۱۔ مصائب و آرام کے درمیان سے مبعوث ہونے والا پیغمبر

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونه جلد 27
ان تمام نعمتوں کے شکرانے میں جو خدا نے تجھے دی ہیں ۲۔ یتیموں پر نوازش و شفقت

اوپر والی آیات جو پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر خد اکی نعمتوں کی تشریح و تفصیل کو بیان کرتی ہیں ، ضمنی طور پر اس نکتہ کوبھی بیان کرتی ہیں کہ آپ بچپن کے آغاز سے ہی یتیم تھے، مادی لحاظ سے سخت و شدید حالات میں زندگی بسر کررہے تھے، مصائب و آلام میں گھرے ہوئے تھے اور انہیں مصائب میں مبعوث ہوئے تھے اور یسا ہی ہونا چاہئیے۔
ایک دائی اور انسانی رہبر کو زندگی کی تلخیوں کو چکھنا ، پریشانیوں کو ذاتی طور پر لمس کرنا ، اور اپنے سارے وجود کے ساتھ تلخیوں کا احساس کرنا چاہئیے، تاکہ معاشرے کے محروم طبقات کی صحیح طور پر قدر کرسکے، اور ایسے لوگوں کے حالات سے جو مصائب و آلام میں مبتلا ہیں باخبر ہو سکے۔
پھر بچپن میں ہی باپ ( کی شفقت ) سے محروم ہوجائے، تاکہ اپنے یتیم بچوں کو مصیبت سے باخبرکرہے، دن اس کے بھوک میں گزریں اور راتوں کو بھوکا سوئے تاکہ بھوکوں کو درد اور تکلیف کو اپنے سارے وجود کے ساتھ محسوس کرے۔
یہی وجہ ہے کہ جب آپ کسی یتیم کو دیکھتے تھے تو آپ کی آنکھوں سے آنسوں جاری ہو جاتے تھے ۔ اسے اپنی گود میں بٹھاتے تھے، اس سے نوازش وشفقت کرتے تھے ، اور جان شریں کی طرح اپنی آغوش میں لے لیتے تھے۔
اورپھر اس نے معاشرے کے تمدن میں فقر کو اچھی طرح سے درک کیاہو، تاکہ جو لوگ علم و دانش کے حصول کے لئے اس کی خد مت میں آئیں ان کا احترام کرے، اور کھلی آغوش کے ساتھ ان کی پذیرائی کرے۔
نہ صرف پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بلکہ شاید تمام انبیاء مصائب اور محرومیوں کے پرور دہ تھے ، اور نہ صرف انبیاء بلکہ تمام سچے اور موفق رہبر ایسے ہی ہوئے ہیں اور انہیں ایسا ہی ہونا چاہیئے۔
جس شخص نے ناز و نعمت کے درمیان پرورش پائی ہو، شان و شوکت والے محلوں میں زندگی بسر کی ہو ، اس نے جب بھی کوئی خواہش کی ہو وہ پوری ہو گئی ہو، وہ محروم لوگوں کے درد و تکلیف کو کس طرح سے درک کرسکتا ہے، اور فقراء و مساکین کے کاشانوں اور یتیموں کے گھروں کا منظر اس کی نظروں میں کیسے مجسم ہو سکتا ہے اور وہ ان کی کمک اور مدد کے لئے بے تابی کے ساتھ کیسے آگے بڑھ سکتا ہے؟!
ایک حدیث میں امام صادق علیہ السلام سے آیا ہے :
ما بعث اللہ نبیاً قط حتی یسترعیہ الغنم یعلمہ بذالک رعیة الناس
”خد انے ہر گز کسی نبی کو مبعوث نہیں کیا جبکہ اس سے بھیڑ بکریوں کی چوپانی کا کام نہیں کرایا ، تاکہ وہ اس طریقہ سے انسانوں کی نگہبانی کا طریقہ سیکھ سکیں “۔ ۱
یعنی ایک تو رنج و تکلیف بر داشت کیا ، دوسرے کم شعور افراد سے مقابلہ میں صبر و تحمل کا تجربہ کیااور کوہ و صحرا اور فطرت و مادہ کی آغوش میں توحیدو عرفان کے عظیم سبق حاصل کئے ۔
اور ایک حدیث میں آیاہے ” موسیٰ بن عمرا ن“ نے اپنے خدا سے سوال کیا کہ میں کس بناء پر اس مقام تک پہنچا؟خطاب قدر ت ہوا ، کیاتجھے وہ دن یاد ہے جب گوسفند کا ایک بچہ تیرے گلہ سے بھاگ گیا تھا ؟ پھر تو اس کو دوش پر اٹھا کرگوسفندوں کے گلہ میں واپس لے آیا، میں نے اسی بناء پر تجھے مخلوق کا سر پرست بنا دیا ہے۔ ( ایک جانور کے مقابلہ میں تیرا یہ عجیب و غریب تحمل و حوصلہ ، تیری عظیم روحی قدرت کی دلیل ہے۔ لہٰذا تو اس عظیم مقام کے لائق ہے)۔


 

۱۔” بحار الانوار“ جلد ۱۱ ، ص ۶۴ حدیث ۷۔

ان تمام نعمتوں کے شکرانے میں جو خدا نے تجھے دی ہیں ۲۔ یتیموں پر نوازش و شفقت
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma