۲۔ مال جمع کرنے کی حرص

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونه جلد 27
۱۔ کبر و غرور بڑے برے گناہوں کا سرچشمہ ہے  سورہ ٴ فیل

مال و دولت کے بارے میں افراط و تفریط کے لحاظ سے مختلف نظریے پائے جاتے ہیں ۔ بعض لوگ تو اس کو اتنی جلدی اہمیت دیتے ہیں کہ اسے تمام مشکلات کا حل سمجھتے ہیں ۔ یہاں تک کہ وہ اس نظریے کے طرف داروں نے اپنے اشعار میں اس سلسلہ میں خوب دادِ سخن دی ہے ، منجملہ ایک شاعر عرب کہتا ہے:
فصا حة سحبان و خط ابن مقلة وحکمة لقمان و زہد بن ادھم
اذا اجتمعت فی المرء و المرء مفلس فلیس لہ قدر بمقدار درھم
” ( عرب کے معروف فصیح) “ سحبان کی فصاحت “ اور معروف خطاط) ” ابنِ مقلہ کا خط اور ” لقمان “ کی حکمت اور ” ابراہیم بن ادہم “ کا زہد اگر کسی انسان میں جمع ہو جائے اور مفلس و نادار ہو، تو اس کی قدر و قیمت ایک درہم کے برا بر بھی نہیں ہوگی“ !
لہٰذا اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں ہے اگر یہ گروہ ہمیشہ مال جمع کرنے میں مشغول رہے اور ایک آن کے لیے بھی راحت و آرام سے نہ بیٹھے اور اس کے لیے کسی بھی قید و شرط کا قائل نہ ہو اور حلا ل و حرام ان کی نظر میں یکساں ہو جائے۔
اس گروہ کے نقطہٴ مقابل میں وہ گروہ ہے جو مال و دولت کے لیے کم سے کم قدر و قیمت کا بھی قائل نہیں ہے ۔ وہ فقر و فاقہ کی تعریف کرتا ہے اور اس کی عظمت و بلندی کا قائل ہے، یہاں تک کہ وہ مال کو تقویٰ اور قرب ِ خدا میں مزاحم سمجھتے ہیں ۔ لیکن دونوں نظر یات کے مقابلہ میں (جو افراط و تفریط رکھتے ہیں ) قرآن مجید اور اسلامی روایات سے جو کچھ معلوم ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ مال اچھی چیز ہے ، لیکن چند شرائط کے ساتھ :
پہلی شرط یہ ہے کہ وہ ذریعہ اوروسیلہ ہو نہ کہ ہدف اور مقصد۔
دوسری شرط یہ ہے کہ وہ انسان کو اپنا ” اسیر“ نہ بنائے بلکہ انسان اس کا ” امیر “ ہو ۔
تیسری شرط یہ ہے کہ اسے مشروع اور حلال طریقہ سے حاصل کیا جائے اور وہ رضائے خدا کے لیے صَرف ہو۔
اس قسم کے مال سے محبت نہ صرف یہ کہ وہ دنیا پرستی نہیں ہے ، بلکہ آخرت سے محبت کی ایک دلیل ہے ۔ اسی لیے ایک حدیث میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے آیا ہے :
” جس وقت آپ نے ذہب و فضہ( سونا چاندی) پر لعنت کی، تو آپ کے ایک صحابی نے تعجب کیا، اور اس بارے میں سوال کیا تو امام علیہ السلام نے فرمایا: ” لیس حیث تذھب الیہ انما الذہب الذی ذہب بالدین و الفضة الّتی افاضت الکفر“:” (ذہب) سونے سے مراد وہ چیز ہے جو دین کو ختم کردے اور فضہ ( چاندی) سے مراد وہ چیز ہے جو کفر و بے ایمانی کا سر چشمہ بنے“ ۔ ۱
ایک اور حدیث میں حضرت امیر المومنین علیہ السلام سے آیا ہے :
السکر اربع سکرات سکر الشراب و سکر المال ، و سکر النوم ، و سکر الملک“۔
” نشہ اور مستی چار قسم کی ہوتی ہے : ۱۔ شراب کی مستی ۔ ۲۔ مال کی مستی۔ ۳۔ نیند کی مستی ۔ ۴۔ اقتدار کی مستی ۔2
ایک اور حدیث میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے آیا ہے کہ ایک شخص آپ کی خدمت میں آیا اور عرض کیا، میرے ماں باپ آپ پر قربان ، مجھے کچھ وعظ و نصیحت فرمائیے، تو آپ نے فرمایا:
ان کان الحسنات حقاًفالجمع لماذا وان کان الخلف من اللہ عز و جل حقاً فالبخل لماذا؟! “:
”اگر حسنات حق ہیں اور ہم ان پر ایمان رکھتے ہیں تو پھر مال کا جمع کرنا کس لیے؟ ( کیوں اسے راہ خدا میں خرچ نہ کریں ) اور اگر بدلہ دینا اور تلافی کرنا اللہ کی طرف سے حق ہے ، تو بخل کس لیے؟ ۔ 3
بہت سے لوگ ایسے ہیں جو آخر عمر تک مال جمع کرنے میں لگے رہتے ہیں اور انجام کار دوسروں کے لیے چھو ڑجاتے ہیں ۔ ان کا حساب تو انہیں دینا پڑے گا اور اس سے فائدہ دوسرے لوگ اٹھائیں گے۔ اسی لیے ایک حدیث میں آیا ہے کہ لوگوں نے امیر المومنین علی علیہ السلام سے سوال کیا ، من اعظم الناس حسرة ؟ : لوگوں میں سب سے زیادہ حسرت و ندامت کس کو ہوگی؟
آپ  نے فرمایا:
من راٴی مالہ فی المیازن غیرہ و ادخلہ اللہ بہ النار و ادخل وارثہ بہ الجنة
وہ شخص جو اپنے اموال کو دوسروں کے اعمال میں تولنے کی ترازوں میں دیکھے، خدا اسے تو اس کے اموال کی وجہ سے دوزخ میں داخل کرے، اور اس کے وارث کو اس کی وجہ سے جنت میں داخل کرے“۔ 4
ایک اور حدیث میں آیا ہے کہ آپ نے آیہ” کذالک یرھم اللہ اعمالھم حسرات علیھم“ :( اسی طرح سے خدا ان کے اعمال کو ان کے لیے حسرت بنادے گا) کی تفسیر میں فرمایا:
ھو الرجل یدع المال لا ینفقہ فی طاعة اللہ بخلا ثُم یموت فیدعہ لمن یعمل بہ فی طاعة اللہ او فی معصیہ“
” یہ اس شخص کے بارے میں ہے جو مال چھوڑ جاتا ہے اور بخل کی وجہ سے اسے راہ خدا میں خرچ کرتا۔ پھر مرجاتا ہے ، اور اسے ایسے شخص کے لیے چھوڑ جاتا ہے جو اسے اللہ کی طاعت یا اس کی معصیت میں خرچ کرتا ہے “۔
اس کے بعد امام نے مزید فرمایا:
” اگر وہ خدا کی اطاعت میں خرچ کرے گاتو وہ اسے دوسرے کی میزان عمل میں دیکھ کر حسرت کرے گا کیونکہ وہ مال تو اس کی ملکیت تھا ، اور اگر وہ خدا کی معصیت و نافرمانی میں صرف کرے گا ، تو وہ گناہ کرنے میں ا س کی تقویت کا سبب بنا( اس پر بھی اسے عقوبت اور حسرت ہو گی)۔ 5
ہاں ! انسان مال کو مختلف انداز میں استعمال کرتے ہیں ، کبھی تو اس سے ایک خطر ناک بت بنالیتے ہیں ، اور کبھی عظیم سعادت کا وسیلہ ۔
اس گفتگو کو ہم ” ابن عباسۻ سے منقول ایک پر معنی حدیث پر ختم کرتے ہیں ، وہ کہتے ہیں :
ان اول درھم و دینار ضربا فی الارض نظر الیھما ابلیس فلما عاینھما اخذھما فوضعھما علی عینیہ، ثم ضمھما علی صدرہ، ثم صرخ صرخة، ثم ضمھما الیٰ صدرہ، ثم قال : انتما قرة عینی! و ثمرة فوٴاد ماابالی من بنی اٰدم اذا احبوکما“ ان لایعبدوا و ثنا! حسبی من بنی آدم آدم ان یحبوا کما : 6
” جب دنیا میں درہم و دینار کا سب سے پہلا سکہ بنا یا گیا تو ابلیس نے ان پر نگاہ کی ، جب انہیں دیکھا تو اس نے ان دونوں کو اٹھالیا اور دونوں کو اپنی آنکھوں پر رکھا ، پھر انہیں سینہ سے لگا لیا ۔ پھر وہ والہانہ طور پر چیخا اور دوبارہ انہیں سینہ سے لگا لیا اور کہنے لگا: تم ( اے درہم و دینار)میری آنکھوں کی روشنی ہو، تم میرے دل کا میوہ ہو۔ اگر انسان تمہیں دوست بنالیں تو میرے لیے یہ بات کوئی اہمیت نہیں رکھتی کہ وہ بت پرستی نہ کریں ۔ بس میرے لیے یہی بات کافی ہے کہ وہ تم سے محبت کرنے لگیں ، ( کیونکہ تم سب بتوں سے بڑھ کر بت ہو)۔ 7
خدا وندا ! ہمیں مال و غضب ، دنیا و شہوت کی ہستی سے محفوظ فرما۔
پروردگارا ! ہمیں شیطان کے تسلط اور درہم و دینار کی بندگی سے رہائی عطا فرما۔
بارالٰہا ! جہنم کی آگ سخت توڑ نے والی ہے اور تیرے لطف و کرم کے بغیر اس سے نجات ممکن نہیں ہے ۔ ہمیں اپنے لطف کا مشمول قرار دے۔
آمین یا رب العالمین



۱۔ ” بحار الانوار“ جلد ۷۳ ص ۱۴۱ حدیث ۱۷۔
2۔ ” بحار الانوار“ جلد ۷۳ ص ۱۴۲۔
3۔ ” توحید صدوق“ مطابق نقل ” نور الثقلین“ جلد ۵ ص ۶۶۸ حدیث۸۔
4۔ ” بحار الانوار“ جلد ۷۳ ص ۱۴۲۔
5۔ ” بحار الانوار“ جلد ۷۳ ص ۱۴۲۔
6۔ ” بحار الانوار“ جلد ۷۳ ص ۱۴۲۔ٍ
7 ۔ ” بحار الانوار“ جلد ۷۳ ص ۱۳۷ حدیث ۳
۱۔ کبر و غرور بڑے برے گناہوں کا سرچشمہ ہے  سورہ ٴ فیل
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma