ثبت اعمال کے مامورین

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونه جلد 27
اے انسان تجھے کس چیز نے مغرور کردیا ہے ؟ وہ دن جس میں کوئی شخص کسی کے لئے کوئی کام انجام نہیں دے گا ۔

نہ صرف اوپر آیات میں بلکہ بہت سی دوسری قر آنی آیات میں اور اسلامی روایات میں ان معانی کی طرف اشارہ ہو اہے کہ خدا نے ہر انسان پر نگہبان و نگران مقرر کئے ہیں جو اس کے اعمال قطع نظر اس کے کہ وہ اچھے ہوں یا برے ، تحریرکرتے ہیں اور اس کا اعمال نامہ روز جزا کے لئے تیار کرتے ہیں ۔
ان فرشتوں کی خصوصیات کے بارے میں معنی خیز اور خبر داروہشیار کرنے والی تعبیریں اسلامی رویات میں وارد ہوئی ہیں منجملہ ان کے ایک یہ ہے کہ کسی شخص نے امام موسیٰ کاظم علیہ السلام سے سوال کیاکہ جو انسان کے اعمال تحریر کرنے پر مامور ہیں کیا وہ انسان کے ارادہ اور نیک یا بد کام کرنے کے باطنی عزم سے بھی باخبر ہوتے ہیں تو امام نے جواب میں فرمایا :
”کیا بچے کھچے اور گندے پانی کے کنویں کی بو اور عطر کی خوشبو ایک جیسی ہوتی ہے “۔ راوی نے عرض کیا نہیں ۔ تو امام علیہ السلام نے فرمایا :
”کہ جب انسان کو ئی اچھا کام کرنے کی نیت کرتا ہے تو اس کا سانس خوشبو دار ہو جاتاہے تو وہ فرشتہ جو دائیں طرف ہے ( اور حسنات کے ثبت کرنے پر مامور ہے ) بائیں طرف والے فرشتے سے کہتا، اٹھ کھڑا ہو کہ اس نے نیک کام کا ارادہ کیاہے اور جب وہ اس کام کو انجادیتا ہے تو اس انسان کی زبان اس فرشتے کا قلم بن جاتی ہے اور لعاب دہن سیاہی بن جاتاہے ، لیکن جب انسان گناہ کا ارادہ کرتاہے تو اس کاسانس بد بو دار ہو جاتاہے ، اس وقت بائیں طرف کا فرشتہ دائیں طرف والے فرشتے سے کہتاہے ،اٹھ کھڑا ہو کہ اس نے معصیت و نافرمانی کا ارادہ کیاہے اور جب وہ نافرمانی انجام دیتا ہے تو اس کی زبان اس فرشتے کاقلم اور لعاب دہن سیاہی بن جاتاہے اور وہ اسے لکھ دیتاہے ۔ ۱
یہ حدیث اچھی طرح بتاتی ہے کہ انسان کی نیت اس کے وجود پر اچھی طرح اثر انداز ہوتی ہے اور فرشتے اس کے اندرونی اسرار سے باہر کے آثار کے ذریعہ آگاہ ہوجاتے ہیں اور اگر آگاہ نہ ہو ں تو انسان کے اعمال کو اچھی طرح ضبط تحریر میں نہیں لاسکتے ، اس لئے کہ نیت کی کیفیت عمل کی آلودگی اور خلوص کے سلسلہ میں حد سے زیادہ موثر ہوتی ہے یہاں تک کہ پیغمبر اسلام  نے مشہورحدیث میں فرمایا ہے :
( انما الاعمال بالنیات) ۔ اعمال نیتوں سے وابستہ ہیں ، دوسرے یہ کہ فرشتہ خود انسان سے لیتے ہیں اور اسی پر خرچ کرتے ہیں۔ ہماری زبان انکا قلم اور ہمارا لعاب دہن ان کی سیاہی ہے ۔
۲۔ وہ مامور ہیں کہ جب انسان نیک کام کی نیت کرے تو اسے ایک نیکی کی حیثیت سے تحریر کریں اور جس وقت اسے انجام دیدے تو دس نیکیاں لکھ دیں ۔ لیکن جب انسان گناہ کا ارادہ کرتاہے تو جب تک عمل نہ کرے کوئی چیز اس کے خلاف نہیں لکھتے اور گناہ کے ارتکاب کے بعد بھی صرف ایک ہی گناہ لکھتے ہیں ۔ ۲
یہ تعبیر انسان پر خدا کے انتہائی لطف و کرم کو بیا ن کرتی ہے کہ گناہ کی نیت کو وہ بخش دیتا ہے اور فعل گناہ کی عدل کے مطابق سزا دیتا ہے نہ کہ میزان عدل کے مطابق اور یہ نیک اعمال کی تشویق ہے ۔
۳۔ ایک اور روایت میں آیا ہے کہ ان دونوں فرشتوں کے موجود ہونے اور دس گنا حسنات کی سزا لکھنے کی طرف اشارہ کرنے کے بعد فرمایا:
جب انسان کسی برے کا م کو انجام دیتاہے دائیں طرف کا فرشتہ بائیں طرف کے فرشتے سے کہتا ہے اس گناہ کے لکھنے میں جلدی نہ کر شاید اس کے بعد کوئی نیک کام انجام دے جو اس کے گناہ پر پردہ ڈال دے جیساکہ خدائے عظیم فرماتا ہے :
( ان الحسنات یذھبن السیّئات) ”نیکیاں برائیوں کو ختم کردیتی ہیں “۔
یا یہ کہ تو بہ و استغفار کرے اور ( گناہ کا اثر ختم ہو جائے )۔ گناہ کافرشتہ سات گھنٹہ تک گناہ کے لکھنے سے رکا رہتاہے ، اگر اس گناہ کے بعد کوئی استغفار یانیک کام نہ ہو تو پھر حسنات والا فرشتہ سیئات والے فرشتہ سے کہتا ہے کہ اس بد بخت محروم کا گناہ لکھ دے ۔۳
۴۔ ایک اور حدیث میں امام صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ جب مومنین کسی خصوصی مجلس میں ایک دوسرے سے گفتگو کرتے ہیں تو محافظین اعمال ایک دوسر سے کہتے ہیں کہ ہم ان سے دور ہو جائیں ۔ شاید ان کا کوئی راز ہے جسے خدا نے پوشیدہ رکھا ہے ۔ 4
۵۔ حضرت علی علیہ السلام اپنے خطبہ میں جس میں لوگوں کو تقویٰ اور خوف ِخدا کی دعوت دیتے ہیں، فرماتے ہیں کہ :
” اے بندگان خدا ! جان لوکہ خود تم میں سے کچھ نگران تم پر مقرر کئے گئے ہیں ،وہ تمہارے بد ن کے اعضاء ہیں اور یہ بھی جان لوکہ سچے حساب کرنے والے تمہارے اعمال کو لکھتے ہیں یہاں تک کہ تمہارے سانسوں کی تعداد کو محفوظ کر لیتے ہیں ۔ نہ شب ِ تاریک کی سیاہی تمہیں ان سے پوشیدہ رکھ سکتی ہے اور نہ محکم اور بند دروازے ۔ اور آج کل کس قدر قریب ہے ۔ 5

۱۳۔ انّ الابرار لفی نعیم ۔
۱۴۔ و انّ الفجّار لفی جحیم۔
۱۵۔ یصلونھا یوم الدّین ۔
۱۶۔ وما ھم عنھا بغآ ءِ بِینَ۔
۱۷۔ ومآ ادراکَ مَا یَومُ الدّینِ ۔
۱۸۔ ثم مآ ادراک مایوم الدّین۔
۱۹۔ یوم لا تملک نفسٌ لِنفسٍ شیئاً و الامرُ یو مئِذٍ للّہِ۔
ترجمہ
۱۳۔ یقینا نیک افراد نعمت فراوان میں ہیں ۔
۱۴۔ اور بد کار دوزخ میں ہیں ۔
۱۵۔ جز ا کے روز ا س میں وارد ہوں گے اور جلیں گے ۔
۱۶۔ اور کبھی بھی اس سے غائب اور دور نہیں ہوںگے ۔
۱۷ ۔ تو کیا جانے کہ قیامت کا دن کیا ہے ۔
۱۸۔ پھر تو کیا جانے کے قیامت کا دن کیا ہے ۔
۱۹۔ ایسا دن ہے جس میں کوئی شخص کسی دوسرے حق کے میں کسی کام کے انجام دینے پر قدرت نہیں رکھتا اور اس دن
سب امور اللہ سے مخصوص ہیں ۔


۱۔ اصول کافی ، جلد ۲ باب من یہم بالحسنة اوالسیئة حدیث ۳۔
۲۔ اصول کافی ، جلد ۲ باب من یہم بالحسنة اوالسیئة حدیث ۳۔
۳۔ اصول کافی ، جلد ۲ باب من یہم بالحسنة اوالسیئة حدیث ۴۔
4۔ اصول کافی مطابق نقل نو الثقلین ، جلد ۵ ص۱۱۰۔
5- نہج البلاغہ، خطبہ ۱۵۷۔
 
 

 

اے انسان تجھے کس چیز نے مغرور کردیا ہے ؟ وہ دن جس میں کوئی شخص کسی کے لئے کوئی کام انجام نہیں دے گا ۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma