اس گھر کے پروردگار کی عبادت کرنی چا ہیئے ۔

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونه جلد 27
اس سورہ کی تلاوت کی فضیلتسورئہ الماعون

چو نکہ گزشتہ سورہ (سورئہ فیل )میں اصحاب فیل اور ابرھہ کے لشکر کی نابودی کی تفصیل بیان ہوئی تھی ،جو خانہ کعبہ کو نابود کرنے اور اس خدائی مرکز مقدس کو ویران کرنے کے ارادہ سے آیا تھا ،لہٰذا اس سور ہ کی پہلی آیت میں ،جو حقیقت میں سورئہ فیل کا ایک (تکمیل بیان )ہے ،فر ماتا ہے :”ہم نے ہاتھیوں کے لشکر کو نابود کر کے انہیں کھائے ہوئے بھو سہ کے مانند ریزہ ریزہ کر دیا ،”تاکہ قر یش اس مقدس سر زمین سے الفت پیدا کریں “اور پیغمبر اکرم کے ظہور کے مقد مات فراہم ہوں ۔‘(لا یلاف قر یش )۔۱
”ایلاف “مصدر ہے ،اورالفت بخشنے کے معنی میں ہے اور ”الفت “انس و محبت اور گھل مل جانے کے ساتھ اجتماع کے معنی میں ہے ،اور یہ بعض نے ”ایلاف“کی مئوالفت اور ”عہد و پیمان “کے ساتھ تفسیر کی ہے ،تو وہ نہ تو اس لفظ کے ساتھ مناسب ہے جو باب افعال کا مصدر ہے ،اور نہ ہی اس سورہ کی آیات کے مضمون سے ۔
بہر حال اس سے مراد قریش اور سر زمین مکہ اور خانہ کعبہ کے درمیان الفت پیدا کرنا ہے کیو نکہ قریش اور تمام اہل مکہ اس سر زمین کی مر کزیت اور امنیت کی بناء پر ہی وہاں رہا ئش پذیر تھے ۔حجاز کے بہت سے لوگ ہر سال وہاں آتے تھے اور مراسم حج بجا لاتے تھے ،اقتصادی اور ادبی مباد لات رکھتے تھے اور اس سر زمین کی مختلف بر کات سے استفادہ کرتے تھے ۔
یہ سب کچھ اس کی مخصوص سلامتی کی وجہ سے تھا ۔اگر ابرھہ یا کسی اور لشکر کشی سے اس کی سلامتی اور امنیت مخدوش ہوجاتی ،یا خانہ کعبہ ویران ہو جاتا ،تو پھر کسی کو اس سر زمین سے الفت و محبت نہ رہتی ۔
”قریش “کا لفظ جیسا کہ بہت سے مفسرین اور ارباب لغت نے کہا ہے اصل میں سمندر کے عظیم جانوروں کی ایک نوع کے معنی میں ہے ،جو ہر جانور کو آسانی کے ساتھ کھا لیتی ہے ۔یہ عبارت ”ابن عباس “سے مشہور ہے کہ جب ان سے سوال ہوا کہ قریش کو ”قریش “کیوں کہتے ہیں ؟تو انہوں نے یہ جواب دیا :”لدابةتکون فی البحر من اعظم دوابہ یقال لھا القریش ،لا تمر بشیء من الغث والسمین الااکلتہ،!:
”یہ اس وجہ سے ہے کہ یہ سمندر کے ایک بہت بڑے جانور کا نام ہے ،وہ جس دبلے یا موٹے جانور کے پاس سے گزر تا ہے اسے کھا جاتا ہے ۔“
اس کے بعد وہ اپنی بات کے ثبوت میں اشعار عرب سے شہاد ت پیش کرتے ہیں ۔
اس بناء پر اس قبیلہ کے لیے اس نام کا انتخاب ،اس قبیلہ کی قدرت و قوت اور اس قدرت سے غلط فائدہ اٹھا نے کی وجہ سے ہوا ۔
لیکن بعض نے اسے ”قریش “(بر وزن فرش)کے مادہ سے اکتساب کے معنی میں لیا ہے ،کیونکہ عام طور پر یہ قبیلہ تجارت اور کسب میں مشغول رہتا تھا ۔بعض اس مادہ کو خبر گیری اور دیکھ بھال کرنے کے معنی میں جانتے ہیں او رچو نکہ قریش حاجیوں کے حالات کی خبر گیری کرتے تھے ،اور بعض اوقات ان کی مدد کرتے تھے ،اس لیے یہ لفظ ان کے لیے منتخب ہوا ۔
”قریش“لغت میں اجتماع کے معنی میں آیا ہے کیونکہ یہ قبیلہ ایک خاص قسم کی تنظیم اور اجتماع رکھتا تھا ،اس لیے یہ نام ان کے لیے انتخاب ہو ا۔
لیکن بہر حال موجودہ زما نہ میں قریش کسی اچھے مفہوم میں استعمال نہیں ہوتا ،اور با وجود اس کے کہ وہ پیغمبر اکرم کا قبیلہ تھا ،اسلام کا سخت ترین دشمن شمار ہوتا تھا جو کسی قسم کی عہد شکنی،عداوت اور دشمنی سے نہیں چو کتا تھا ۔یہاں تک کہ جب ان کی قدرت و طاقت اسلام کی کامیابی کی وجہ سے دم توڑ گئی تو پھر بھی انہوں نے مخفی سا زشوں کو جاری رکھا اور پیغمبر اکرم کی رحلت کے بعد بھی انہوں نے ایسے درد ناک حوادث پیدا کیے جنہیں تاریخ اسلام کبھی فرا موش نہیں کرے گی ۔ہم جانتے ہیں کہ ”بنی امیہ “اور”بنی عباس “جو طاغوتی حکومت کا اعلیٰ ترین نمونہ تھے ،قریش میںسے ہی اٹھے تھے ۔
قرائن بھی اس بات کی نشان دہی کرتے ہیں کہ وہ عربوں کے زمانہ جاہلیت میں بھی لوگوں کے استشمار و استعمار کی کو شش میں لگے رہتے تھے اور اسی وجہ سے جب آزادی بخش اسلام نے طلوع کیا اوران کے ناجائز منا فع خطرے میں پڑ گئے تو وہ پوری طاقت کے ساتھ مبارزہ کے لیے کھڑے ہو گئے ۔لیکن اسلام کی عظیم قدرت نے انہیں درہم و برہم کر دیا ۔
بعدو الی آیت میں مزید کہتا ہے :”ہدف اور مقصد یہ تھا کہ خدا قریش کو سردیوں اور گر میوں کے سفروں سے الفت بخشے ۔“(ایلافھم رحلةالشتاء والصیف ) 2 ، ۔3
ممکن ہے کہ اس سر زمین مقدس سے قریش کو الفت بخشنا مراد ہو ،تا کہ وہ گرمیوں اور سر دیوں کے طویل سفروں میں اس مقدس مر کز سے اپنا تعلق اور لگاؤ دل سے نہ بھلائیں اور ا س کی سلامتی کی وجہ سے اس کی طرف لوٹ آئیں ۔کہیں ایسا نہ ہو کہ سر زمین یمن اور شام کی زندگی کی آسا ئشوں سے متاثر ہو کر مکہ کو خالی چھوڑ دیں ۔یا اس سے ان دو عظیم سفروں میں قریش اور دوسرے لوگوں کے درمیان الفت پیدا کرنا مراد ہے ،کیو نکہ ابرھہ کی داستان کے بعد لوگ انہیں دوسری نظر سے دیکھتے تھے اور قریش کے قافلہ کے احترام و اہمیت کے قائل تھے ۔
قریش کو اس طویل سفر میں بھی امن کی ضرورت تھی اور سر زمین مکہ کے لیے بھی ،اور خدا نے ابرھہ کے لشکر کی شکست کے نتیجہ میں یہ دونوں سلامتیاں انہیںبخش دی تھیں ۔
ہمیں معلوم ہے کہ ”مکہ “کی زمین میں نہ تو کوئی باغ تھا اور نہ ہی کوئی کھیتی باڑی ہوتی تھی ۔جانوروں کی دیکھ بھال بھی ان کی محدود تھی ،ان کی در آمد زیادہ تر انہیں تجارتی قافلوں کے ذر یعے پوری ہوتی تھی ۔وہ سردی کے موسم میںجنوب یعنی سر زمین یمن کی طرف ۔جس کا موسم نسبتا گرم ہوتا ہے ۔رخ کر تے تھے اور گرمی کے موسم میں شمال اور سر زمین کی طرف ۔جس کی ہوا اور موسم خو شگوار ہوتا تھا ۔اور اتفاق کی بات یہ ہے کہ سر زمین یمن بھی اور سر زمین شام بھی ،اس زمانہ میں اہم تجارتی مرا کز تھے ۔اور مکہ اور مدینہ ان دونوں کے در میان حلقئہ اتصالی شمار ہوتے تھے ۔
البتہ قریش ان غلط کاریوں کی وجہ سے ،جو وہ انجام دیتے تھے ،خدا کے ان الطاف و محبت کے مستحق تو نہ تھے ۔لیکن چو نکہ یہ مقدر ہو چکا تھا کہ اس قبیلہ اور اس سر زمین مقدس سے اسلام اور پیغمبر اسلام کا طلوع ہو ،لہٰذا خدا نے ان پر یہ لطف فر مایا ۔
بعد والی آیت میں یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ قریش کو ان سب خدائی نعمتوں کی وجہ سے جو انہیں کعبہ کی بر کت سے حاصل ہوئی تھیں ”اس گھر کے پروردگار کی عبادت کرنا چا ہیئے نہ کہ بتوں کی ۔“(فلیعبدوارب ھٰذاالبیت
”وہی خدا جس نے انہیں بھوک سے نجات بخشی اور کھانا دیا ،اور بے امنی سے رہائی بخشی اور امن دیا ۔“(الذی اطعمھم من جوع و امنھم من خوف
ایک طرف تو انہیں تجارت میں فروغ عطا کیا اور انہیں فائدہ پہنچایا اور دوسری طرف بد امنی کو ان سے دور کر دیا اور دفع ضرر کیا ۔اور یہ سب کچھ ابرھہ کے لشکر کی شکست سے فراہم ہوا اور حقیقت میں یہ کعبہ کے بانی ابرا ہیم علیہ اسلام کی دعا کی قبو لیت تھی ۔لیکن انہوں نے اس نعمت کی قدر نہ کی ۔اس مقدس گھر کو ایک بت خانہ میں تبدیل کر دیا ،بتوں کی عبادت کو اس گھر کے خدا کی عبادت پر تر جیح دی اور انجام کار ان تمام نا شکر یوں کا انجام بد دیکھا ۔
خدا وندا!ہمیں عبادت و بندگی اور نعمتوں کا شکر ادا کرنے اور اس عظیم گھر کی حفا ظت ،پاسداری اور احترام کرنے کی تو فیق مر حمت فر ما ۔
پرور دگار ا!اس عظیم اسلامی مرکز کو روز بروز زیادہ پر شکوہ ،اور دنیا جہان کے مسلمانوں کے لیے حلقئہ اتصال قرار دے ۔
بار الٰہا!سارے خو نخوار دشمنوں اور ان لوگو ں کے جو اس عظیم مر کز سے فائدہ اُٹھاتے ہیں ،ہا تھ کاٹ دے ۔


آمین یارب العالمین


 

۱۔”لا یلاف “میں ”لام “ علت کے معنی میں ہے اور ”جار دمجرور“”جعل “سے متعلق ہے ،جو گز شتہ سورہ کی آیہ ”فجعلھم کعصف ماٴ کول “میں ،یا کسی اور دوسرے فعل کے جو اس سورہ میں تھا ۔بعض نے اس جارومجرور کو فلیعبدوا کے جملہ سے متعلق سمجھا ہے ، جو بعد والی آیات میںآیا ہے ۔لیکن یہ احتمال آیات کے مفہوم کے ساتھ چنداں ساز گار نہیں ہے اور پہلا معنی بہتر ہے ۔
2۔”ایلافھم “اس ”ایلاف “کا بدل ہے جو گزشتہ آیت میں آیاہے ،اور ”ھم “کی ضمیر پہلا مفعول ہے ۔اور ”رحلةالشتاء“دوسرا مفعول ہے اور بعض کے نظریے کے مطابق ظر فیت کے معنی میں ہے ۔اور ممکن ہے کہ وہ ”منصوب بنذع خافض“ہو، اور تقدیر میں اس طرح ہو ”ایلافھم من رحلة الشتاء والصیف “(دوسرا اور تیسر امعنی زیادہ مناسب نظر آتا ہے ۔)
3۔”رحلة“در اصل ”رحل “(بر وزن شہر )سے ،اس پردہ کے معنی میں ہے جو سوار ہونے کے لیے ڈالتے ہیں ۔اسی مناسبت سے ،خود اونٹ پر یا ان مسافرتوں پر جو اُونٹ یا دوسرے ذرائع سے ہوتی ہیں ،پربھی اس کا اطلاق ہوتا ہے ۔
4۔ بعض مفسرین نے اس آیت کو دو آیات سمجھا ہے ،اور اس سورہ کی آیات کو پانچ آیات شمار کیا ہے ،لیکن مشہور و معروف یہ ہے کہ یہ ایک آیت ہے ،اور اس سورہ کی چار ہی آیات ہیں ۔
اس سورہ کی تلاوت کی فضیلتسورئہ الماعون
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma