اس سورہ کے آغاز میں بھی چار پر معنی قسمیں بیان کی گئی ہیں جو بہت ہی اہم معنی کے بیان کا مقدمہ ہیں ۔
فرماتا ہے :” انجیر و تین کی قسم ( و التین و الزیتون)۔ ” اور طور سینین کی قسم ( و طور سینین)۱
اور اس امن و امان والے شہر کی قسم ( و ھٰذا البلد الامین)۔
” تین “ لغت میں انجیر کے معنی میں ہے اور ” زیتون“ وہی معروف زیتون ہے جس سے ایک مفید روغنی مادّہ حاصل ہو جاتا ہے۔ اس بارے میں کہ کیا اس سے انہیں دو مشہور پھلوں کی طرف اشارہ سمجھتے ہیں ، جو حد سے زیادہ غذائی اور دوائی خواص کے حامل ہیں ، لیکن بعض کا نظریہ ہے کہ اس سے مراد وہ دو پہاڑ ہیں جن پر شہر دمشق اور بیت المقدس واقع ہیں ۔ کیونکہ یہ دونوں مقامات بہت سے انبیاء اور خدا کے بزرگ پیغمبروں کے قیا م کی سر زمین ہیں ، اور یہ دونوں قسمیں ، تیسری اور چوتھی قسموں کے ساتھ، جو مقدس سر زمینوں کی قسمیں ہیں ، ہم آہنگ ہیں۔
اور بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ ان دونوں پہاڑوں کی تین اور زیتون اس لیے کہا گیا ہے کیونکہ ان میں سے ایک پر انجیر کے درخت اُگتے ہیں اور دوسرے زیتون کے درخت۔
اور بعض نے تین کو آدم علیہ السلام کے زمانہ کی طرف اشارہ سمجھا ہے، کیونکہ وہ لباس جو آدم علیہ السلام اور حوّانے جنت میں پہناتھا وہ انجیر کے درختوں کے پتوں کا تھا ، اور زیتون کو نوح کے زمانہ کی طرف اشارہ سمجھا ہے، کیونکہ طوفان کے آخری مرحلوں میں نوح نے ایک کبوتر اس مقصد سے چھوڑا تھا تاکہ پانی کے نیچے سے خشکی کے ظاہر ہونے کو معلوم کرے وہ ( کبوتر) زیتون کی ایک شاخ لے کر واپس آیا تو نوح سمجھ گئے کہ طوفان تھم گیا ہے ، اور خشکی پانی کے نیچے سے ظاہر ہو گئی ہے ۔ ( اس لیے زیتون صلح و امنیت کی رمز ہے )۔
بعض تین کو اس مسجد نوح کی طرف اشارہ سمجھتے ہیں کہ جو کوہ جودی پر تعمیر کی گئی تھی ۔ اور زیتون کو بیت المقدس کی طرف اشارہ سمجھتے ہیں ۔
ابتدائی نظر میں تو آیت کا ظاہر وہی دو مشہور پھل ہیں ،لیکن بعد والی قسموں کی طرف توجہ کرتے ہوئے دو پہاڑ یا موردِ احترام دو مقدس مراکز ہی مناسب معلوم ہوتے ہیں۔
اسی لئے ایک حدیث میں پیغمبرصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے آیا کہ خدا نے شہروں میں سے چار شہروں کو منتخب کیا ہے اور ان کے بارے میں فرمایاہے:
التین و الزیتون و طور سینین وھٰذ البلد الامین : ” تین“ مدینہ ہے ، اور ”زیتون “ بیت المقدس“ ، ” طور سینین“ کوفہ ہے اور ” ھٰذا البلد الامین“ ” مکہ“ 2
” طور سینین“ سے مراد ظاہراً وہی ” طورسینا“ ہے جسے مفسرین نے اسی مشہورکوہِ” طور“ کی طرف اشارہ سمجھا جاتا ہے جو صحرائے سینا میں ہے ، ، اور وہاں زیتون کے پر بار درخت موجود ہیں۔
” سینا“ کو بر کتوں والا یا درختوں سے پر یا خوبصورت پہاڑ سمجھتے ہیں ، اور یہ وہی پہاڑ ہے جہاں موسیٰ علیہ السلام مناجات کے وقت گئے تھے ۔
بعض نے اسے کوفہ کے نزدیک سر زمین نجف کا ایک پہاڑبھی سمجھا ہے ۔
اور بعض نے تصریح کی ہے کہ ” سینین“ اور ” سینا“ ایک ہی چیز ہے، اور اس کا معنی پر بر کت ہے ۔
باقی رہا ” ھٰذا البلد الامین “ تو یہ یقینا سر زمین مکہ کی طرف اشارہ ہے ، وہ سر زمین جو زمانہٴ جاہلیت میں بھی منطقہٴ امن اور حرمِ خدا سمجھی جاتی تھی، اورکوئی شخص وہاں دوسرے پر تعرض کا حق نہیں رکھتا تھا، یہاں تک مجرم اور قاتل بھی جب اس سر زمین میں پہنچ جاتے تھے تو وہ بھی امن میں ہوتے تھے۔
یہ سر زمین اسلام میں حد سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے ، انسان تو رہے ایک اس کے جانور، درخت اور پرندے بھی خصوصیت کے ساتھ امن سے رہنے چائیں۔3
یہ نکتہ بھی قابل غور ہے کہ قرآن مجید میں لفظ” تین “ صرف اسی جگہ استعمال ہوا ہے ۔ جبکہ لفظ زیتون قرآن مجید میں چھ مرتبہ صراحت کے ساتھ آیاہے ، اور ایک دفعہ اشارہ کی صورت میں جہاں فرماتا ہے:
” وشجرة تخرج من طور سیناء تنبت بالدھن وصبغ للاٰکلین،اور وہ درخت جو طور سینا میں اُگا ہے ، اس سے کھانے والوں کے لئے روغن اور سالن فراہم ہوتا ہے ۔ ( مومنون۔۲۰)