تم ہمیشہ دگر گوں ہوتے رہتے ہو

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونه جلد 27
وہ جو شرم و حیاکے باعث اپنانامہ اعمال پشت کی طرف سے لیں گے  سورہ بروج

اس بحث کے بعد جو گشتہ آیات میں خدا کی طرف سے انسان کی سیر تکامل کے بارے میں آئی تھی ان آیات میں ان مفہوم کی تاکید اور مزید توضیح کے لئے فرمایا ہے :
” قسم شفق کی “ ( فلا اقسم باشفق ) ۔ اور قسم ہے ان پراکندہ امور کی جنہیں وہ اکھٹا کرتی ہیں ( و اللیل وما وسق )۔ اور قسم ہے چاند کی جب وہ کامل ہوتا ہے اور چودھویں کے چاند کی صورت اختیار کرلیتا ہے ( و القمر اذا اتسق ) ، کہ تم سب ہمیشہ ایک حالت سے دوسری حالت کی طر ف منتقل ہوتے ہو ( لترکبن طبقاً عن طبق
فلا اقسم کے جملہ میں لا کا لفظ ، جیساکہ پہلے بھی ہم نے اشارہ کیا ہے ، زائدہ ہے اور تاکید کے لئے ہے ۔ اگر چہ بعض کا خیا ل ہے کہ نفی کے لئے ہو یعنی میں قسم نہیں کھاتا اس بناء پر کہ مفہوم عیاں ہے ۔ قسم کی ضرورت نہیں ہے ، یایہ کہ مطلب اس قدر اہم ہے کہ ان قسموں کی ضرورت نہیں ہے کہ ان کی قسم کھائی جائے ۔ لیکن پہلے معنی ( زائد اور تاکید کے لئے ہونا ) زیادہ مناسب ہےں ۔
” شفق “ مفردات میں راغب کے بقول دن کی روشنی رات کی تاریکی سے آمیختہ ہونا ہے ، اس لئے لفظ اشفاق اس توجہ اور عنایت کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے جس میں خوف کا عنصر پایا جاتاہو۔ مثلا ً اگر کوئی فرد کسی شخص کے لئے محبت کے جذبات رکھتا ہو اور اس کے بارے میں کچھ حوادث سے ڈرتا ہوتو اس حالت کو اشفاق اور ایسے شخص کو مشفق کہتے ہیں ۔
لیکن فخر رازی کا نظر یہ ہے کہ شفق کا لفظ اصل میں رقّت اور نازک ہونے کے معنی میں ہے ۔ رقّت کے معنی پتلا ہونا ہے۔ اسی لئے بہت ہی نازک اور پتلے لباس کو شفق کہتے ہیں اور شفقت کا لفظ رقّتِ قلب کی حالت کے لئے بولا جاتا ہے ( لیکن راغب کا قول زیادہ صحیح نظر آتاہے )۔
بہر حال شفق سے مراد وہی روشنی ہے جو آغاز شب کی تاریکی کی آمیزش رکھتی ہو اور چونکہ ابتدائے شب میں ایک کم رنگ کی سرخی افق مغرب پر پیدا ہوتی ہے اور پھر اس کی جگہ سفیدی لے لیتی ہے ، جو اس میں اختلاف ہے کہ شفق کا اطلاق اس سرخی پر ہے یا سفیدی پر۔
علماء مفسرین کے درمیان مشہو ر و معروف وہ پہلے معنی ہیں اور اشعار عرب میں بھی اسی پر انحصار کیاگیا ہے اور شفق کو شہیدوں کے خو ن سے تشبیہ دیتے ہیں اور ( دماء الشہداء) کہتے ہیں ۔
لیکن بعض مفسرین نے دوسرے معنی کو منتخب کیا ہے جو بہت ضعیف نظر آتے ہیں ، خصوصاً یہ کہ اگر اس کی لغوی اصل کے معنی ہم رقّت سمجھیں تو پھر اس کم رنگ کی سرخی سے مناسبت رکھتے ہیں جو سورج کی رقیق اور پتلی روشنی اور نور ہے ۔
بہر حال چونکہ شفق کا ظہور دنیا میں ایک گہری تبدیلی اور دگر گونی کی حالت کی خبر دیتا ہے او ر دن کے اختتام اور رات کے آغاز کا اعلان کرتا ہے ، اس کے علاوہ اس میں ایک خاص قسم کا جلدہٴ زیبائی اور خوبصورتی ہے ، اور ان سب سے قطع نظر نماز مغرب کے وقت کی قسم کھائی ہے تاکہ سب لوگوں کو خبردار اور آمادہ کرے کہ وہ اس خوبصورت آسمانی وجود کے بارے میں غور کریں ۔
باقی رہا رات کی قسم کھانا تو وہ ان بہت سے آثار و اسرار کی بناپر ہے جو اس میں پوشیدہ ہوتے ہیں ۔ اس پر ہم پہلے مفصل گفتگو کر چکے ہیں ۔ ۱
جانوروں ، پرندوں ، یہاں تک کہ انسانوں کے اپنے گھروں ، آشیانوں اور گھونسلوں کی طرف رات کے وقت لوٹنے کی طرف اشارہ ہے جس کا نتیجہ جانوروں کا عمومی آرام و سکون اور آسائش ہے اور یہ رات کے اہم آثار و اسرار میں سے ایک شمار ہوتاہے جیساکہ سورہٴ موٴمن کی آیت ۶۱ میں ہم پڑھتے ہیں ( اللہ الذی جعل لکم لتسکنوا فیہ) ، خدا وہ ہے جس نے رات کو تمہارے لیئے خلق کیا ہے تاکہ تم اس میں آرام و سکون حاصل کرو۔
اس سے واضح ہوتا ہے کہ اذا اتسق کی تعبیر اسی مادہ سے ہے اور مختلف وجودوںکے جمع ہونے کے معنی میں ہے اور یہاں چودھویں رات کے چاند کی روشنی کے کمال کے معنی میںہے ۔ ہم جانتے ہیں کہ چاند اس حالت میں بہت ہی خوبصورت لگتا ہے اور ہر دیکھنے والی آنکھ کو دل کش نظر آتا ہے ۔
اس کا نور صفحہ ٴزمین کو روشن کرتا ہے ۔ اس کے ہلکے رنگ کی روشنی جو رات کے آرام و سکون کو خراب نہیں کرتی ۔ رات کے مسافروں کو راستہ دکھاتی ہے اس لئے وہ خدا کی عظیم آیات میں سے ایک آیت ہے ۔ اسی بناء پر اس کی قسم کھائی گئی ہے ۔
قابل توجہ بات یہ ہے کہ چاروں موضوعات جن کی ان آیات میں قسم کھائی گئی ہے( شفق ، رات اور وہ موجودات جنہیں رات جمع کرتی ہے اور چودھویں رات کا چاند )۔
یہ سب ایسے جو ایک دوسرے سے مربوط ہیں اور ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں اور ایک ایسے خوبصورت مجموعہ کو تشکیل دیتے ہیں جو انسانی فکر میں تحریک پیدا کرتا ہے تاکہ وہ تخلیق کی عظیم وقت پر غور و فکر کرے اور ان تیز تبدیلیوں سے وقوعِ قیامت اور قدرت خدا کے بارے میں آشنائی حاصل کرے۔
قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ مختلف امور کا یہ حصہ ایسے حالات اور تبدیلیوں کی طرف اشارہ ہے جو عالمِ آفرینش میں ایک دوسرے کے ساتھ رونما ہوتی ہیں ۔
سورج چہرے پر نقاب ڈالتا ہے تو شفق ظاہر ہوجاتی ہے جو اس کے نور کا بقیہ ہے ۔ انسان، پرندہ ، چرند بڑی تیزی سے اپنے ٹھاکانوں اور آشیانوں کی طرف لوٹتے ہیں اور چاند بدرِ کامل کی شکل میں بلند ہوتا ہے ۔
توجہ فرمائیں کہ چودھویں کا چاند رات کے اسی ابتدائی حصہ میں طلوع ہوتا ہے اور ان قسموں کو ” لترکبن طبقاً عن طبق “کے اس جملے کی تمہید قراردیتاہے جو مختلف ایسے حالات کو بیان کرتا ہے جو انسان اپنی راہ حیات میں یکے بعد دیگرے پیدا کرتا ہے ۔ اس جملے کے لئے مفسرین نے مختلف تعبیریں بیان کی ہیںجن میں ایک یہ بھی ہے ۔
۱۔ مراد وہ گوناگوں حالات ہیں جو انسان ، خدا اور کمال ِ مطلق کی جانب سفر کرنے کے پر مشقت راستے پیدا کرتا ہے ۔ پہلے عالم ِ دنیا ، پھر عالم ِ بر زخ ہے اور پھر قیامت اور اس کے مختلف حالات ہیں ۔ ( توجہ فر مائیں کہ ” طبق“ ” مطابقہ “ کے مادہ سے ایک چیز کو دوسری چیز کے اوپر قرار دینے کے معنی میں ہے اور ان منزلوںکے معنی میں ہے جنہیں انسان اپنی سیر صعودی میں طے کرتا ہے )۔
۲۔ مراد وہ حالات ہیں جنہیں انسان کو نطفہ سے لے کر موت تک کے سفر میں سامنا کر نا ہو تا ہے ۔ بعض محققین نے ایسی ۳۷ حالتیں شمار کی ہیں ۔
۳۔ مراد وہ مختلف حالات و شدائد ہیں جن میں سے انسان دنیاوی زندگی میں صحت و بیماری ، غم و اندوہ سرور مسرت ،سختی و آرام اور صلح و جنگ کی صورت میں دوچار ہوتا ہے ۔
۴۔ مراد وہ مختلف حالات و شدائد ہیں جن سے انسان قیامت میں دوچارہوگا یہاں تک کہ حساب سے فارغ ہو کر ہر شخص اپنے اعمال کے نتیجے میں دوزخ اور جنت کی طرف جائے گا ۔
۵۔ مراد وہ حالات ہیں جو گزشتہ قوموں کو پیش آئے یعنی وہی تلخ و شیریں حوادث اور انواع و اقسام کی تردیدیں اور مخالفین کے انکار اس امت میں بھی واقع ہوں گے یہ مضامین ایک اور رویت میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے بھی نقل ہوئے ہیں ۔
ان تفسیروں کا جمع ہونا بھی معنی نہیں رکھتا ۔ ہوسکتاہے کہ آیت ان تمام تبدیلیوں ، تغیرات اور مراحل کی طرف اشارہ کررہی ہو جنہیں انسان اپنی زندگی میں دیکھتا ہے ۔ بعض مفسرین یہاں مخا طب خود پیغمبر کو سمجھتے ہیں اور آیت کی ان آسمانوں کی طرف اشارہ سمجھتے ہیں جن سے پیغمبر اسلام معراج کی شب گزرے ہیں ۔
لیکن اس طرف توجہ کرتے ہوئے کہ ” لترکبن “ میں جو ” ب“ ہے اور پر پیش ہے اور جمع کے معنی دیتا ہے ، اس لئے یہ تفسیر مناسب ہے ۔ خصوصاً یہ کہ گذشتہ آیات میں بھی مخاطب کل انسان تھے ۔
بہر حال ان حالات کا حدوث اور آدمی کا ایک حالت پر قیام نہ کرنا ایک تو اس کے مخلوق ہونے اور محتاج خالق ہونے کی دلیل ہے ، اس لئے کہ ہر متغیر حادث ہے اور ہر حادث کو خالق کی ضرورت ہے ، دوسرے اس جہان کی ناپائیدار ہونے کی دلیل ہے ۔
تیسرے انسان کی پروردگار عالم کی طرف حرکت ِ مستمر مسئلہ معادو قیامت کی نشانی ہے جیسا کہ گزشتہ آیات میں آیاتھا ( یا ایھا الانسان انک کادح الیٰ ربک کد حاً فملاقیہ)
اس کے بعد گزشتہ مباحث ایک نتیجہ کلی اخذ کرتے ہوئے فرماتا ہے ‘ ” وہ ایمان کیوں نہیں لاتے “ ( فمالھم لایومنون ) ، اس کے باوجود کے حق کے دلائل واضح و آشکار ہیں ، توحید و خدا شناسی کے بھی اور معاد و قیامت کے بھی ۔ آیات آفاتی بھی جو رات دن کی خلقت اور چاند سورج ، نور و ظلمت ، طلوع و غروب ، آفتاب و شفق ، رات کی روشنی اور رات کی روشنی کے تکامل میں چھپے ہوئے ہیں ۔ اور آیاتِ انفسی بھی ۔ اس لمحے سے لے کر جب انسان کا نطفہ رحم میں قرار پاتا ہے اور یکے بعد دیگرے مختلف مراحل طے کرتا ہے یہاں تک کہ عالم جنین میں اپنے اوج کمال کو پہنچتا ہے ، اس کے بعد ولادت کے لمحے سے لیکر موت تک دوسرے مراحل طے کرتا ہے، تو ان واضح نشانیوں کے باوجود نوع بشر ایمان کیوں نہیں لاتی ۔
اس کے بعد کتاب تکوین سے کتاب حق کی طرف رخ کرتے ہوئے فرماتاہے : ” جب ان کے سامنے قرآن پڑھا جاتا ہے تویہ خضوع اختیار کیوں نہیں کرتے “۔ ( و اذا قریٴ علیھم القرآن لایسجدون ) ۔
قرآن جو آفتاب کے مانند اپنی دلیل آپ ہے ، نور اعجاز اس کے مختلف پہلووٴ ں سے عیاں ہے ، پھر اس کے مضامین و مشمولات یہ سب اس بات کی واضح دلیل ہیں کہ اسے وحی کے سر چشمہ سے لیا گیا ہے ۔
قرآن کے بارے میں ہر غیر جانب دار یہ جانتا ہے کہ یہ ممکن ہی نہیں کہ قرآن کسی انسان کے دماغ کی تخلیق ہو۔ پھر انسان بھی ایسا جس نے کبھی کوئی سبق نہیں پڑھا ہو اور ایک ایسے ماحول میں اس نے زندگی بسر کی ہو جو خرافات و ظلمات سے پر ہو ۔ یہاں سجدہ سے مراد خضوع ، تسلیم اور اطاعت ہے ۔ 2
اور وہ مشہور سجدہ جس میں پیشانی کو زمین پر رکھتے ہیں ، اس مفہوم کلی کا ایک مصداق ہے ۔ اور شاید اسی بناپر بعض رویات میں آیا ہے کہ پیغمبر نے ان آیات کی تلاوت فرمائی تو سجدہ کیا ۔
البتہ فقہائے اہلبیت  کے مشہور فتوے کے مطابق یہ سجدہ قرآ ن کے مستحب سجدوں میں سے ہے اور اہل تسنن کے چاروںمذاہب اس آیت کی تلاوت کے وقت سجدہ کرنا واجب سمجھتے ہیں ، سوائے امام مالک کے جن کا نظریہ ہے کہ سورہ کے ختم ہونے کے بعد سجدہ کرنا چاہئیے ۔ 3
بعد والی آیت میں مزید کہتا ہے : ” بلکہ کفار ہمیشہ آیات الہٰی اور معاد قیامت کی تکذیب کرتے ہیں “( بل الذین کفروا یکذبون)۔ یہاں فعل مضارع کا استعمال ، جوعام طور پر استمرار کے لئے ہوتا ہے ، ان معانی کا گواہ ہے کہ وہ اپنی تکذیب پر مصر تھے اور یہ ایسا اصرار تھا جو محض ہٹ دھرمی اور عناد کی وجہ سے تھا ۔ ان کی تکذیب ایسی نہیں تھی کہ انہیں اس کے لئے دلیلیں نہیں مل سکی تھیں ، بلکہ تعصب ، اندھی تقلید ، مادی منفعتوں کی حفاظت اور شیطانی خواہشات کی تسکین کے لئے تھی ۔
اس کے بعد تہدید آمیز لہجے میں فرماتا ہے :”خدا اسے اچھی طرح جانتا ہے جسے وہ اپنے دل کے اندر پنہاں رکھتے ہیں“ (و اللہ اعلم بما یوعون)۔ خدا ان کی نیتوں ، مقاصد اور ایسی ترغیبات سے ، جو مسلسل تکذیبوں کا سبب بنتی ہیں، باخبر ہے ، وہ چاہے کتنی ہی پردہ پوشی کیوں نہ کریں ، انجام کار انہیں اس کی سزا ملے گی ۔
” یوعون “ ” وعاء “ کے مادہ سے ظرف اور برتن کے معنی میں ہے ، جیسا کہ حضرت علی علیہ السلام کی مشہور عبارت سے نہج البلاغہ میں منقول ہے کہ آپ نے فرمایا :
( ان ھٰذہ القلوب اوعیة فخیرھا اوعاھا ) یہ دل ظروف ہیں اور ان میں سے بہترین دل وہی ہے جس کی حفاظت اورظرفیت زیادہ ہو۔
اور بعد والی آیت میں فرماتا ہے :” پس انہیں دردناک عذاب کی بشارت دے “ ( فبشر ھم بعذاب الیوم ) بشارت کی تعبیر جو عام طور پر خوشخبری کے لئے استعمال ہوتی ہے ، یہاں ایک قسم کے طعن اور سرزنش کے طور پر ہے ۔
در حقیقت وہ اس طرح مومنین کو جنت کی وسیع نعمتوں کی بشارت دیتا ہے تاکہ تکذیب کرنے والے دوزخی حسرت و اندوہ میں ڈوب جائیں ۔ اس سورہ کی آخری آیت میں ایک استثناء کی شکل میں ایک مرتبہ پھر نیک عمل مومنین کی سر نوشت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے :
” مگر وہ لوگ جو ایمان لائے اور اعمال صالح انجام دئیے ان کے لئے اجر و ثواب ہے ، ایسا اجر جو ثابت شدہ اور منقطع نہ ہونے والااور ہر قسم کے نقصان سے محفوظ ہے “۔
( الاّّ الذین اٰمنوا و عملو ا الصالحات لھم اجر غیر ممنون
ممنون “ ” من “ کے مادہ سے نقصان و انقطاع کے معنی میں آیاہے اور منت کے معنوں میں بھی ہے ۔ ( لفظ منون جوموت کے معنوں میں ہے وہ بھی اسی مادہ سے ہے) اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ سب معانی یہاں جمع ہوں ، اس لئے کہ آخرت کی نعمتیں دنیاوی نعمتوں کے بر عکس ، جو ناپائیدار اور نقصان پذیر بھی ہیں اور عام طور پر غیر مطلوب عوارض کی آمیزش رکھتی ہیں ،کسی قسم کی منت ِ نقصان، فنا اور غیر مطلوب عوارض نہیں رکھتیں۔ وہ جاودانی ہیں ، نقصان ناپذیر ہیں اور ہر قسم کے نامناسب امور اور منت و احسان سے مبراہیں ،یہ استثناء متصل ہے یا منقطع مفسرین کے درمیان اس میں اختلا ف ہے ۔
بعض نے یہ احتمال تجویز کیاہے کہ استثناء منقطع ہے ، یعنی کفار کے حالات کی تشریح جو گزشتہ آیات میں تھی اس کو چھور کر مومنین کی جاودانی اجر کی بات کرتا ہے لیکن زیادہ مناسب یہی ہے کہ استثناء متصل ہو اور مقصد یہ ہو کہ کفار کے سامنے باز گشت کی راہ کھولے اور انہیں یہ یہ بتائیں کے جو لوگ توبہ کرے کے ایمان لے آئیں اور اعمال صالح انجام دیں ، ان سے عذاب دائمی اٹھا لیا جائے گا اور انہیں ایسا اجر دیاجائے گا جو دائمی ہوگا اور جس میں نقصا ن کا کوئی پہلو نہ ہوگا ۔
ایک نکتہ
مرحوم طبرسی مجمع البیان میں اس سورہ کی آخری آیات سے پہلے تو اختیار اور ارادہ کی آزادی کا اصل کی فائدہ اٹھاتے ہیں ، اس لئے مجبور افراد کے بارے میں ترک سجدہ اور ترکِ ایمان پر ملامت کرنا خدا وند حکیم کے لئے یہ ایک امر قبیح ہے اور وہ جو یہ فرماتا ہے : (فما لھم لا یومنون و اذا قریٴ علیھم القراٰن لا یسجدون )مسئلہ اختیار پر واضح دلیل ہے ، اور پھر ترک سجدہ پر ملامت کرنا اس امر کا ثبوت ہے کہ کفار جس طرح اصول دین کے مکلف ہیں اسی طرح فروع دین کے بھی مکلف ہیں ۔ ( یہ گفتگو اس صورت میںہے جب لفظ سجدہ مذکورہ بالا آیت میںنماز والے سجدے کے معنی میں ہو یاکم از وسیع معانی رکھتا ہو جس میں سجدہ ٴنماز بھی شامل ہے )۔
خدا وند !جس دن سب لوگ تیری داد گاہ عدل میں حاضرہوں گے ہم پر حساب آسان کر دیجو ۔
پر وردگار ا ! اس راہ میں جہاں تمام بندے تیری طرف سفر کرتے ہیں صراط مستقیم طے کرنے میں ہماری مدد فرما ۔
بار الہٰا ! ہم تیرے قرآن کریم کے سامنے سرِ تسلیم خم کئے ہوئے ہیں ، ہم سب کو اس پر عمل کرنے کی توفیق مرحمت فرما۔

آمین یا رب العالمین


۱۔ تفسیر نمو نہ ۔ جلد ۹، ۱۴۳، سورہ قصص کی آیت ۷۱ تا ۷۳ سے رجوع فرمائیں ۔
”ماوسق“ کی تعبیر۲اس طرف توجہ کرتے ہوئے کہ ” وسق “ بکھری ہوئی چیزوں کے جمع کرنے کے معنی میں ہے ۳اور مختلف قسم کے
۲۔” ماوسق“ میں ما مو صولہ ہے اور اس کے مصدریہ ہونے کا احتمال ضعیف ہے اور اس کی طرف لوٹنے والی ضمیر بھی محذوف ہے اور تقدیر میں ” وما وسقہ“ ہے ۔
۳۔ ”وسق“ ( بر وزن غضب) اونٹ کے ایک بار یا ساٹھ صاع جس کا ہر صاع تقریباً تین کلو ہے کے معنی میں آیا ہے اور وہ بھی ان سب کے مجتمع ہونے کے معنی میں ہے ۔
2۔ ان معانی کے شواہد میں سے گزشتہ اور آئندہ آیات کی شہادت کے علاوہ ایک یہ ہے کہ سجدہ جس کے معنی تلاوت قرآن کے وقت زمین پر پیشانی رکھنا ہے ، سوائے چند آیات کے نہ واجب ہے نہ مستحب، اس لئے یہ جو کہہ رہاہے کہ قراٴت قرآن کے وقت وہ سجدہ کیوں نہیں کرتے اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ سجدے سے مراد سارے قرآن کے سامنے سر تسلیم خم کرنا ہے۔
3۔ روح البیان ، جلد ۱،ص، ۱۳۸۲

 

وہ جو شرم و حیاکے باعث اپنانامہ اعمال پشت کی طرف سے لیں گے  سورہ بروج
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma