اس دن بیدار ہوں گے کہ جب پانی سر سے اونچا ہو چکا ہو گا ۔

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونه جلد 27
نہ اس کی نعمت کے ملنے پر غرور کرو او رنہ سلب نعمت پر مایوس ہو اے صاحب نفس مطمئنہ!

ان مذمتوں کے بعد جو گزشتہ آیات میں سر کشی کرنے والوں ، دنیا پرستوں اور دوسروں کے حقوق پر ہاتھ صاف کرنے والوں کی ہوئی تھیں ، ان آیات میں انہیں خطرے سے آگاہ کرتا ہے کہ آخر کار قیامت آنے والی ہے اور حساب و کتاب اور جزا و سزا کا مرحلہ در پیش ہے ۔ ضروری ہے کہ آ پ خود کو اس کے لئے تیار کریں۔ پہلے فرماتا ہے :
ایسا نہیں ہے جیسا وہ گمان کرتے ہیں ( حساب و کتاب نہیں ہے اور اگر خدا نے انہیں مال دیا ہے تو ان کے احترام و اکرام کی وجہ سے دیاہے ، نہ کہ آزمائش و امتحان کے لئے ( کلّا) ۔
جس وقت زمین کوٹ کوٹ کرریزہ ریزہ کردی جائے گی ( اذا دکت الارض دکا ً دکاً) دک اصل میں نرم و صاف زمین کے معنی میں ہے ۔ پھر اونچی جگہ اور عمارتوں کے لئے کوٹنے اور ریزہ ریزہ کرنے اور صاف کرنے پر اطلاق ہواہے ۔ ” دکان“ اس جگہ کو کہتے ہیں جو صاف اور نشیب و فراز کے بغیر ہو۔ ” دکہ“ (چبوترا ) اس اونچی جگہ کو کہتے ہیں جسے بیٹھنے کے لئے صاف اور تیار کرتے ہیں ۔ ” دک “ کی تکرار مندرجہ بالا آیت میں تاکید کے لئے ہے ۔
مجمو عی طور پر یہ تاکید دنیا کے اختتام اور قیامت کے آغاز کے زلزلوں اور جھنجوڑ دینے والے حوادث کی طرف اشارہ ہے ۔ موجودات میں اس قسم کا تزلزل
رونما ہوگا کہ پہاڑ ریزہ ریزہ اور زمینیں ہموار ہو جائیں گی ، جیسا کہ سورہ طٰہٰ کی آیت ۱۰۵ سے ۱۰۷ تک آیاہے :
( و یسئلونک عن الجبال فقل ینسفھا ربی نسفاً فیذرھا قاعاً صفصفاً لاتریٰ فیھا عوجاً ولا امتاً)
تجھ سے پہاڑوں کے بارے میں سوال کرتے ہیں ، کہہ دے میرا پر وردگار انہیں بر باد کردے گا اور اس کے بعد زمین کو صاف و ہموار اور بے آب و گیاہ کردے گا ، اس طرح کہ تو اس میں کسی طرح کا نشیب و فراز نہیں دیکھے گا۔
قیامت کے پہلے مرحلہ کے اختتام ، یعنی اس جہاں کی ویرانی کے بعد ، دوسرا مرحلہ شروع ہوگا ۔ سارے انسان زندہ ہو جائیں گے اور عدالت الہٰی میں ظاہر ہوں گے ۔ اس وقت تیرے پروردگار کا فرمان آن پہنچے گا۔ فرشتے صف در صف حاضر ہو ںگے ( و جاء ربک و الملک صفاً صفاً) ۔ محشر میں موجود لوگوںکا محاصرہ کرلیں اور فرمانِ حق کے اجراء کے لئے آمادہ ہوں گے ۔
یہ تصویر کشی اس عظیم دن کی عظمت اور عدالت کے چنگل سے انسان کے فرار کرنے کی توانائی نہ ہونے کی ہے ۔
جاء ربک ) ” تیرا پر وردگار آئے گا “ کی تعبیر اس حقیقت کا کنایہ ہے کہ مخلوقات کے حساب و کتاب کا فرمان پہنچے گا ۔ یا پھر خدا کی عظمت کی علامتوں کا ظہور مراد ہے ، یا پر وردگار کے ظہور سے مراد اس دن اس کی معرفت کا ظہور ہے ، اس طرح سے کہ کسی شخص کےلئے انکار کی گنجائش باقی نہیں رہے گی ۔ گویا سب لوگ اپنی آنکھوں سے اس کی ذاتِ بے مثال کے جمال کامشاہدہ کریں گے۔ بہر حال مسلم ہے کہ خدا کا آنا ، اس لفظ کے حقیقی معنی جن کا لازمہ جسم ہے اور کسی مکان میں منتقل ہونا ہے ، کوئی امکان نہیں رکھتے اور وہ مراد نہیں رہی اس لئے کہ خدا جسم اور خواصِ جسم سے مبراہے ۔ ۱
یہی مفہوم بڑی صراحت کے ساتھ ایک حدیث میں امام علی بن موسیٰ رضا سے منقول ہے ۔ ۲
اس تفسیر کی شاہد سورہ نحل کی آیت ۳۳ ہے جس میں فرماتا ہے :
( ھل ینظرون الاَّ تاٴتیھم الملائکة اٴو یاٴتی امر ربک)کیاوہ اس کے علاوہ توقع رکھتے ہیں کہ فرشتے ان کے پاس آئیں یا تیرے پر وردگار کا امر آن پہنچے ؟ صفاً صفا کی تعبیر اس طرف اشارہ ہے کہ ملائکہ محشر میں مختلف صفوں میں وارد ہوں گے ۔ احتما ل ہے کہ ہر آسمان کے فرشتے ایک الگ صف میں حاضر ہوں گے اور اہل محشر کے گرد گھیرا ڈال دیں گے اس کے بعد فرماتاہے :
” اوراس دن جہنم کو لے آئیں گے ، اس دن انسان متذکرہوگا لیکن اس کو اس کا کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا“
( وجیء یومئذ بجھنم یومئذیتذکر الانسان و انّی لہ الذکریٰ )۔ اس تعبیر سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جہنم جلانے کے قابل ہے اور اسے لاکر مجرموںکے قریب کردیا جائے گا، جیسا کہ جنت کے بارے میں بھی سورہ شعراء کی آیت ۹۰ میںہم پڑھتے ہیں ( و ازلفت الجنة للمتقین) جنت پرہیزگاروں کے نزدیک کردی جائے گی ۔
اگر مفسرین مائل ہیں کہ ان الفاظ کو مجازی معنوں پر محمول کریں اور جنت و جہنم کے نیکو کاروں اور بد کاروں کے سامنے ظہور کا کنایہ سمجھیں ، لیکن اس خلاف ظاہر کے لئے ہمارے پاس کوئی دیل نہیں ہے ۔ بلکہ بہتر ہے کہ انہیں اس کے ظاہر پر چھوڑ دیا جائے، اس لئے کہ عرصہٴ محشر کی حقیقتیں ہم پرمکمل طور پر واضح نہیں ہیں اوروہاں کے حالات ہماری دنیا کے حالات سے بہت مختلف ہیں ۔ پھر اس کا کوئی مانع نہیں ہے کہ اس روز دوزخ و جنت کو اسن کی جگہ سے ہٹائیں گے ۔
ایک حدیث میں پیغمبر اسلام  سے ہمیں ملتا ہے کہ جس وقت مندرجہ بالا آیت ( ( وجیء یومئذ بجھنم )نازل ہوئی تو آپ کے چہرہ مبارک کا
رنگ متغیر ہوگیا ۔ یہ حالت اصحاب پر گراں گزری ۔ وہ حضرت علی علیہ السلام کے پاس آئے اور ماجرا بیان کیا۔ حضرت علی علیہ السلام آئے اور پیغمبر اسلام کے دونوں شانوںکے دمیان بوسہ دیا اور کہا:
” اے خدا کے رسول ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہو جائیں ۔ کیا حادثہ رونما ہواہے “؟
آپ نے فرمایا!” جبرائیل آئے تھے اور یہ آیت تلاوت کی ہے “۔
حضرت علی علیہ السلام کہتے ہیں :” میں نے عرض کیا کس طرح جہنم کو لے آئیں گے “؟
فرمایا: ” ستر ہزار فرشتے ستر ہزار مہاروں کے ذریعہ اسے کھینچ کر لائیں گے او روہ سر کشی کی حالت میں ہوگی ۔ اگر اس کو چھوڑ دیں تو وہ سب کو آگ لگادے گی ، پھر میں جہنم کے سامنے کھڑا ہو جاوٴں گا اور وہ کہے گی : اے محمد مجھے آپ سے کو ئی سر و کار نہیں ہے ۔ خدا نے آپ کا جسم مجھ پر حرام کیا ہے “۔
اس دن ہر شخص اپنی فکر میں ہوگا لیکن جناب سید المرسلین کہیں گے :” رب امتی رب امتی “( پروردگار میری امت ، میری امت، )۔ ۳
جی ہاں ! جب مجرم انسان ان مناظر کو کو دیکھے گا تو ہل جائے گا اور غم و اندوہ میں ڈوب جائے گا ، اپنے ماضی پر نگاہ ڈالے گا اور اپنے اعمال سے سخت پشیمان ہوگا ،لیکن یہ پشیمانی اس کو کوئی فائدہ نہ دے گی ، انسان آرزو کرے گا کہ واپس پلٹ جائے اور اپنے تاریک ماضی کی تلافی کرے ، لیکن واپسی کے در وازے بالکل بند ہوں گے وہ چاہے گا کہ توبہ کرے لیکن توبہ کا زمانہ ختم ہو گیا ہوگا وہ چاہے گا کہ اعمال صالح بجالائے تاکہ اپنے برے اعمال کی تلافی کر سکے ، لیکن اعمال کا دفتر بند ہو چکا ہو گا ، یہ وہ مقام ہے جہاں اس کی فریاد بلند ہو گی او روہ کہے گا :” اے کاش ! میں نے اپنی زندگی کے لئے اعمال ِ صالح بھیجے ہوتے “ (یقول یا لیتنی قدمت لحیاتی ) ۔
قابل توجہ یہ ہے کہ یہ نہیں کہے گا کہ اپنی آخرت کی زندگی کے لئے ، بلکہ کہے گا اپنی زندگی کے لئے ، گو یازندگی کا لفظ آخرت کی زندگی کے علاوہ کسی اور زندگی کے لئے موزوں نہیں ہے ، اور جلدی گزرنے والی ، انواع و اقسام کے مصائب کی آمیزش رکھنے والی دنیا وی زندگی شمار ہی نہیں ہوتی ۔ جیسا کہ سورہ عنکبوت کی آیت ۶۴ میں ہم پڑھتے ہیں ( وما ھٰذا الحیوة الدنیا لھو لعب و انّ الدار الاٰخرة لھی الحیوان لوکانوا یعلمون ) ” یہ دنیا کی زندگی کھیل کود اور لہو لعب کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے اور حقیقی زندگی آخرت کی زندگی ہے اگر تم جانتے ہو“۔
جی ہاں ! وہ لوگ جنہوں نے یتیموں کامال کھایا ، بھوکوں کے منہ لقمہ نہیں دیا ، ان کا مال و میراث غارت کیا اور مال ِ دنیا کی محبت نے ان کے دل کو مسخر کر رکھا تھا، وہ اس دن آرزو کریں گے کہ کاش کو ئی چیز آخرت کی زندگی کے لئے ، جو حقیقی اور جاودان زندگی ہے ، ہم نے آگے بھیجی ہوئی ، لیکن یہ آرزو بے نتیجہ ہو گی ۔
اس کے بعد دو مختصر جملوں میں ا س دن کے عذاب کے شدت کی تشریح کرتے ہوئے فرماتاہے : ” اس دن خدا اس قسم کی سزا دے گا کہ اس جیسی سزا کوئی بھی نہیں دے سکے گا “ ( فیو مئذٍ لایعذب عذابہ احد) ۔
جی ہاں! یہ سرکش جو اپنی قوت کے وقت بد ترین جرائم اور گناہوں کے مرتکب ہوئے ہیں ، اس دن ان کو اس قسم کی سزا ملے گی جو اس سے پہلے کسی کو نہیں ملی ہوگی ، جیسا کہ نیکو کار اس قسم کی جز ا پائیں گے جو کسی کے خیال و گمان میں بھی نہیں گزری ہوگی ، اس لئے کہ خدا ارحم الراحمین بھی ہے اور اشد العاقبین بھی ۔ نیز اس دن کوئی بھی خدا کی طرح کسی کو قیدو بند کی سزا نہیں دے گا ۔
( ولا یوثق وثاقہ احد)۔نہ اس کی قید بند و زنجیر کی کوئی مثال ہے ، نہ اس کے عذاب کی کو ئی مثل و نظیر ہے ۔ ایسا کیوں نہ ہو جبکہ انہوں نے اس دنیا میں خدا کے مظلوم بندوں کو جتنا ان سے ممکن تھا قید و بند میں رکھا اور ان کو سخت تکالیف پہچائیں ۔
۲۷۔ یا ایتھا النفس المطمئنة ۔ ۲۸۔ ارجعیٓ اِلیٰ ربک راضیةً مرضیةً۔
۲۹۔ فادخلی فی عبادی ۔ ۳۰۔ و ادخُلی جنّتی۔
تر جمہ
۲۷۔ تو اے سکون و اطمینان یافتہ نفس ۔
۲۸۔ اپنے پروردگار کی طرف پلٹ جا ، اس حالت میں کہ تو بھی اس سے راضی ہے اور وہ بھی تجھ سے راضی ہے ۔
۲۹۔ اور میرے بندوں کی صف میں داخل ہو جا ۔ ۳۰ ۔ اور میری جنت میں واردہو جا ۔


 

۱۔ فخر رازی اپنی تفسیر میں کہتا ہے کہ آیت میں کچھ محذوف ہو سکتا ہے کہ لفظ امر یا قہر جلائل آیات یا ظہور معرفت ہو۔ دوسرے مفسرین نے بھی ان چار الفاظ میں سے خصوصاً پہلے لفظ کو تقدیر آیت کے عنوان سے بیان کیا ہے ۔
۲۔ تفسیر المیزان ، جلد ۲۰ ص ۴۱۶۔
۳۔مجمع البیان ، جلد، ۱۰ ،ص ۴۸۳۔ ان معنی کے قریب نیز تفسیر در المنثور میں آیا ہے ، المیزان کی نقل کے مطابق جلد،۲۰، ص ۴۱۵۔


 

 

نہ اس کی نعمت کے ملنے پر غرور کرو او رنہ سلب نعمت پر مایوس ہو اے صاحب نفس مطمئنہ!
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma