کم تولنے والوں پر وائے ہے

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونه جلد 27
اس سورہ کی تلاوت کی فضیلت کم تولنا فساد فی الارض کا ایک سبب ہے

ان آیات میں ہر چیز سے پہلے کم تولنے والوں کو شدید عذاب کا مستحق ٹھہرا کر فرماتا ہے :” وائے ہے کم تولنے والوں پر “ ( ویل للمطففین )۔ یہ حقیقت میں خدا کی جانب سے ان ظالم ، ستمگر اور گندے لوگوں کے خلاف اعلان جنگ ہے جو بز دلوں کی طرح لوگوں کا حق پامال کرتے ہیں ۔
مطففین “ ۔ ” تطفیف“ کے مادہ سے اصل میں ” طف“ سے لیا گیا ہے جوکسی چیز کے کناروں کے معنی میں ہے اور یہ جو سر زمین کربلا کو وادیِ طف کہتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ فرات کے کنارے پر واقع ہے ۔
اس کے بعد ہرکم چیز پر طفیف کا اطلاق ہوتاہے ۔ اسی طرح وہ پیمانہ جولبریز نہ ہو ، وہاں بھی یہی لفظ بولا جاتا ہے ۔
اس کے بعد یہ لفظ کم تولنے کےلئے استعمال ہوا ہے خواہ وہ کسی شکل و صورت کا ہو ۔
” ویل “ یہاں شر، و غم اندوہ ، ہلاکت یا دردناک عذاب یا جہنم کی سخت جلانے والی وادی کے معنوں میں ہے عام طور پر یہ لفظ نفرین کرنے اور کسی چیز کی قباحت کو بیان کرنے کے لئے استعمال ہوتاہے ، یا یہ کہ ایک مختصر سی تعبیر ہے جو بہت سے مفاہیم کو چاہتی ہے ۔
قابل توجہ یہ ہے کہ ایک روایت میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ خد انے لفظ ویل قرآن میں کسی شخص کے لئے استعمال نہیں کیا مگر یہ کہ اس کو کافر کہا ہے ( فویل للذین کفروا من مشھد یوم عظیم)
”وائے ہے کافروں پر عظیم دن کے مشاہدہ سے “۱ ( مریم ۔ ۳۷)
اس روایت سے معلوم ہوتاہے کہ کم تولنے سے کفر کی بو آتی ہے ۔ اس کے بعدمطففین یعنی کم تولنے والوں کے کام کی تشریح کرتے ہوئے فرماتاہے :” وہ ایسے لوگ ہیں جو اپنے لئے تولتے ہیں تو اپنا حق مکمل طور پر وصول کرتے ہیں “ ( و الذین اذااکتالوا علی الناس یستوفون )۔ ۲
لیکن جب وہ چاہتے ہیں کہ دوسروں کے لئے تولیں تو کم تولتے ہیں ( و اذاکالوھم او وزنوھم یخسرون
مفسرین کی ایک جماعت نے مندرجہ بالا آیات سے اس طرح استفادہ کیا ہے کہ مطفف سے مرادہ وہ شخص ہے جو خریدتے وقت اپناحق زیادہ لیتاہے اور بیچتے وقت مقابل کو اس کے حق سے کم دیتاہے ۔
اسی لئے خدا نے دونوں پہلووٴں کے پیش نظر ان پر ویل رکھی ہے ۔
لیکن یہ ایک اشارہ ہے اور غلط ہے کیونکہ ” یستوفون “ کا مفہوم یہ ہے کہ اپنا حق مکمل طو رپر وصول کرتے ہیں اور ایسا پہلو جس میں اپنے حق سے زیادہ لینے کی بات ہو اس عبارت میں موجود نہیں ہے اور یہ جو ہم دیکھ رہے ہیں کہ خد انے ان کی مذمت کی ہے ان دو حالتوں کے ایک دوسرے سے تقابل کی شکل میں ہے کہ خرید تے وقت پورا پورا حق لیتے ہیں اور بیچتے وقت کمی کرتے ہیں ۔
یہ بالکل اسی طرح ہے جس طرح ہم کسی کی مذمت میں کہتے ہیں ” جب کسی سے اس کو کوئی چیز لینی ہوتی ہے تو وعدہ کے مطابق (جو وقت مقرر ہو عین اسی وقت ) لیتا ہے لیکن کسی کو کچھ دینا ہو تو مہینوں تاخیر کرتا ہے “۔ حالانکہ اپنی طلب کا وعدہ کے مطابق لینا کوئی بری با ت نہیں ہے ، لیکن ان دونوں کے تقابل کا جائزہ لینے کے نتیجے میں بری بات ہے ۔
قابل توجہ با ت یہ ہے کہ حق لینے کے معاملہ میں گفتگو کیل کے بارے میں ہے لیکن دینے کے معاملہ میں گفتگو کیل و وزن دونوں کے حوالے سے ہے ۔ تعبیر کا یہ فرق ہوسکتا ہے کہ ، ذیل کی دو وجوہ میں سے کسی ایک کی بناپر ہو :۔
پہلی وجہ یہ کہ خرید ار عام طور پر پہلے زمانے میں کیل سے استفادہ کرتے تھے اس لئے کہ بڑی ترازو جو زیادہ وزن تول سکے اس زمانے میں موجود لیکن بڑے پیمانہ آسانی سے مل سکتے تھے ۔
(”کر“ کے بارے میں بھی علماء نے کہا کہ یہ لفظ اصل میں ایک بڑے پیمانہ کا نام ہے ) بیچتے وقت وہ تھوک کا کا روبار کیل سے کرتے تھے اور وزن کے ذریعہ خوردہ فروشی کرتے تھے ۔
دوسرے یہ حق لینے کے وقت پیمانے سے زیادہ استفادہ مناسب ہے کیونکہ اس میںدھوکہ کا امکان بہت کم ہے ، لیکن کم تولنے کے لئے وزن کا ذریعہ زیادہ مفید ہوتا ہے اس لئے کہ اس میں دھوکہ دینے کا امکان زیادہ ہوتا ہے ۔
یہ نکتہ بھی قابل توجہ ہے کہ مندرجہ بالاآیات اگرچہ صرف کیل و وزن کے حوالے سے کم تولنے کی بات کرتی ہیں لیکن اس میں شک نہیں کہ آیت کا مفہوم وسیع ہے اور اس کا اطلاق کم تولنے کے سلسلہ میں ان چیزوں پر بھی ہے جن کا لین دین گن کرہوتاہے ۔ بلکہ یہ بھی بعید نہیں کہ آیت اپنے مفہوم کی گہرائی کے اعتبار سے موعودہ خد مت میںکمی کرنے کوبھی اپنے دامن میں سمیٹ لے ۔
مثال کے طور پر کوئی کاریگر یامزدور اپنا کام صحیح طو رپرمکمل نہیں کرتا تو وہ بھی مطففین کا مصداق ہے یعنی کم تولنے والوں کی صف میںہے ، جن کی یہ آیتیں سختی سے مذمت کررہی ہیں ۔
بعض مفسرین اس آیت کو اور زیادہ وسیع معانی کا حامل سمجھتے ہیں اور حدود خدا وندی سے ہر قسم کا تجاوز اور اجتماعی و اخلاقی روابط میں کمی کو بھی اس کے مفہوم میں شامل سمجھتے ہیں ۔ اگر چہ اس آیت کے الفاظ سے ان معانی کا استفادہ واضح نہیں ہے ، لیکن غیر مناسب بھی نہیں ہے ۔
اس لئے مشہور صحابی رسول عبد اللہ بن مسعود سے منقول ہے کہ نماز میں ایک معقول پیمانہ ہے جو شخص اس کا کیل مکمل طو ر پر ادا کرے تو خدا ا س کا اجر مکمل دے گا اور جو شخص اس میں کمی کرے تو اس کے بارے میں وہی کچھ جاری ہوگا جو خدا نے مطففین یعنی کم تولنے والوں کے بارے میں فرمایاہے ۔ 3
اس کے بعدپروردگار عالم ایسے لوگوں کو تنبیہ یعنی استفہام ِ تو بیخی کے ذریعہ متنبہ کرتے ہوئے فرماتا ہے :
” کیا وہ باور نہیں کرتے کہ قبروں سے اٹھائے جائیں “( الا یظن اولٰئک انھم مبعوثون
”عظیم دن “ ( لیوم عظیم)۔ وہ دن جس کا حساب عذاب اور اس کی ہولناکی اور سب عظیم ہیں ۔ ” وہ دن جب لوگ قبروں سے اٹھیں گے اور رب العالمین کے بارہ گاہ میں حاضر ہو ںگے “۔ ( یوم یقوم الناس لرب العالمین
یعنی وہ اگر قیامت کو باور کرتے اور جانتے کہ حساب کتاب ہو نا ہے اور تمام اعمال ایک عظیم عدالت میں محاکمہ کے لئے پیش ہوںگے جس شخص نے سوئی کی نوک کے برابراچھا یا برا کام کیا ہے اس کا نتیجہ وہ اس عظیم دن دیکھے گا ، پھر وہ کبھی اس قسم کا ظلم و ستم نہ کرتے اور لوگوںکے حقوق پامال نہ کرتے ۔ بہت سے مفسرین ” لظن“ کو جو ظن کے مادہ سے ہے یہاں یقین کے معنی میں سمجھتے ہیں ۔ اس تعبیر نظیر قرآن مجید میںموجود ہے ۔مثلا ً سورہ بقرہ کی آیت ۲۴۹( قال الذین یظنون انھم ملاقوا اللہ کم من فئة قلیلة غلبت فئة کثیرةً باذن اللہ) جو مانتے تھے کہ خدا سے ملاقات کریں گے ( اور وہ قیامت کے دن پر بھروسہ رکھتے تھے ) ”انہوں نے کہاکہ چھوٹے گروہ تھے جو حکم خدا سے بڑے گروہ کے مقابلہ میں کامیاب ہوئے “ ( توجہ رکھیں کہ یہ آیت بنی اسرائیل کے ایک گروہ کے بارے میں ہے جس نے ایمان و استقامت کا مختلف مراحل میں مظاہرہ کیا تھا ۔
اس بات کی شاہد و ناطق وہ حدیث ہے جو امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ نے آیہ ( الایظن اولٰئک انھم مبعوثون لیوم عظیم ) کی تفسیر میں فرمایا کہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ ( الیس یوقنون انھم مبعوثون)؟ کیا انھیں یقین نہیں ہے کہ وہ قبروں سے اٹھیں گے ؟4
انہی حضرت سے منقول ہے کہ آپ  نے فرمایا کہ ظن کی دو قسمیں ہیں ، ظن تردید اور ظن یقین ۔ جو قرآن میں معاد اور قیامت کے بارے میں آیاہے وہ ظن یقین ہے اور جو کچھ دنیا کے بارے میں آیا ہے وہ ظن ِ شک ہے ۔ 5
ایک جماعت کی طرف سے یہ احتمال بھی پیش کیا گیا ہے کہ ظن سے یہاںمراد موجودہ دور کے مشہور معانی گمان کئے گئے ہیں جو اس طرف اشارہ ہے کہ انسان کی جان او ر روح میں قیامت کی طرف توجہ کرنا اس طرح اثر کرتاہے کہ اگر کوئی شخص اس کا گمان بھی کرتاہو اور اس کو ایک دن کا احتما ل بھی ہو تو وہ برے کاموں سے اجتناب کرے چہ جائیکہ اس کا یقین رکھتا ہو۔ یہ وہی چیز ہے جو علماء کے درمیان دفع غرر مظنون یا دفع ضرر محتمل کے عنوان سے مشہور ہے ۔
اب اس بات کا مفہوم یہ ہوگا کہ یہ بے پروا ہ اور بے باک گناہگار نہ صرف یہ کہ قیامت کا یقین نہیں رکھتے ، بلکہ س کا گمان بھی نہیں رکھتے ،لیکن پہلی تفسیر ، ان وجوہ کی بناپر ، جو بیان کی گئی ہیں مقدم ہے ۔
اہم بات یہ ہے کہ لفظ ظن راغب کے مفردات کی رو سے اصل میں اس حالت کا نام ہے جو چند قرائن کے ہونے کی وجہ سے فکر انسانی کو حاصل ہوتی ہے اگر نشانیاں قوی ہوں تو علم و یقین لے آتی ہے اور اگر نشانیاں کمزور ہوں تو پھر وہ گمنا م کی حد سے آگے نہیں بڑھتی ۔ 6
اس بناپر مذکورہ لفظ ، ا س کے برخلاف جو ہمارے زمانہ میں مشہور ہے ، وسیع ،مفہوم رکھتا ہے جس میں علم اور گمان دونوں شامل ہیں اور دونوں کے لئے استعمال ہوتاہے ۔


۱۔ اصول کافی مطابق نقل نو رالثقلین ، جلد۵ ، ص۵۲۷۔
۲۔ یہاں علی الناس کی تعبیر اس طرف اشارہ ہے کہ لوگوں پر وہ کوئی حق رکھتے ہیں اور تقدیر اذا کالوا ما علی الناس تھی اور اصولاً ”کال علیہ“ وہاں کہا جاتاہے جہاں کیل کا مقصد حق لینا ہوتاہے باقی رہا ”کالہ“ اور” کال لہ“ اس جگہ سے مربوط ہے جہاں
3.مجمع البیان جلد 10 صقحه 252
4۔ تفسیر بر ہان ، جلد ۴ ، ص ۳۸۔
5۔ نو ر الثقلین ، جلد ۵، ص۵۲۸۔
6۔ مفردات، مادہ ظن۔
 

 

اس سورہ کی تلاوت کی فضیلت کم تولنا فساد فی الارض کا ایک سبب ہے
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma