وہ حکم جو اس سلسلہ میں اوپر والی آیات میں بیان ہوا ہے، اگر وہ خد اکے شکر و سپاس کے عنوان سے ہو، اور خود کو بڑا کر کے دکھانے اور فخر کے عنوان سے نہ ہو، تو وہ نہ صرف انسان کو پر وردگار کے مقامِ عبودیت میں تکامل و ارتقاء بخشا ہے اور اجتماعی مثبت اثرات رکھتا ہے ، بلکہ انسان کی روح و جان میں بھی آرام بخش اثر چھوڑتا ہے ۔
خد اکی نعمتوں کے ذکر کرنے سے انسان اپنے پاس کسی چیز کے کم ہونے کا احساس ہی نہیں کرتا، بیماری کا شکوہ نہ کرنے سے دوسرے اعضاء کی سلامتی پر شکر گزار ہوتا ہے، کسی چیز کے کھوئے جانے پر جزع و فزع نہ کرنے سے وہ اپنے باقی امکانات و وسائل کو بیان کرتا ہے ۔
اس قسم کے افراد زندگی کی سختیوں اور طوفان میں یاس و نامیدی میں گرفتار نہیں ہوتے اور نہ ہی مضطرب و پرشان ہو تے ہیں۔ ان کی روح سکون و آرام میں ، اور دل مطمئن ہوتا ہے۔ اور مشکلات سے مقابلہ کرنے میں ان میں زیادہ توانائی ہوتی ہے ۔
خدا وندا ! تیری نعمتیں اس سے کہیں زیادہ ہیں کہ انہیں بیان کیاجاسکے ، ان کو ہم سے سلب نہ کرنا ، اور اپنے فضل و کرم سے ان میں اضافہ فرمانا۔
پروردگار ا ! ہم اس دنیا میں تیرے احسان میں غرق ہیں اور یہ توقع رکھتے ہیں کہ اس جہاں میں بھی اسی طرح ہوں ۔
بارالٰہا ! ہمیں توفیق مرحمت فرما کہ ہم ہمیشہ محروم لوگوں کے پشتیبان اور یتیموں کے حقوق کے محافظ ہوں ۔
آمین یا رب العالمین