سجدہ کر اور تقرب حاصل کر!

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونه جلد 27
عالم ہستی محضر خدا میں ہے سر کشی اوربے نیازی کا احساس

اس بحث کے بعد ، جو گشتہ آیات میں کافر سرکشوں ، اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور نماز گزاروں کے لیے ان کی مزاحمت کے بارے میں آئی تھی۔ ان آیات میں ان پر سخت دھمکیوں کی بارش کرتے ہوئے فرماتا ہے ،” جیسا کہ وہ خیال کرتا ہے ایسا نہیں ہے ( وہ گمان کرتا ہے کہ وہ پیغمبر  کی گردن پر ان کے سجدہ کے وقت پاوٴں رکھ سکتا ہے ، اور انہیں اس عبادتِ خدا سے روک سکتا ہے “)۔ ( کلّا)۔
” اگر وہ اپنے اس غرور اور جہالت سے دستبردار نہ ہوگا تو ہم اس کے سر کے اگلے حصہ کے بالوں کو پکڑ کر اسے عذاب کی طرف کھینچ لے جائیں گے“۔ ( لئن لم ینتہ لنسفعاً بالناصیة
وہی دروغ گو اور خطا کار کے سر کا اگلا حصہ ( پیشانی) “( ناصیة کاذبة خاطئة
” لنسفعاً“ سفع“( بروزن عفو) کے مادہ سے بعض مفسرین کے قول کے مطابق مختلف معنی رکھتا ہے : پکڑنا، اور سختی کے ساتھ کھینچنا، منہ پر طمانچہ مارنا ، منہ کو کالاکرنا( ان تین پتھر وں کو بھی ، جو دیگ کو آگ پر رکھتے وقت دیگ کے پایے کے طور پر استعمال ہوتے ہیں ، سفع کہاجاتا ہے کیونکہ وہ سیاہ اور دھوئیں سے آلودہ ہوتے ہیں)۔ اور آخری بات نشان زدہ کرنے اور ذلیل کرنے کے لیے آیاہے۔ ۱
اور یہاں سب سے زیادہ مناسب وہی پہلا معنی ہے۔ اگر زیر بحث آیت میں دوسرے معانی کا احتمال بھی ہے ۔
بہر حال کیا اس سے مراد ہے کہ یہ ماجراقیامت میں واقع ہوگاکہ ابو جہل جیسے افراد کے سر کے اگلے حصہ کے بالوں کو پکڑیں گے اور جہنم کی طرف کھینچ کر جائیں گے ، یا دنیا میں پورا ہوجائے گا، یا دونوں باتیں ہوں گی؟ یہ بات بعید نہیں ہے کہ دونوں ہی مراد ہوں، اوراور اس کا گواہ ذیل کی روایت ہے ۔
ایک رویت میں آیاہے :
”جس وقت سورہ رحمن نازل ہواتو پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے اصحاب سے فرمایا:
” تم میں سے کون ہے؟ جو اس سورہ کو روٴسائے قریش کے سامنے جاکر پڑھے“۔
حاضرین کچھ دیر کے لیے خاموش رہے چونکہ وہ سردارانِ قریش کی ایذا رسانی سے ڈرتے تھے ۔
” عبد اللہ بن مسعود“ کھڑے ہوگئے اور کہا: اے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ! میں یہ کام کروںگ ابن مسعود ۻ چھوٹے سے جثہ کے تھے اور جسمانی لحاظ سے کمزور بھی تھے، کھڑے ہو کر سردارانِ قریش کے پاس پہنچ گئے۔ انہیں دیکھا کہ وہ کعبہ کے ارد گردبیٹھے ہیں، لہٰذا( ابن مسعود نے ) سورہ رحمن کی تلاوت شروع کردی۔
” ابو جہل“ نے کھڑے ہوکر ابنِ مسعودۻ کے منہ پر ایسا تھپڑ مارا کہ ان کا کان پھٹ گیا اور خون جاری ہوگیا ۔
ابن مسعودۻ روتے ہوئے پیغمبر کی خدمت میں حاضرہوئے، جب پیغمبر کی نگاہ ان پر پڑی تو آپ کو دکھ ہوا ۔ آپ نے سر نیچے کرلیا اور گہرے غم و اندوہ میں ڈوب گئے ۔
اچانک جبرئیل نازل ہوئے جب کہ وہ خندان و مسرو رہے تھے ، آپ نے فرمایا: اے جبرئیل تم کس لیے ہنس رہے ہو جب کہ ابن مسعود رو رہا ہے ؟ ( جبرئیل نے ) عرض کیا عنقریب آپ کواس کی وجہ معلوم ہو جائے گی۔
یہ۰ ماجرا گزر گیا ۔ جب مسلمان جنگ بدر کے دن کامیاب و کامران ہوئے تو ابن مسعود مشرکین کے مقتولین کے درمیان گر دش کررہے تھے، ان کی نظر ابو جہل پر پڑی کہ وہ آخری سانس لے رہا تھا ، ابن مسعود اس کے سینہ پر سوار ہوگئے، جب اس کی نگاہ ان پر پڑی تو کہا : اے حقیر چر واہے تو کتنے بلند مقام پر چڑھ کر بیٹھ گیا۔ ابن مسعودنے کہا : الاسلام یعلو و لایعلیٰ علیہ : ” اسلام برتری حاصل کرے گا اور کسی چیز کو اسلام پر برتری حاصل نہیں ہوگی“۔
ابو جہل نے ان سے کہا اپنے دوست محمد ( صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) سے کہہ دے :نہ تو زندگی میں کوئی شخص میری نظر میں اس سے زیادہ مبغوض تھا اور نہ ہی موت کی حالت میں ۔
جب یہ بات پیغمبر  کے کانوں تک پہنچی تو آپ نے فرمایا :
”میرے زمانے کا فرعون موسیٰ  کے زمانے کے فرعون سے بد تر ہے ۔ کیونکہ اس نے تو اپنی عمر کے آخری لمحات میں یہ کہا تھا: میں ایمان لے آیا ہوں ، لیکن اس کی سر کشی اور بھی بڑھ گئی ہے “۔
اس کے بعد ابو جہل نے ابن مسعودۻ کی طرف رخ کر کے کہا: میر اسراس تلوار سے قطع کر جو زیادہ تیز ہے ۔ جب ابن مسعود نے اس کا سرقلم کیا تو وہ اس کو اٹھاکر پیغمبر  کی خدمت میں نہ لاسکے۔ ( لہٰذا اس کے سر کے بالوں کو پکڑ کر زمین پرکھینچتے ہوئے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں پہنچے اور آیت کا مضمون اس دنیا میں پورا ہوگیا )۔ 2
” ناصبہ“ سر کے اگلے حصہ کے بالوں کو کہتے ہیں۔ اور ان بالوں کو پکڑنا ایسی جگہ بولا جاتا ہے جب کسی شخص کو کسی کام کے لئے ذلت وخواری کے ساتھ لے جائیں ، کیونکہ جب کسی کے سر کے اگلے حصہ کے بالوں کو پکڑ تے ہیں تو اس سے ہر قسم کی حرکت کی قدرت سلب ہوجاتی ہے اور اس کے لیے سر تسلیم خم کرنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں رہتا ۔
البتہ لفظ ” ناصبة“ سر کے افراد و اشخاص کے لئے بھی اور نفیس اشیاء کے بارے میں بھی استعمال کیا جاتا ہے جیسا کہ ہم فارسی ( اور اردو) زبان میں ” جمعیت کی پیشانی“ یا” عمارت کی پیشانی“ سے تعبیر کرتے ہیں ۔
” ناصبة کاذبہ خاطئة“ کی تعبیر ایسے شخص کی طرف اشارہ ہے ، جو یہ ناصیہ رکھتا ہے ، جو چھوٹا بھی تھا اور خطا کار بھی ، جیسا کہ ابو جہل تھا۔
ایک روایت میں ابن عباسۻ سے آیا ہے کہ ایک دن ابو جہل رسول خدا کے پاس آیاجب کہ آنحضرت صلی اللہ و آلہ وسلم مقام ابراہیم  کے پاس نماز میں مشغول تھے ، اس نے پکار کر کہا کیا میں نے تجھے اس کام سے منع نہیں کیا تھا؟ حضرت نے اس کو جھڑک کر دھتکار دیا ۔
ابو جہل نے کہا : اے محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) ! تم مجھے جھڑک تے ہو اور مجھے دھتکارتے ہو؟ کیا تمہیں معلوم نہیں ہے کہ اس سر زمین میں میری قوم اورقبیلہ سب سے زیادہ ہے ۔3
اس موقع پر بعد والی آیت نازل ہوئی: یہ جاہل و مغرور اپنی ساری قوم و قبیلہ کو پکار لے اورانہیں مدد کے لیے بلالے ( فلیدع نادیة
” ہم بھی اس مامورین دوزخ کو پکار لیںگے“۔ ( سندع زبانیة
تاکہ اسے معلوم ہو جائے کہ اس بے خبر غافل سے کوئی کام بھی نہیں ہو سکتا۔ اور مامورینِ عذاب کے چنگل میں پر کاہ کی طرح ایک خوفناک طوفان کے درمیان میں ہے ۔
” نادی“ ” ندا“ ( پکار نا) کے مادے سے مجلس عمومی کے معنی میں ہے ، اور بعض اوقات مرکزِ تفریح کو بھی نادی کہا جاتا ہے ، چونکہ وہاں لوگ دوسرے کو پکار تے اور ندا دیتے ہیں ۔
بعض نے یہ کہا ہے کہ یہ” ندا“سے لیا گیا ہے جو بخشش کے معنی میںہے ، کیونکہ وہاں ایک دوسرے کی پذیرائی کرتے ہیں ’ ’دار الندوة“ بھی جو قریش کی مشہور مجلس مشاورت کہی جاتی تھی اسی معنی سے لی گئی ہے ۔
لیکن یہاں” نادی“سے مراد وہ جماعت ہے جو اس مجلس میں جمع ہو تی تھی ۔ یا دوسرے لفظوں میں اس سے وہ قوم و قبیلہ اور دوست مراد ہیں جن کی قوت پر ابو جہل جیسے لوگ اپنے کاموں میں بھروسہ کرتے تھے ۔
” ” زبانیة“ جمع” زبینہ“ (زاء کی زیر کے ساتھ)اصل میں یہ انتظامی مامورین کے معنی میں ہے جو” زبن“ ( بروزن متن) کے مادہ سے دفع کرنے ، ضرب لگانے اور دور کرنے کے معنی میں ، اور یہاں فرشتگان عذاب اور دوزخ کے مامورین کے معنی میں ہے ۔
اس سورہ کی آخری آیت میں جو آیہٴ سجدہ ہے ، فرماتا ہے :” اس طرح نہیں ہے جیسا کہ وہ خیال کرتا ہے او رتیرے سجدہ کے ترک کرنے پر اصرار کرتا ہے ” کلا“
” ہر گز ا س کی اطاعت نہ کر، اپنے پروردگار کی بار گاہ میں سجدہ کر اور اس کا تقرب حاصل کر“ ( لاتطعمہ و اسجد و اقترب
دنیا زمانے کے ابو جہل اس سے کہیں زیادہ حقیر و ناچیز ہیں کہ تجھے سجدہ کرنے سے روک سکیں، یا تیرے دین و آئین کی ترقی میں روڑے اٹکاسکیں اور اس میں کوئی رکاوٹ ڈال سکیں ۔ تو پروردگار پر توکل کرتے ہوئے اس کی عبادت و بندگی اور سجدہ کے ساتھ اس راستہ میں قدم بڑھائے جا، اور ہر روز اپنے اپنے خدا سے نزدیک سے نزدیک تر ہوتا چلا جا۔
ضمنی طور پر اس آیت سے اچھی طرح معلوم ہو جاتا ہے کہ سجدہ انسان کے لئے بار گاہِ خدا کے قرب اور نزدیکی کا باعث ہے ۔ اور اسی لیے ایک حدیث میں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے آیا کہ آپ نے فرمایا:
اقرب مایکون العبد من اللہ اذا کان ساجداً
” بندے کی خدا سے سب سے زیادہ قرب کی حالت اس وقت ہوتی ہے ، جب وہ سجدہ میں ہوتا ہے “۔
البتہ ہمیں معلوم ہے کہ اہل بیت عصمت  کی روایات کے مطابق قرآن مجید میں چار سجدے واجب ہیں ” الم سجدہ“ و ” حٰم سجدہ “ و ” النجم “ اور یہاں ” سورہٴ علق“ میں اور قرآن کے باقی سجدہ مستحب ہیں ۔


 

۱۔ ” فخر رازی“ جلد ۳۲ ص۲۳۔
2 ” تفسیر فخر رازی “ جلد ۳۲ ص ۲۳ ( تلخیص کے ساتھ )۔
3۔” فی ظلال القرآن“ جلد ۱۰ ص ۶۲۴۔

 

عالم ہستی محضر خدا میں ہے سر کشی اوربے نیازی کا احساس
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma