بہشت کی روح پرور نعمتوں کے مناظر

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونه جلد 27
بد نصیب تھکے ماندےاونٹ کی طرف دیکھوجوخود ایک آیت ہے

اس تشریح کے بعد جو گزشتہ آیات میں دوسری دنیا میں مجرموں او ربد کاروں کی حالت اور جہنم کے عذاب کے بارے میں آئی تھی ، ان آیتوں میں نیکو کار مومنین کی حالت کی تشریح اور جنت کی بے نظیر نعمتوں کی توصیف پیش کرتا ہے تاکہ قہر کو مہر سے ملا دے اور انذار کو بشارت سے مربوط کردے ، فرماتا ہے :
” چہرے اس دن پرطراوت اورمسرور ہوں گے “ ( وجوہ یومئذً ناعمة ) بد کاروں کے چہروںکے برعکس ، جن کی طرف گزشتہ آیات میں اشارہ ہواہے کہ وہ ذلت و اندوہ میں غرق ہوں گے ۔
”ناعمة“ نعمت کے مادہ سے یہاں ایسے چہروں کی طرف اشارہ ہے جو نعمت سے سر شار ، ترو تازہ شاداب اور مسرور و نورانی ہوں گے ، جیسا کہ سورہ مطففین کی آیت ۲۴ میں آیاہے کہ جنتیوں کی توصیف میں فرماتا ہے : ( تعرف فی وجوھھم نضرة النعیم ) ” ان کے چہروں میں تجھے طراوت او رنعمت کی شادابی نظر آئے گی“۔ یہ چہرے ایسے نظر آئیں گے کہ وہ اپنی سعی و کوشش سے راضی اور خوش ہوں گے ( لسعیھا راضیة ) دوزخیوں کے برعکس جنہوں نے اپنی سعی و کوشش سے سوائے تھکن اور رنج کے اور کچھ حاصل نہیں کیا ( عاملة ناصبة
بہشتی اپنی سعی و کو شش کو احسن وجہ سے دیکھیں گے اور مکمل طور پر راضی اور خوش ہوں گے ، ایسی سعی و کوشش جولطفِ خدا کے پر توکے سائے میں کبھی کئی گنا، کبھی دس گنا اور کبھی سات سو گنا اور کبھی اس سے بھی زیادہ بڑھ چکی ہو۔ اور کبھی اس سے بے حد و حساب وجزا حاصل کر چکے ہوں گے ( انما فی الصابرون اجرھم بغیر حساب) ( زمر۔۱۰)۔
اس کے بعد اس مفہوم کی شرح پیش کرتاہے اور فرماتا ہے :”وہ بہشت عالی میں قرار پائے ہیں “ ( فی جنة عالیة) لفظ ”عالیة“ ممکن ہے کہ علو ّمکانی کی طرف اشارہ ہو ، یعنی وہ جنت کے عالی طبقات میں ہیں ، یا یہ علو مکانی ہے ۔ مفسرین نے دونوں احتمال تجویز کئے ہیں ، لیکن دوسری تفسیر زیادہ مناسب نظر آتی ہے ، اگر چہ دونوں کے درمیان جمع بھی ممکن ہے ۔
اس کے بعد اس جنت کی ایک اور صفت ، جوروحانی او رمعنوی پہلو رکھتی ہے ، بیان فرماتا ہے : ” وہاں تو کوئی اور لغو اور بیہودہ بات نہیں سنے گا“ ( لایسمع فیھا لاغیة) ۱
نہ ایسی بات جو نفاق کاپہلو لئے ہوئے ہو، نہ عداوت و جنگ و جدال کی ، نہ کینہ پروری اور حسد کی ، نہ جھوٹ نہ تہمت و افترا ، نہ غیبت ،نہ لغوو بے فائدہ ۔ وہ ماحول کیسا آرام دہ ہوگا جو ان فضولیات سے پاک و مبرّا ہو۔
اگر ہم ٹھیک طرح سے غور وفکر کریں تو دنیا میں وہ زندگی کا زیادہ تر حصہ اسی قسم کی باتوں کا سننا ہے جو روح و جان کے سکون اور اجمتاعی نظاموں کو درہم برہم کردیتا ہے ، فتنوں کی آگ بھڑکاتا ہے اور انہیں شعلہ ور کرتا ہے ۔
اس روحانی اور آرام و سکون بخش نعمت کے ذکر کے بعد ، جو جنتیوں کی روح و جان کو لغو و بیہودہ باتیں نہ ہونے کی وجہ سے حاصل ہے ، جنت کی مادی نعمتوں کے ایک حصہ کو پیش کرتے ہوئے فرماتا ہے : ” اس جنت میں چشمے جاری ہیں “( فیھا عین جاریة) اگر چہ عین یہاں نکرہ ہے اور عام طور پر نکرہ ایک فرد کے لئے بھی آتاہے ، لیکن قرآن کی باقی آیات کے قرینہ سے جس کے معنی رکھتا ہے اور مختلف چشموں کے معنی میں ہے ، جیسا کہ سورہ ذاریات کی آیت ۱۵ میں ہے (ان المتقین فی جنات وعیون )پرہیز گار او رمتقی لوگ جنت کے باغات او رچشموں کے درمیان قرار پائے ہیں ۔
بعض مفسرین نے یہ بھی کہاہے جنتیوں کے محلوں میں سے ہرمحل میں ایک چشمہ جاری ہے اور عین کا مفرد ہونا یہاں اس طرف اشارہ کرتا ہے ، ایسا چشمہ جوجنت والوں کی خواہش کے مطابق جس طرف چاہیں گے اسی طرف بہے گا اور جنت والے نہر وغیرہ بنانے کے محتاج نہیں ہوں گے ۔ البتہ کئی چشموں کا ہونا خوبصورتی و زیبائی و طراوت کے اضافہ کے علاوہ یہ فائدہ بھی رکھتا ہے کہ ان میں سے ہر ایک مخصوص مشروب ہو اور جنتیوں کے ذائقہ کو انواع ق اقسام کی شراب ِ طہور سے شیریں و معطر کرتا ہو۔
ان چشموں کے تذکرہ کے بعد جنت کے تخت اور پلنگوں کو موضوع بناکر فرماتاہے :” جنت کے ان باغوں میں بلند اور اونچے تخت او رپلنگ ہوںگے “ (فیھا سر ر مر فوعة ) ” سر ر“ جمع ہے سریرکی ،” سرور“ کے مادہ سے ایسے تحت اور پلنگوں کے معنی میںکہ جن پر مجالس انس و سرور میں بیٹھتے ہیں ۔ 2
ان پلنگوں کابلند ہونا اس بناء پر ہے کہ جنتی اپنے اطراف کے تمام مناظر اور صحن دیکھ سکیں اور ان کے مشاہدہ سے لذت حاصل کریں ۔ ابن عباس کہتے ہیں یہ بلند تخت اور پلنگ اس قسم کے ہیں کہ جس وقت ان کے مالک ان پر بیٹھنے کا ارادہ کریں گے تو وہ تواضع و خضوع کریں گے اور نیچے ہوجائیں گے اور بیٹھنے کے بعد اپنی پہلی حالت پر پلٹ جائیں گے ۔
یہ احتمال بھی ہے کہ ان پلنگوں کی مرفوعة کے لفظ کے ساتھ توصیف ان کے قیمتی ہونے کی طرف اشارہ ہواور، جیسا کہ بعض نے کہا ہے کہ وہ سونے کے ٹکڑوں سے بنے ہوئے ہوں گے اور دُر و یاقوت و زبرجد سے مزیّن ہوں گے ۔ دونوں تفسیروں کے مابین جمع بھی ممکن ہے ۔
چونکہ ان خوشگوار چشموں اور جنت کی شراب طہور سے فائدہ اٹھانا بر تنوں کی احتیاج رکھتا ہے ، لہٰذا بعد والی آیت میں فرماتا ہے :” خوبصورت اور جاذب نظر پیالے ان چشموں کے پاس رکھے ہوں گے “ ( و اکواب موضوعة )۔ جس وقت وہ ارادہ کریں گے تو پیالے چشموں سے پر ہو کر ان کے سامنے آجائیں گے اور وہ تازہ تازہ نوش کریں گے ایسی لذت جس کا شعور ساکنین دنیا کے لئے ممکن نہیں ہے ۔ اکواب جمع کوب ( بر وزن خوب) جو قدح ، پیالے یا اسی ظرف کے معنی میں ہے جس میں دستہ لگاہوا ہو۔
اس نکتہ کی طرف توجہ ضروری ہے کہ قرآن میں اہل جنت کی شراب طہور کے برتنوں کے بارے میں مختلف تعبیریں آئی ہیں یہاں اور بعض دوسری آیت میں اکواب کی تعبیرآئی ہے جبکہ بعض دوسری آیات میں اباریق ( ابریق کی جمع ) کی تعبیر آئی ہے ، جو ایسے ظرف کے معنی میںہے جس کا دستہ اورٹونٹی ہو، سیال چیزوں کو انڈیل نے کی غرض سے ۔ یا پھر کاٴس کا لفظ آیاہے جس کے معنی شراب سے لبریز جام کے ہیں ( یطوف علیھم ولدان مخلدون باکواب و اباریق و کاٴس من معین )ان کے گرد ایسے جوان گردش کرتے ہوں گے جو ہمیشہ جوانی کی طراوت و تروتازگی کے حامل ہوں گے ۔ جبکہ شراب طہور سے لبریز پیالے او رجام ان کے ہاتھ میں ہوں گے اور وہ ان کے سامنے پیش کریں گے ۔ (واقعہ ۱۷۔ ۱۸)۔
اس کے بعد جنت کی نعمتوں کے جزئیات کے متعلق مزید نکات پیش کرتے ہوئے اضافہ فرماتا ہے : ” وہاں پلنگوں پر تکیئے اور گاوٴ تکیئے ہوں گے جو صف بستہ ہوں گے“ ( ونمارق مصفوفہ) ۔ نمارق نمرقہ ( بروزن غلغلہ) کی جمع ہے جس کے معنی چھوٹے تکیئے کے ہیں جس کا سہارا لیتے ہیں 3
اور عام طور پر مکمل استراحت کے وقت ان سے فائدہ اٹھایا جا سکتاہے اور مصفوفہ کی تعبیر اشارہ ہے نظمِ خاص او ر تعداد کی طرف جو ان پر حاکم ہے ۔ یہ تعبیر بتاتی ہے کہ وہ مجالس ِ انس تشکیل دیں گے اور یہ مجلسیں جو ہر قسم کی لغویت او ر بیہودگی سے پاک ہوں گی۔
ان میں صرف الطاف الٰہی ، اس کی بے پایاں نعمتوں اور دنیا کے درد و رنج اور عذاب سے نجات کے بارے میں گفتگو ہوگی ، اس قدر لطف اور لذت رکھتی ہوں گی کہ کوئی چیز ان کی ہمسر نہیں ہوسکتی ۔
آخری زیر ِبحث آیت میں جنت کے قیمتی فرشوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے : ” وہاں گراں بہااور خوبصورت فرش بچھے ہوئے ہوں گے “۔ ( و زرابی مبثوثة) ۔
” زرابی“ جمع ہے زریبہ کی جو ایسے قیمتی فرش کے معنی میں ہے جو نرم ، راحت بخش اور بیش قیمت ہوں گے ۔ واضح ہے کہ ان آسائش و لذت کے وسائل و ذرائع کے برابر اور بہت سے دوسرے وسائل موجود ہوں گے جبکہ یہ مشتے نمونہ ازخروارے کے مصداق ہیں ۔ ان آیتوں میں جنت کی ساتھ اہم نعمتیں بیان ہوئی ہیں جن میں سے ہر ایک دوسری سے زیادہ جاذب تر اور زیبا تر ہے ۔
خلاصہ کلا م یہ ہے کہ جنت ایک بے نظیر جگہ ہے ، جس میں کسی قسم کا لڑائی جھگڑا نہیں ہے ۔ وہاں انواع و اقسام کے رنگ برنگ کے پھل ، دل خوش کن نغمے ، آبِ جاری کے چشمے ، شراب طہور ،سائشتہ خدمتگار ، بے مثل بیویاں ، مصّع پلنگ ، قیمتی فرش اور پر خلوص دوست ہوںگے ۔ نیز عمدہ او رخوبصورت پیالے ہوںگے جو چشموں کے پاس رکھے ہوں گے ۔ مختصر یہ ایسی نعمتیں وہاں دستیاب ہوں گی جن کی نہ اس دنیا کے الفاظ کے ذریعے تشریح ممکن ہے اور نہ عالمِ خیال ہی اس کی توضیح کرسکتا ہے ۔
یہ سب چیزیں ان مومنین کی تشریف آوری کی متظر ہیں جنہوں نے اپنے اعمال صالح کے ذریعہ نعمت الہٰی کے اس مرکز میں ورود کی اجازت لے لی ہے ۔
مذکورہ بالا مادّی لذتوں کے علاوہ معنوی لذتیں بھی ہیں ۔ سب سے بڑھ کر لقا اللہ کی نعمت ہے ۔ اس معبود حقیقی کے لطف و کرم ہیں کہ اگر ایک لمحے کے لئے مل جائیں تو وہ جنت کی تمام مادہ نعمتوں کے مقابلہ میں بہتر و بر تر ہیں بقول شاعر 
گرم بہ دا من و صل تو دسترس باشد دگر ز طالع خویشم چہ ملتمس باشد؟
اگر بہ ہر دو جہاں یک نفس زنم بر دوست مراز ہر دوجہاں حاصل آن نفس باشد
اگر مجھے تیرے وصل کے دامن تک دسترس حاصل ہو جائے تو پھر میں اپنے مقدر سے اور کیامانگوں ۔
اگر دونوں جہاں کے بدلے دوست کے ساتھ ایک سانس لوں تو اس دونوں جہاں کاماحصل یہی ایک سانس ہو گا ۔
۱۷۔ افلا ینظرون الیٰ الابل کیف خلقت ۔ ۱۸۔ و الیٰ السّمآءِ کیف رفعت۔
۱۹۔ و الیٰ الجبال کیف نصبت۔ ۲۰۔ و الیٰ الارض کیف سطحت۔
۲۱۔ فذکّر انمآ انت مذکّرٌ۔ ۲۲۔ لستَ علیھم بمصیطرٍ۔
۲۳۔ الا من تولّیٰ و کفر۔ ۲۴۔ فیعذبہ اللہ العذاب الاکبر۔
۲۵۔ انّ علینا ایا بھم ۲۶۔ ثم انّ علینا حسابھم ۔
ترجمہ
۱۷۔ کیاوہ اونٹ کی طرف نہیں دیکھتے کہ کس طرح اسے پیداکیاگیا؟
۱۸۔اور آسمان کی طرف نہیں دیکھتے کہ کس طرح بلندی پر قائم کیا گیا؟
۱۹۔ اور پہاڑوں کی طرف کہ کس طرح وہ اپنی جگہ نصب ہوئے ہیں ؟
۲۰۔ اور زمین کی طرف کہ وہ کس طرح مسطح ہوئی ہے ؟ ۲۱۔ پس نصیحت کر کہ تو صرف نصیحت کرنے والا ہے ۔
۲۲۔ تو ان پر مسلط نہیں ہے کہ انہیں ( ایمان لانے پر ) مجبور کرے ۔ ۲۳۔ مگر وہ شخص جو پشت پھیرے اور کافر ہوجائے ۔
۲۴۔ خد اجسے بہت بڑے عذاب کی سزا دے گا۔ ۲۵۔ یقینا ان کی باز گشت ہماری طرف ہے ۔
۲۶۔ اور یقینا ان کا حساب کتاب ہمارے پاس ہے ۔


 
۱۔ ”لاغیة“ اگر چہ اسم فاعل ہے لیکن اس قسم کے موارد میں اس چیز کے معنی ہے جو لغویت لئے ہو ۔ اسی لئے مفسرین نے اس کی ( ذاتِ لغو) لغو لئے ہوئے تفسیر کی ہے
2۔ مفردات راغب مادہ ”سر“
3۔ صحاح اللغة مادہ مادہ غرق ۔


 
بد نصیب تھکے ماندےاونٹ کی طرف دیکھوجوخود ایک آیت ہے
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma