اس دن معلوم ہو گاکہ ہم کتنے پانی میں ہیں ۔

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونه جلد 27
۱۔ لڑکیوں کو زندہ در گور کرنا ۱۔نظم آیات

اس بحث کے بعد کہ جو گذشتہ آیتوں میں قیامت کے مرحلے یعنی اس جہان کی ویرانی کے موضوع پر آئی تھی زیر بحث آیتوں میںاس کے دوسرے مرحلہ یعنی دوسرے عالم کے ظہور اورنامہ ٴاعمال کی طرف اشارہ کر کے فرماتا ہے : ” جس روز اعمال نامہ کھول دئے جائیں گے “ ( و اذاالصحف نشرت) ۔ ” صحف “ صحیفہ کی جمع ہے ۔ یہ اس چیز کے معنوں میں ہے جو صفحہ رخ کی طرح وسیع ہو ۔ اس کا اطلاق ان تختیوں اور کاغذوں پر ہوا ہے جن پر کچھ مطالب لکھتے ہیں ۔ قیامت میں اعمال ناموں کے کھلنے سے مراد یہ ہے کہ جنہوں نے وہ عمال انجام دئے ہیں ان کے سامنے اعمال ظاہر ہو جائیں گے تاکہ وہ اپنا حساب کتاب دیکھ لیں جیسا کہ سورہٴ اسراء کی آیت چار میں آیاہے : ( اقراء کتابک کفیٰ بنفسک الیوم علیک حسیباً) اور ان اعمال ناموںکا دوسروں کے سامنے واضح ہونا بھی نیکو کاروںکے لئے ایک  تشویق کا عنوان ہے اور بد کاروںکے لئے تشویق و سزا و رنج اور تکلیف ہے۔ اس کے بعد مزید فرماتاہے :”اور جس وقت آسمان کے سامنے سے پر دہ ہٹا دیا جائے گا “۔ ( و اذا السماء کشطت) ۔ ”کشطت“ ( بر وزن کشف) کے مادہ سے اصل میں ، جیسا کہ راغب مفردات میں کہتا ہے ، جانور کی کھال اتار نے کے معنی میں ہے اور ابن منظور کے بقول ” لسان العرب “ میں کسی چیز کے رخ سے پردہ ہٹا نے کے معنی میں بھی آیاہے ، لہٰذا جس وقت بادل ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں تو یہ تعبیر استعمال ہوتی ہے ۔
زیربحث آیت میں اس سے مرادیہ ہے کہ وہ پر دے جو اس دنیا میں عالم مادہ اور عالم بالا پر پڑے ہو ئے ہیں یعنی لوگ فرشتوں کو یادوزخ و جنت کو نہیں دیکھ سکتے ، وہ ہٹ جائیں گے اور انسان علم ہستی کے حقائق کو دیکھ سکیںگے ۔ جیساکہ بعد والی آیت میں آئے گا کہ جہنم شعلہ ور ہوگا اور جنت انسانوںکے نزدیک ہو جائے گی جی ہاں قیامت کا دن یوم البروزہے ۔ چیزوں کی ہیٴت اس دن آشکار ہو جائے گی اور آسمان کے چہرے سے پردہ ہٹ جائے گا ۔  اس تفسیرکے مطابق و مندرجہ بالا آیت قیامت کے دوسرے مرحلہ کے حوادث یعنی انسانوں کی حیات تازہ کے مراحل کی گفتگو کرتی ہے ۔ قبل و بعد کی آیات بھی انہی چیزوںکے حامل ہیں اور یہ بہت سے مفسرین اس آیت کو آسمانوںکے لپیٹے جانے اور قیامت کے پہلے مرحلہ یعنی اس عالم کی فنا سے متعلق سمجھا ہے ، یہ بہت بعید نظر آتاہے اور نہ یہ مفہوم قبل و بعد کی آیت کے ساتھ ہم آہنگ ہے ، اس لئے بعد والی آیات میں مزید فرماتاہے ” اور جس وقت جہنم شعلہ ور ہو گا “ ( و اذاالجحیم سعرت) ۔)و ان جہنم لمحیطة بالکافرین)۔ ” بیشک دوزخ کافروں کا احاطہ کئے ہو ئے ہے “ ( توبہ/ ۴۹)
کے مطابق جہنم اب بھی موجود ہے لیکن اس دنیا کے حجابات اس کے مشاہدہ کی راہ میں حائل ہیں ۔ جیسا کہ بہت سی آیات قرآنی کے مطابق جنت بھی ان پر ہیز گاروںکے لئے تیار ہے ۔ اسی بناء پر بعد والی آیت میں فرماتا ہے :” اور جس وقت جنت ہیز گاروںکے نزدیک کر دی جائے گی “ ( و اذاالجنة ازلفت) ۔ یہی معنی سورہٴ شعراء کی آیت ۹۰ میں بھی اس فرق کے ساتھ آئے ہیں کہ یہاں متقین کے نام کی تصریح نہیں ہو ئی ۔ ”ازلفت“ ۔ ” زلف“( بر وزن حرف) اور ”زلفیٰ “ ( بر وزن کبریٰ) کے مادہ سے نز دیکی کے معنوںمیں ہے ہو سکتا ہے اس سے مراد قرب مکانی ہو یا قرب زمانی یا اسباب و مقدمات کے لحاظ سے یا پھر یہ سب امور ہوں یعنی جنت مکان کے لحاظ سے بھی مومنین کے نزدیک ہوجائے گی اور زمانِ ورود کے اعتبار سے بھی اور اس کے اسباب و علل بھی وہاں سہل و آسان ہوں گے ۔ قابل توجہ یہ ہے کہ یہ نہیں فرماتاکہ نیکو کار جنت کے نزدیک ہو جائیں گے بلکہ فرماتا ہے جنت کو ان کے نزدیک کردیں گے اور یہ بہت ہی محترم تعبیر ہے جو اس سلسلہ میں ممکن ہے ۔ جیسا کہ ہم نے کہا ہے جنت اور جہنم دونوں اس وقت موجود ہیں لیکن اس دن جنت زیادہ تر نزدیک اور دوزخ ہر زمانہ کی نسبت زیادہ بھڑک رہا ہوگا۔آخری زیر بحث آیت میں جو فی الحقیقت تمام گذشتہ آیتوں کی تکمیل کرتی ہے اور تمام شرطیہ جملوںکی جزا ہے جو گذشتہ بارہ آیتوںمیں آئے ہیں ، فرماتا ہے :” اس وقت ہر شخص جان لے گا کہ اس نے کیا کچھ حاضر کیا ہے “ ( علمت نفس مااحضرت)۔ اور تعبیر اچھی طرح بتا تی ہے کہ انسان کے تما م اعمال وہاں حاضر ہو گے اور وہاں انسان کا علم مشاہدہ لئے ہوگا ۔ یہ حقیقت قرآن کی متعدد آیات میں آئی ہے ۔ سورہٴ کہف کی آیت ۴۹ میں ہم پڑھتے ہیں ( و وجدوا ما عملوا حاضراً) ” جو کچھ انہوں نے اعمال کئے ہیں وہ اسے حاضرپائیں گے “۔ اور سورہٴ زلزال کی آخری آیات میں آیاہے : ( فمن یعمل مثقال ذرةٍ خیراً یرہ و من یعمل مثقال ذرة شراً یرہ)جس شخص نے ذرہ برابر نیک عمل کیا ہو گا وہ اسے دیکھے گا اور جس شخص نے ذرہ برابر برائی کی ہوگی وہ اسے دیکھے گا ۔ یہ آیت بھی اعمال کی تجسیم کو بیان کرتی ہے اور یہ کہ انسانوںکے اعمال جو اس جہاں میں بظاہر نابود ہو جاتے ہیں ، وہ حقیقتاً نابود نہیں ہوتے ۔ اس دن مناسب شکلوں اور صورتوں میں مجسم ہو گے اور عرصہٴ محشر میں حاضر ہو گے ۔

 

۱۔ لڑکیوں کو زندہ در گور کرنا ۱۔نظم آیات
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma