اس دن وہ مومنین کا مذاق اڑاتے تھے لیکن آج

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونه جلد 27
۲۔ جنت کی شرابیں دشمنانِ حق کا مذاق اڑانے کا بزدلانہ حربہ

گذشتہ آیا ت کے بعد ، جو نیک لوگوں کے ملنے والی نعمتوں اور ثواب کے بارے میں گفتگو کر رہی تھیں ، زیر بحث آیا ت میں ان مصائب اور زخموں کے ایک گوشہ کی طرف ، جس سے اس جہان میں ایمان و تقویٰ کی بناپر ان کا واسطہ پڑا تھا ، اشارہ کرتاہے تا کہ واضح ہو جائے کہ وہ عظیم اجر و ثواب حساب کتاب کے بغیرنہیں ہے ۔
ان آیا ت میں کفارکی قبیح اور دل دکھانے والی تنقید اور ان سے آمنا سامنا ہونے کے بارے میں گفتگو کرتا ہے اور کفار کے چار کے رد عمل کو بیان کرتا ہے پہلے فرمایا تاہے :
” بدکار اور کفار ہمیشہ مومنین پر ہنستے تھے “( ان الذین اجرموا کانوا من الذین اٰمنوا یضحکون )، تمسخر آمیز اور منبی بر حقارت ہنسی ، ایسی ہنسی جو سر کشی و تکبر اور غرور و غفلت کی وجہ سے پید اہوتی ہے اور ہمیشہ چھوٹے دماغ کے مغرور افراد ،متقی مومنین کے مقابلہ میں اس قسم کی بے وقوفانہ ہنسی سے کام لیتے ہیں ۔
ضمنی طور پر” کفروا“ کی بجائے ” اجزموا “ کی تعبیر یہ بتاتی ہے کہ کافروبے ایمان افراد اپنے گناہ آلود اعمال سے پہچانے جاتے ہیں اس لئے کہ کفر ہمیشہ سے عصیان و جرم کا سر چشمہ ہے ۔
بعد والی آیت میں ان کے قبیح طرز عمل کو بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے :
”جس وقت کفار مومنین کی جماعت کے قریب ہو ں تو اشاروں سے ان کا مذاق اڑاتے ہیں “
( و اذا مرّوبھم یتغامزون)،اور اشاروں اشارو ں میں کہتے ہیں کہ ان بے سرو پا افراد کو دیکھتے ہوکہ یہ مقربین بار گاہ خدا ہو گئے ہیں ۔ ان ننگے پاوٴں اور برے حال لوگوں کو دیکھو کہ یہ اپنے اوپر وحی کے نزول کے مدعی ہیں اور ناداں لوگوں کو دیکھو کہ یہ کہتے ہیں کہ بوسیدہ اور خاک شدہ ہڈیاں دوبارہ زندگی کی طرف پلٹ آئیں گی اور وہیں وہ اسی قسم کی دوسری کھوکھلی باتیں کرتے ہیں ۔
ایسا نظر آتا ہے کہ مشرکین واضح طور پر اس وقت ہنسی اڑاتے تھے جب مومنین کی کوئی جماعت ان کے پاس سے گزرتی تھی اور ان کے تمسخر آمیز اشارے اس وقت ہوتے جب وہ مومنین کی جماعت کے نزدیک سے گزرتے اور چونکہ مومنین کی جماعت کے قریب رہ کر آسانی سے ان کا مذاق نہیں اڑا سکتے تھے ، لہٰذا آنکھوں کے اشاروں سے کام لیتے تھے ۔ لیکن جہاں خود ان کا جھمگٹا ہوتا اور مومنین ان کے پاس سے گزرتے وہاں وہ زیازہ آزادی اور جسارت سے کام لیتے ۔ ۱
یتغامزون“ ۔” غمز“ (بروزن طنز) کے مادہ سے آنکھ اور ہاتھ سے ایسی چیز کی طرف اشارہ کرنے کے معنی میں ہے جس سے عیب جوئی کا پہلو نکلتا ہو اور بعض اوقات یہ لفظ ہر قسم کی عیب جوئی کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ، خواہ زبان ہی سے کیوں نہ ہو۔
اور تغامز ( باب تفاعل سے ) کی تعبیر اس بات کی دلیل ہے کہ وہ سب کے سب ایک دوسرے کے ساتھ مل کر یہ حرکت کرتے تھے اور ہر کوئی اشارہ کرکے دوسرے کو کچھ بتا تا، جس میں مذاق کا پہلو ہوتا۔ یہ تو مومنین سے آمنا سامنا ہونے پر ہوتا تھا ۔ خصوصی جلسوں میں بھی یہی طرز کار اختیار کئے رکھتے اور علیحدگی میں بھی اس سلسلہ کو جاری رکھتے ، جیسا کہ بعد والی آیت کہتی ہے :
” جس وقت وہ اپنے گھروں کی طرف پلٹ جاتے تو خوش ہوتے اور جوکچھ انجام دیا ہوتا اس پر پھولے نہ سماتے“۔
( و اذا انقلبوا الیٰ اھلھم انقلبوا فکھین) ، گویا انہیں فتح و کامیابی نصیب ہوئی ہے جس کی وجہ سے فخر و مباہات کررہے ہیں پھرمومنین سے علیحدگی کی صورت میں بھی اس مذاق کوجاری رکھتے ۔
”فکھین “ جمع ہے ” فکہ“ کی ، یہ صفت ہے مشبہ ( اور بروزن خشن ہے ) ” فکاھہ “( بر وزن قبالہ ) مذاق اڑانے کے معنی میں ہے اور اصل میں فاکھہ سے لیا گیاہے جس کے معنی پھل کے ہیں ۔
گویا یہ شوخیاں پھولوں کے مانند ہیں جس سے وہ لذت حاصل کرتے ہیں ۔ اور شیریں اور دوستانہ گفتگو کو فکاھہ کہا جاتا ہے ۔ اگر چہ اہل کا لفظ عام طور پر خاندان اور قریبی رشتہ داروں کے معنی میں ہے لیکن ممکن ہے کہ یہاں زیادہ وسیع معنی رکھتا ہو اور قریبی دوستوں کا بھی احاطہ کرے ۔
مومنین کے مقابلہ میں ان کا چھوتھا شرارت آمیز طرز عمل یہ تھا کہ جب وہ انھیں دیکھتے تو کہتے یہ گمراہ گروہ ہیں (واذا راٴوھم قالوا ان ھٰو لاء لضالون )، اس لئے کہ وہ بت پرستی اور خرافات ، جوکفار میں رائج تھیں ، انہیں یہ گمراہ راہ ہدایت ہدایت خیال کرتے تھے جبکہ مومنین نے انہیں چھوڑ دیا تھا اور توحید کی طرف پلٹ آئے تھے اور کفار کے گمان میں نقدِ دنیا کی لذت کو مومنین نے آخرت کی خاطر ادھار بیچ دیا تھا ۔
ہوسکتا ہے کہ یہ تعبیر ان مراحل میںہو جہاں بات مذاق سے آگے بڑھ چکی ہو اور کفار اپنے آپ کو ناچار و مجبور دیکھتے ہوں کہ زیادہ سے زیادہ شدت عمل دکھائیں اس لئے کہ ہمیشہ عظیم پیغمبروں اور نئے دین و آئین کے ظہور کے وقت دشمنوں اور مخالفوں کا یہی طرز عمل ہوتا ہے کہ وہ مذاق اڑاتے تھے ۔
گویا وہ نئے دین کو اس قابل نہ سمجھتے تھے کہ سنجیدگی سے اس کا سامنا کریں ۔ لیکن جب دین خدا آمادہ افراد کے دلوں میں نفوذ کرجاتا اور اس کے بہت سے پیروکار ہو جاتے توکفار خطرہ محسوس کرکے اس پر سنجیدگی سے اپنا ردِ عمل ظاہر کرتے اور لڑائی پر شدت سے آمادہ رہتے اور مرحلہ بہ مرحلہ زیادہ شدت اختیار کرتے۔
مندر جہ بالا آیت ان کی انتہائی کو شش کا پہلا مرحلہ ہے جس کی بعد نوبت خوں ریز جنگوں تک پہنچ گئی۔ چونکہ مومنین عام طور پر ایسے افراد میں سے تھے جن کی کوئی اجتماعی حیثیت نہ تھی اور وہ دولت مند بھی نہیں تھے ، اس بناپر کفار انہیں چشم حقارت سے دیکھتے تھے اور ان کے ایمان کو بے قیمت شمار کرتے تھے اور ان کے دین کا مذاق اڑاتے تھے ، بعد والی آیت میں قرآن کہتا ہے :
” یہ گروہ کفاران کی زندگی کا ( مومنین کی) کبھی بھی محافظ و نگہبان اور متکفل نہیں تھا “ (وما ارسلوا علیھم حافظین) ، تو پھر کس حق کی بناپر اور کونسی منطق کی رو سے ان ہر تنقید و اعتراض کرتے تھے ؟
سورہٴ ہود کی آیت ۲۷ میں ہم پرھتے ہیں کہ قوم نوح کے دولتمند اور متکبر لوگوں نے آپ سے کہا( وما نراک اتبعک الاَّ الذین ھم اراذلنا بادی الراٴی )” ہم ان لوگو ں کو جنہوںنے تیرا اتباع کیا ہے ذلیل اور سادہ لوح ہونے علاوہ اور کچھ نہیں دیکھتے“۔ تو اُن جناب نے کفا رکے جواب میں کہا : ( ولا اقول للذین تزدری اعینکم لن یوٴتیھم اللہ خیراً اللہ اعلم بما فی انفسھم)میں بالکل نہیں کہتا کہ وہ لوگ تمہاری نظر میں ذلیل و خوار ہیں ، خدا انہیں خیر نہیں دے گا ، خد اان کے دلوں سے زیادہ آگاہ ہے ۔ “ ( ہود۔ ۳۱)۔
یہ حقیقت میں ان خود پرست اور متکبر افراد کا جواب ہے اور انہیں بتا یا جارہا ہے کہ اس کا تم سے کوئی تعلق نہیں ہے کہ مومنین کس گروہ سے وابستہ ہیں ، تم اپنے طور پر روح دعوت دین اور پیغمبر اسلام  کے آئین اور ان کے مجموعہ قوانین کو دیکھو اور سمجھنے کی کوشش کرو۔
قیامت میں صورت حال بالکل بر عکس ہو جائے گی جیسا کہ بعد والی آیت میں فرماتاہے  آج مومنین کفار پر ہنسیں گے “ ( فالیوم الذین اٰمنوا من الکفار یضحکون )۔ چونکہ قیامت انسان کے دنیاوی اعمال کا رد عمل ہے اور وہاں عدالت الہٰی کا اجر ہونا ہے اور عدالت کا تقاضا یہ ہے کہ وہاں پاک دل مومن ہٹ دھرم اور مذاق اڑا نے والے کافروں پر ہنسیں ۔ یہ ان مغرور لوگوں پر ایک قسم کا عذاب ہے ۔
بعض روایات میں رسول خدا  سے منقول ہے کہ روز جنت کا ایک در کفارکے سامنے کھلے گا اور وہ اس خیال سے کہ جہنم سے آزادی اور جنت میں ورود کا حکم انہیں دے دیا گیا ہے ، اس دروازہ کی طرف چل پڑیں گے ۔ جس وقت اس کے قریب پہنچیں وہ دروازہ اچانک بند ہو جائے گا ۔ اور یہ کئی مرتبہ ہو گا اور مومنین جو جنت سے ان کا نظارہ کر رہے ہوں گے ان پر ہنسیں گے ۔2
لہٰذا بعد والی آیت میں مزید کہتا ہے :
وہ مزین پلنگوں اور تختوں پر بیٹھے ہوئے ہوں گے اور ان مناظر کو دیکھیں گے ( علی الارائک ینظرون)۔ وہ کن چیزوں کی طرف دیکھیں گے ،اس آراو سکون و عظمت و احترام کو دیکھیں گے( جو انہیں حاصل ہو گا ) اور ان دردناک عذابوں کی طرف دیکھیں گے جن میں مغرور خود پرست کفار انتہائی ذلت اور زبوں حالی کے ساتھ گرفتار ہوں گے ۔
اور پھر اس سورہ کی آخری آیت میں ایک استفہامیہ جملے کی شکل میں فرماتا ہے :
” کیا کفار نے اپنے اعمال کا اجر اور کاموں کا ثواب لے لیا ہے “ ( ھل ثوب الکفار ما کانوا یفعلون )3
یہ بات چاہے خدا کی جانب سے ہو،یا فرشتوں کی طرف سے، یا مومنوں کی طرف سے ، یہ ایک قسم کا طعن و استہزاء ہے اور مغرور متکبر افراد کے افکار اور دعووں پر جنہیں توقع تھی کہ اپنے برے اعمال کے بدلے میں خدا کی طرف سے انعام و اکرام انہیں ملے گا ۔ اس غلط گمان اور خیالِ خام کے مقابلہ میں فرماتاہے :
”کیا انہوں نے اپنے اعمال کا ثواب اور اجر لے لیا ہے “۔ بہت سے مفسرین نے اس جملے کو ایک مستقل جملہ سمجھا ہے جبکہ بعض کا نظریہ ہے کہ یہ گزشتہ آیت کا حصہ ہے یعنی مومنین مزین تختوں پر بیٹھے ہوئے دیکھ رہے ہوں گے کہ کیا کفار نے اپنے غلط اعمال کا اجر لے لیاہے ۔
جی ہاں ! وہ اگر اجرلیں تو شیطان سے لیں ، کیا وہ بے نواگر فتار انہیں کوئی اجر دے سکتے ہیں ۔
ثوب“ ( بروزن جوف) ثوب کے مادہ سے اصل میں کسی چیز کا اپنی پچھلی حالت کی طرف پلٹنا ہے اور ثواب اس اجر کو کہا جاتا ہے جو انسان کو اس کے اعمال کے مقابلہ میں دیتے ہیں ، اس لئے کہ اس کے اعمال کا نتیجہ اس کی طرف لوٹتاہے ۔ یہ لفظ اچھی یا بری جزا کے لئے استعمال ہوتا ہے، اگر چہ عام طور پر موردِ خبر میں استعمال ہوتا ہے ۔ 4
اس لئے اوپر والی آیت ایک قسم کا کفار پر طنز کرتی ہے اور ہونا بھی ایسا ہی چاہیئے اس لئے کہ وہ ہمیشہ مومنین اور آیات ِ خدا کا مذاق اڑاتے تھے ۔ لہٰذا ضروری ہے کہ اس دن اپنے مذاق کی سزا بھگتیں ۔


 

۱۔ ” مرّوا “اور”بھم“ کی ضمیروں کے مرجع کے بارے میں مفسرین نے دو احتمال تجویز کئے ہیں ۔بعض نے پہلی ضمیر پر مشرکین کی طرف اور دوسری مومنین کی طرف پلٹائی ہے اور بعض نے اس کے بر عکس کہا ہے ۔ لیکن ہم نے جو کچھ اوپر کہاہے اس کے مطابق پہلا احتمال زیادہ مناسب ہے
2۔ در منثور، جلد ۶، ص ۳۲۸( مختصر سے فرق کےساتھ )۔
3۔ اس آیت میں استفہام تقریری ہے ۔
4۔ ” مفردات“ راغب مادہ ”ثوب“

ایک نکتہ
 

۲۔ جنت کی شرابیں دشمنانِ حق کا مذاق اڑانے کا بزدلانہ حربہ
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma