اوپر والی آیات کے مجموعہ سے واضح ہوجاتا ہے کہ پیغمبر کے پاس جو کچھ بھی ہے وہ خدا کی جانب سے ہے، یہاں تک کہ نزول وحی میں بھی آپ اپنی طرف سے کوئی اختیار نہیں رکھتے، جس وقت خدا چاہے وحی کو منقطع کردے، اور جس وقت چاہے بر قرار کردے اور شاید انقطاعِ وحی بھی اسی مقصد کے لئے تھا، تاکہ ان لوگوں کا جواب ہو جو پیغمبرِ اکرم صلی علیہ و آلہ وسلم سے اپنے من مانے اور اپنے میلان کے مطابق معجزوں کا تقاضا کرتے تھے ، یا آپ سے فرمائش کرتے تھے کہ فلاں حکم فلاں آیت کو بدل دیجئے، اور آ پ ان سے یہ فرماتے کہ میں ان امور میں اپنی طرف سے کوئی اختیار نہیں رکھتا ، ( جیسا کہ سورہٴ یونس کی آیہ۱۵ میں آیاہے )۔
۶۔ الم یجد ک یتیماً فاٰوٰی۔ ۷۔ ووجدک ضآلاًّ فھدٰی۔ ۸۔ ووجدک عآئلاً فاغنٰی۔
۹۔ فاما الیتیم فلا تقھر۔ ۱۰۔ و اما السآئِل فلا تنھر۔ ۱۱۔ و اما بنعمةِ ربک فحدِّث۔
ترجمہ
۱۔ کیا تجھے یتیم نہیں پایا تو پھر پناہ دی؟ ۷۔ اور تجھے گمشدہ پایاتو راہنمائی کی ۔ ۸۔اور تجھے فقیر پایا تو بے نیاز کیا۔
۹۔ اب جب کہ یہ بات ہے تو یتیم کو حقیر نہ سمجھ۔ ۱۰۔ اور سوال کرنے والے کو نہ دھتکار۔ ۱۱۔ اور اپنے پروردگار کی نعمتوں کو یاد کر۔