اس سورہ کی قراٴت کی فضیلت

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونه جلد 27
 سورہٴ علق کے مطالب اور فضیلتاپنے پروردگار کے نام سے پڑھ

اس سورہ کی قراٴت کی فضیلت کے بارے میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل ہو اہے کہ آپ نے فرمایا:
من قراٴ فی یومہ اولیلتہ اقراٴ باسم ربک ثم مات فی یومہ اولیلتہ مات شہیداً و بعثہ اللہ شہیداً ، وحیاہ کمن ضرب بسیفہ فی سبیل اللہ مع رسول “۔
” جو شخص دن میں یا رات کو سورہٴ اقراء باسم ربک پڑھے گا اور وہ اس رات یا دن میں مر جائے گا تو وہ دنیا سے شہید مرے گا اور خدا اسے شہید مبعوث کرے گا اور شہیدوں کی صف میں اسے جگہ دے گا ، اور وہ قیامت میں اس شخص کی مانند ہو گا جس نے را ہ خدا میں پیغمبر اکرم نورِ مجسم صلی اللہ علہ و آلہ وسلم کی معیت میں شمشیر سے جہاد کیا ہو“۔
یہ سورہ ان مختلف تعبیروں کی مناسبت سے جو اس سورہ کے آغاز میں آئی ہیں سورہ ” علق“ یا سورہ ” اقراٴ“ یاسورہ ” قلم “ کے نام سے موسوم ہواہے ۔ ۱
بسم اللہ الرحمن الرحیم
۱ اِقرا باسم ربک الذی خلق ۔ ۲۔ خلق الانسان من علقٍ ۳۔ اقرا وربک الاکرم ۔
۴۔ الذی علّم بالقلم ۔ ۵۔ علّم الانسان مالم یعلم ۔
ترجمہ شروع اللہ کے نام سے جو رحمن و رحیم ہے
۱۔ پڑھ اپنے پروردگار کے نام سے جس نے جہان کو پیدا کیا۔ ۲۔ وہی جس نے انسان کو جمے ہوئے خون سے پیدا کیا۔
۳۔ پڑھ کہ تیرا پروردگار سب سے زیادہ مکرم و باعزت ہے۔ ۴۔ وہی جس نے قلم کے ذریعے تعلیم دی ۔
۵۔ اور انسان کو وہ سب کو کچھ سکھا دیا جو وہ نہیں جانتا تھا۔
شانَ نزول
جیسا کہ ہم نے سور ہ کے مطالب کی تشریح میں اشارہ کیا ہے کہ اکثر مفسرین کے نظریہ کے مطا بق یہ پہلا سورہ ہے جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پرنازل ہواہے ، بلکہ بعض کے قول کے مطابق تو اوپر والی پانچ آیات سب ہی مفسرین کے نزدیک آغاز وحی میںہی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوئی تھیں اور ان کامضمون بھی اس معنی کی تاکید کرتاہے ۔
روایات میں آیاہے کہ پیغمبر کوہِ حرا پر گئے ہوئے تھے کہ جبرئیل آئے اور کہا: اے محمد پڑھو: پیغمبرصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔
جبرئیل نے انہیں آغوش میں لے کر دبایااور پھر دوبارہ کہا:
اقراٴ باسم ربک الذی خلق پانچون آیات کے آخر تک ۔
جبرئیل یہ بات کہہ کرپیغمبرصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نظروں سے غائب ہوگئے۔ رسول خدا جو وحی کی پہلی شعاع کو حاصل کرنے کے بعد بہت تھکے ہوئے تھے خدیجہ کے پاس آئے اور فرمایا:” زملونی و دثرونی“: مجھے اڑھا دو اور کوئی کپڑا میرے اوپر ڈال دو تاکہ میں آرام کروں۔ 2
”طبرسی“ بھی مجمع البیان میں یہ نقل کرتے ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خدیجہ سے فرمایا:” جب میں تنہا ہوتا ہوں تو ایک آوازسن کرپریشان ہو جاتا ہوں “۔
حضرت خدیجہ نے عرض کیا : خدا آپ کے بارے میں خیر او ربھلائی کے سوا کچھ نہیں کرے گا کیونکہ خدا کی قسم آپ امانت کو ادا کرتے ہیں اور صلہٴ رحم بجالاتے ہیں ، اور جو بات کرتے ہیں اس میں سچ بولتے ہیں ۔
”خدیجہ“ کہتی ہیں: اس واقعہ کے بعد ورقہ بن نوفل کے پاس گئے، ( نوفل خدیجہ کا چچا زاد بھائی اور عرب کے علماء میں سے تھا)۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جو کچھ دیکھا تھا وہ ” ورقہ“ سے بیان کیا۔” ورقہ“ نے کہا: جس وقت وہ پکارنے والا آپ کے پاس آئے تو غور سے سنو کہ وہ کیا کہتا ہے َ اس کے بعد مجھ سے بیان کرنا۔
پیغبراکرم  نے اپنی خلوت گاہ میں سنا کہ وہ کہہ رہا ہے: ” اے محمد  کہو: بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمدللہ رب العالمین الرحمن الرحیم مالک یوم الدین ایاک نعبد و ایاک نستعین اھدنا الصراط المستقیم صراط الذین انعمت علیہم غیر المغضوب علیھم و لاالضّالین ۔
اور کہو لاالہ الا اللہ ، اس کے بعدآپ ورقہ کے پاس آئے اور اس ماجرے کو بیان کیا ۔
”ورقہ“ نے کہا: آپ کو بشارت ہو، پھر بھی آپ کو بشارت ہو۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ وہی ہیں جن کی عیسیٰ بن مریم  نے بشارت دی ہے ، آپ موسیٰ علیہ السلام کی طرح صاحبِ شریعت ہیں اور پیغمبر مرسل( صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) ہیں ۔
آج کے بعد بہت جلد جہاد کے لیے مامور ہوں گے اور اگر میں اس دن تک زندہ رہا تو میں آپ کے ساتھ ہوکر جہاد کروں گا“!
جب ” ورقہ“ دنیا سے رخصت ہوگیا تو رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
” میں نے اس روحانی شخص کو بہشت ( برزخی جنت)میں دیکھا ہے کہ وہ جسم پر ریشمی لباس پہنے ہوئے تھا کیونکہ وہ مجھ پر ایمان لایا تھا اور میری تصدیق کی تھی “۔ 3
یقینی طور پر مفسرین کے بعض کلمات یا تاریخ کی کتابوں میں پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زندگی کی اس فصل کے بارے میں ایسے ناموزوں مطالب نظر آتے ہیں جو مسلمہ طور پر جعلی ، وضعی، گھڑی ہوئی روایات اور اسرائیلات سے ہیں ، مثلاً یہ کہ پیغمبر نزول وحی کے پہلے واقعہ کے بعد بہت ہی ناراحت ہوئے اور ڈرگئے کہ کہیں یہ شیطانی القاب نہ ہوں ، یاآپ نے کئی مرتبہ اس بات کا پختہ ارادہ کرلیا کہ خود کو پہاڑسے گرادیں، اور اسی قسم کے فضول اور بے ہودہ باتیں جو نہ تو نبوت کے بلند مقام کے ساتھ ساز گار ہیں اور نہ ہی پیغمبر کی اس عقل اور حد سے زیادہ دانش مندی، مدبریت، صبر و تحمل و شکیبائی، نفس پر تسلط اور اس اعتماد کو ظاہر کرتی ہیں جو جو تاریخوں میں ثبت ہے ۔
ایسادکھائی دیتا ہے کہ اس قسم کی ضعیف ورکیک روایت دشمنان ِ اسلام کی ساختہ و پرداختہ ہیںجن کامقصدیہ تھا کہ اسلام کو بھی موردِ اعتراض قرادے دیں اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذاتِ گرامی کو بھی۔ جو کچھ بیان کیا گیا ہے اس کی طرف توجہ کرتے ہوئے آیات کی تفسیرپیش کرتے ہیں ۔


 

۱۔ ” تفسیر بر ہان “ جلد ۴ ص ۴۷۸۔
2۔ ” ابو الفتوح رازی“ جلد۱۲ ص۹۶، ( تھوڑی تلخیص کے ساتھ ، اسی مطلب کو بہت سے مفسرین عامہ و خاصہ نے بہت سے شاخ و برگ اور پھول بوٹے لگاکر نقل کیاہے، جن میں سے بعض بالکل قابلِ قبول نہیں ہے )۔
3۔ ” تفسیر مجمع البیان“ جلد۱۰ ص ۵۱۴۔

 سورہٴ علق کے مطالب اور فضیلتاپنے پروردگار کے نام سے پڑھ
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma