یہ سورہ مختصر ہونے کے باجود عظیم حقائق اپنے اندر لئے ہوئے ہے :
۱۔ اس سورہ کے پہلے حصہ میں پر معنی قسموں کے ذکر کے بعد اس حقیقت کی طرف اشارہ ہوا ہے کہ انسان کی زندگی اس عالم میں مشکلات اور تکلیفوں کے ساتھ تواٴم ہوتی ہے ، تاکہ وہ ایک طرف تو اپنے آپ کو مشکلات سے جنگ کرنے کے لئے آمادہ کرے اور دوسری طرف اس دنیا میں راحت و آرام اور مطلق آسودگی توقع اپنے ذہن سے نکال دے ، کیو نکہ مطلق آسودگی و راحت تو صرف آخرت کی زندگی میں ہی ممکن ہے ۔
۲۔ یہ سورہ دوسرے حصہ میں انسان پر اللہ کی کچھ نعمتوں کو شمار کرتا ہے ، اور اس کے بعد ان نعمتوں کے مقابلہ میں اس کی ناشکری اور کفران نعمت کی طرف اشارہ ہے ۔
۳۔ اس سورہ کے آخری حصہ میں لوگوں کو دوگروہوں ” اصحاب میمنہ “ اور ” اصحاب مشئمہ “ میں تقسیم کرتا ہے ، اور پہلے گروہ ( صالح مومنین ) کے صفات ِ اعمال کے ایک گوشہ کو اور پھر ان کی سر زنش کو بیان کرتا ہے ۔ اس کے بعد ان کے نقطہٴ مقابل یعنی کفار و مجرمین اور ان کی سر نوشت کو پیش کرتا ہے ۔
اس سور ہ کی آیات کی تعبیریں بہت ہی قاطع اور دو ٹوک اورچھبھنے والی ہیں ، اس کی جملہ بندیامختصر اور زوردار ہیں الفاظ بہت ہی موثر اور انتہائی فصیح ہیں، آیات کی صورت اور اس کا مضمون اس بات کی نشان دہی کرتا ہے کہ یہ سورہ مکی سورتوں میں سے ہے ۔