کافی حد تک اتمام حجت ہوجائے اور انہیں رہنے دے تاکہ لوگ مختصر سی آماد گی بھی رکھتے ہوں وہ آخر کار مشرف بہ اسلام ہوجائیں ۔
اصولی طور پر جلد باز وہ ہوتاہے جو فرصتوں کے خود اور مکانات کے ہاتھ سے نکل جانے کا اندیشہ رکھتا ہے اور یہ چیز خدا وند ِ قادر و قاہر کے بارے میں کوئی مفہوم نہیں رکھتی ۔
قابل توجہ یہ کہ فرماتاہے :( فمھل الکافرین) ” کافروں کو مہلت دے -“اور دوبارہ تاکید کرتے ہوئے کہتا ہے ( امھلھم ) ” انہیں مہلت دے “۔
ان میں سے ایک باب تفعیل سے ہے اور دوسرا افعال سے اور اس کی تکرار تاکید کے لئے ہے ، بغیر اس کے کہ لفظ کی تکرار ہو اور اس کے کانوں کو بوجھ محسوس ہو۔
رویداً “ ۔ ”رود“ ( بروزن عود) کے مادہ سے آمد و رفت رکھنے اور کسی کام کو نرمی سے انجام دینے کے معنی میں ہے ۔ یہاں اس کے مصدری معنی مراد ہیں اور تصغیر کا پہلو لئے ہوئے ہیں ، یعنی انہیں تھوڑی سی مہلت دے۔ 3
اس طرح خدا اس مختصر سے جملے میں اپنے پیغمبر کو تین مرتبہ ان سے مدارات کرنے اور انہیں مہلت دینے کی ہدایت کرتا ہے ، یہ تمام مسلمانوں کے لئے نمونہٴ عمل ہے کہ وہ اپنے کاموں میں ، خصوصاً جبکہ ان کا دشمن سے مقا بلہ ہو، اس وقت حوصلہ اور صبر و شکیبائی سے کام لیں اور ہر قسم کی جلد بازی سے پر ہیز کریں۔ کوئی بے محل اقدال نہ کریں اور ہر کام کا منصوبہ بنائیں۔ علاوہ ازیں دین حق کی تبلیغ کی راہ میں ہمیشہ جلد بازی سے پرہیز کریں تاکہ وہ تمام افراد ، جنکی ہدایت کا احتمال موجود ہے ایمان لے آئیں اور باقی تمام افراد کے بارے میں اتمام ِ حجت ہو جائے ۔
یہ بات کہ یہ مہلت کم اور مختصر کیوں شمار کی گئی ہے، اس کی وجہ یاتو یہ ہے کہ اسلام مختصر سی مدت میں دشمنوں کے مقابلہ میں کامیاب ہو گیا تھا اور کافروں کے منصوبے خاک میں مل گئے تھے ۔ انہوں نے پہلی ضرب کا مزہ جنگ بدر میں چکھا ۔ اس کے بعد بہت جلد میدان احزاب و خیبر و حنین وغیرہ میں ان کے ارادے خاک میں ملے۔ پیغمبر کی زندگی کے آخری دنوں میں نور اسلام سارے جزیرة العرب پر چھا گیا اور ایک صدی گذرنے سے پہلے دنیا کے اس دور کے عمدہ اور اہم حصوں پر اس نے اپنا سایہ ڈال دیا ۔ یا پھر اس وجہ سے ہے کہ قیامت کا عذاب بھی نزدیک ہے اور اصولی طور پر جو کچھ قطعی ہووہ نزدیک شمار ہوتاہے ۔
بہر حال یہ سورہ آسمان اور ستاروں کی قسم سے شروع ہوتا ہے اور سازش کرنے والے حقیقت کے دشمن کفار کی تہدیدپر ختم ہوتا ہے ، درمیان میں معاد قیامت کے خوبصورت اور موٴثر دلائل اور انسانون پر نگہبانوں کے تقرر کے بارے میں لطف بیانات ہیں ۔ نیز مومنین کی تشفی و دلداری ہے ۔ یہ تمام عنوانات مختصر عبارتوں کے ساتھ ، جو نہایت ہی لطیف ہے اور مخصوص قسم کی قاطعیت لئے ہوئے ہیں ، بینا ہوئے ہیں ۔
خدا وندا ! دشمنوںکے کید و مکر کا رخ ، جو ہمارے زمانے میں بہت زیادہ ہو گیا ہے ، خود انہی کی طرف کردے اور ان کے منحوس منصوبے نقش بر آب کردے۔
پروردگارا!جس روز اسرار کھل جائیں گے اس روز ہمیں شر مندہ نہ کیجٴو۔
بار الہٰا ! ہم تیرے علاوہ کوئی قوت ، ناصر اور مددگار نہیں رکھتے۔ ہمیں اپنے غیر کے سپرد نہ کیجٴو۔

آمین یا رب العالمین


۱۔ مفردات راغب،مادہ رجع۔
2۔ صحیح ترمذی ، سنن داوٴد مطابق روح المعانی جلد، ۳ ص ۱۰۰، اور تفسیر مراغی، جلد ۳۰ ، ص ۱۸۔
3۔ اس بناپر رویداً یہاں مفعول مطلق کا جانشین ہے اور حقیقت میں ایسا ہے کہ جیسا کہ کہا جائے امھلھم امھالا قلیل ا ور یہ بعض نے احتمال پیش کیا ہے کہ رویداً یہاں امر کے معنی رکھتاہے، اس لئے تین امر پے در پے آئے ہیں، بعید نظر آتا ہے البتہ رویدامر کے معنی میں اور اسم مفعول کی شکل میں بھی ا ٓیاہے لیکن زیر بحث آیت سے مناسب اور اس لفظ کے منصوب ہونے کے ساتھ موزوں یہی ہے کہ مفعول مطلق ہو ۔
اے انسان دیکھ کہ تو کس چیز سے پید اہو اہے  سورہ اعلیٰ
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma