ہم نے انسان کو بہترین صورت میں پیدا کیا ہے ۔

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونه جلد 27
اس سورہ کی تلاوت کی فضیلتانجیر اور زیتون کا فایده

اس سورہ کے آغاز میں بھی چار پر معنی قسمیں بیان کی گئی ہیں جو بہت ہی اہم معنی کے بیان کا مقدمہ ہیں ۔
فرماتا ہے :” انجیر و تین کی قسم ( و التین و الزیتون)۔ ” اور طور سینین کی قسم ( و طور سینین
اور اس امن و امان والے شہر کی قسم ( و ھٰذا البلد الامین
” تین “ لغت میں انجیر کے معنی میں ہے اور ” زیتون“ وہی معروف زیتون ہے جس سے ایک مفید روغنی مادّہ حاصل ہو جاتا ہے۔ اس بارے میں کہ کیا اس سے انہیں دو مشہور پھلوں کی طرف اشارہ سمجھتے ہیں ، جو حد سے زیادہ غذائی اور دوائی خواص کے حامل ہیں ، لیکن بعض کا نظریہ ہے کہ اس سے مراد وہ دو پہاڑ ہیں جن پر شہر دمشق اور بیت المقدس واقع ہیں ۔ کیونکہ یہ دونوں مقامات بہت سے انبیاء اور خدا کے بزرگ پیغمبروں کے قیا م کی سر زمین ہیں ، اور یہ دونوں قسمیں ، تیسری اور چوتھی قسموں کے ساتھ، جو مقدس سر زمینوں کی قسمیں ہیں ، ہم آہنگ ہیں۔
اور بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ ان دونوں پہاڑوں کی تین اور زیتون اس لیے کہا گیا ہے کیونکہ ان میں سے ایک پر انجیر کے درخت اُگتے ہیں اور دوسرے زیتون کے درخت۔
اور بعض نے تین کو آدم علیہ السلام کے زمانہ کی طرف اشارہ سمجھا ہے، کیونکہ وہ لباس جو آدم علیہ السلام اور حوّانے جنت میں پہناتھا وہ انجیر کے درختوں کے پتوں کا تھا ، اور زیتون کو نوح  کے زمانہ کی طرف اشارہ سمجھا ہے، کیونکہ طوفان کے آخری مرحلوں میں نوح نے ایک کبوتر اس مقصد سے چھوڑا تھا تاکہ پانی کے نیچے سے خشکی کے ظاہر ہونے کو معلوم کرے وہ ( کبوتر) زیتون کی ایک شاخ لے کر واپس آیا تو نوح  سمجھ گئے کہ طوفان تھم گیا ہے ، اور خشکی پانی کے نیچے سے ظاہر ہو گئی ہے ۔ ( اس لیے زیتون صلح و امنیت کی رمز ہے )۔
بعض تین کو اس مسجد نوح  کی طرف اشارہ سمجھتے ہیں کہ جو کوہ جودی پر تعمیر کی گئی تھی ۔ اور زیتون کو بیت المقدس کی طرف اشارہ سمجھتے ہیں ۔
ابتدائی نظر میں تو آیت کا ظاہر وہی دو مشہور پھل ہیں ،لیکن بعد والی قسموں کی طرف توجہ کرتے ہوئے دو پہاڑ یا موردِ احترام دو مقدس مراکز ہی مناسب معلوم ہوتے ہیں۔
اسی لئے ایک حدیث میں پیغمبرصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے آیا کہ خدا نے شہروں میں سے چار شہروں کو منتخب کیا ہے اور ان کے بارے میں فرمایاہے:
التین و الزیتون و طور سینین وھٰذ البلد الامین : ” تین“ مدینہ ہے ، اور ”زیتون بیت المقدس“ ، ” طور سینین“ کوفہ ہے اور ” ھٰذا البلد الامین“ ” مکہ2
” طور سینین“ سے مراد ظاہراً وہی ” طورسینا“ ہے جسے مفسرین نے اسی مشہورکوہِ” طور“ کی طرف اشارہ سمجھا جاتا ہے جو صحرائے سینا میں ہے ، ، اور وہاں زیتون کے پر بار درخت موجود ہیں۔
سینا“ کو بر کتوں والا یا درختوں سے پر یا خوبصورت پہاڑ سمجھتے ہیں ، اور یہ وہی پہاڑ ہے جہاں موسیٰ علیہ السلام مناجات کے وقت گئے تھے ۔
بعض نے اسے کوفہ کے نزدیک سر زمین نجف کا ایک پہاڑبھی سمجھا ہے ۔
اور بعض نے تصریح کی ہے کہ ” سینین“ اور ” سینا“ ایک ہی چیز ہے، اور اس کا معنی پر بر کت ہے ۔
باقی رہا ” ھٰذا البلد الامین “ تو یہ یقینا سر زمین مکہ کی طرف اشارہ ہے ، وہ سر زمین جو زمانہٴ جاہلیت میں بھی منطقہٴ امن اور حرمِ خدا سمجھی جاتی تھی، اورکوئی شخص وہاں دوسرے پر تعرض کا حق نہیں رکھتا تھا، یہاں تک مجرم اور قاتل بھی جب اس سر زمین میں پہنچ جاتے تھے تو وہ بھی امن میں ہوتے تھے۔
یہ سر زمین اسلام میں حد سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے ، انسان تو رہے ایک اس کے جانور، درخت اور پرندے بھی خصوصیت کے ساتھ امن سے رہنے چائیں۔3
یہ نکتہ بھی قابل غور ہے کہ قرآن مجید میں لفظ” تین “ صرف اسی جگہ استعمال ہوا ہے ۔ جبکہ لفظ زیتون قرآن مجید میں چھ مرتبہ صراحت کے ساتھ آیاہے ، اور ایک دفعہ اشارہ کی صورت میں جہاں فرماتا ہے:
وشجرة تخرج من طور سیناء تنبت بالدھن وصبغ للاٰکلین،اور وہ درخت جو طور سینا میں اُگا ہے ، اس سے کھانے والوں کے لئے روغن اور سالن فراہم ہوتا ہے ۔ ( مومنون۔۲۰)

 

 



۱۔ ” بعض نے سینین “ کو” سینہ“ کی جمع سمجھا ہے جو درخت کے معنی میں ہے ، اور اس بات کی طرف توجہ کرتے ہوئے کہ ” طور“ ” پہاڑ“ کے معنی میں ہے ، تو اس کا معنی درختوں سے پُر پہاڑ ہوگا، بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ ” سینین“ ایک زمین کا نام ہے کہ جس پر وہ پہاڑ واقع ہے، بعض نے یہ کہا ہے کہ ” سینین “ پر برکت اور خوبصورت کے معنی میں ہے ، اور یہ اہل حبشہ کی زبان کا لفظ ہے ۔ ( روح المعانی جلد ۳۰ ص ۱۷۳)
2 ۔ تفسیر نو الثقلین جلد ۵ ص ۶۰۶ حدیث ۴ یہ ٹھیک ہے کہ اس زمانہ میں کوفہ ایک بڑا شہر نہیںتھا ، لیکن اس سر زمین سے دریائے فرات کے گزرنے کی وجہ سے یقینی طور پر بہت سی آبادیاں اس زمانہ میں بھی وہاں بھی موجود تھیں۔ ( تواریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام سے پہلے بھی وہاں پر ایک شہر آباد تھا )۔ ( دائرة المعارف مصاحب جلد۲ مادہٴ کوفہ)۔
3 ۔لفظ ”امین “ممکن ہے کہ یہاں ” فعیل“ بمعنی ” فاعل“ ہو اور ا س کا معنی ” ذو الامانة“ ہو اور یا ” فعیل“ بمعنی ” مفعول “ ہو ، یعنی وہ سر زمین جس میں لوگ امن میں ہیں۔
اس سورہ کی تلاوت کی فضیلتانجیر اور زیتون کا فایده
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma