۲۔ یقین اور اس کے مراحل

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونه جلد 27
۱۔ تفاخرکا سر چشمہ ۳۔ سب لوگ دوزخ کا مشاہدہ کریں گے

یقین “ ”شک “ کا نقطہ ٴمقابل ہے ، جیسا کہ علم ، جہالت کا نقطہٴ مقابل ہے ، او رکسی چیز کے واضح اور ثابت ہونے کے معنی میں آیاہے ، اور اختیار و روایات سے جو کچھ معلوم ہوتا ہے اس کے مطابق ایمان کے اعلیٰ مر حلہ کو یقین کہا جاتا ہے ۔
امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا: ” ایمان اسلام سے ایک درجہ بالاتر ہے ، اور تقویٰ ایمان سے ایک درجہ بالاتر ہے ، اور یقین تقویٰ سے ایک درجہ بالاتر ہے ۔
اس کے بعد آپ  نے فرما یا: ” ولم یقسم بین الناس شیء اقل من الیقین “ ” یقین کی حقیقت اللہ پر توکل کرنا، اللہ کی پاک ذات کے سامنے سر تسلیم خم کرنا، قضائے الٰہی پر راضی رہنا اور اپنے تمام کاموں کا خدا کے سپرد کردینا ہے ۔ 1
مقام تقویٰ و ایمان و اسلام سے مقام ِ یقین کی بر تری ایک ایسی چیز ہے جس پر دوسری روایات میں بھی تاکید ہو ئی ہے ۔ 2
ایک دوسری حدیث میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے آیا ہے :
من صحة یقین المراٴ المسلم ان لایرضی الناس بسخط اللہ ، ولا یلومھم علی مالم یوٴتہ اللہ  ان اللہ بعد لہ و قسطہ جعل الراحة فی الیقین و الرضا و جعل الھم و الحزن فی الشک و السخط:
” مرد مسلمان کے یقین کے صحیح ہونے کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ وہ خدا کو ناراض کرکے لوگوں کو راضی نہ کرے اور جو کچھ خدا نے اسے نہیں دیا اس پر لوگوں کو ملامت نہ کرے( انہیں اپنی محرومیوں کا ذمہ دار نہ ٹھہرائے) خدا نے اپنے عدل و انصاف کی بناء پر راحت و آرام ، یقین و رضا میں رکھا ہے ، اور غم و اندورکو شک اور راضی میں قرار دیا ہے “۔ !
ان تعبیرات اور دوسری تعبیروں سے اچھی طرح معلوم ہوجاتا ہے کہ جب انسان یقین کے مقام تک پہنچ جاتا ہے تو ایک خاص قسم کا سکون و آرام اس کے سارے دل و جان میں سرایت کرجاتا ہے ۔
لیکن اس کے باوجود یقین کے لیے کئی مراتب ہیں جن میں سرایت کرجاتا ہے ۔
لیکن اس کے باوجود یقین کے لیے کئی مراتب ہیں جن کی طرف اوپر والی آیات اور سورہٴ واقعہ کی آیہ ( انّ ھٰذا لھو حق الیقین ) میں اشار ہ ہوا ہے ، اور وہ تین مرحلہ ہیں ۔ 3
۱۔ علم الیقین : یہ ہے کہ انسان مختلف دلائل سے کسی چیز پر ایمان لائے، اس شخص کے مانند جو دھوئیں کو دیکھ کر آگ کے ہونے پر ایمان لے آتا ہے ۔
۲۔ عین الیقین :اس مقام پر حاصل ہو تا ہے جب انسان مشاہدہ کے مرحلہ تک پہنچ جاتا ہے ، او راپنی آنکھ سے مثلاکسی آگ کو دیکھ لے۔
۳۔ حق الیقین : اور وہ اس شخص کے مانند ہے جو آگ میں داخل ہوجائے ، اور اس کے سوزش اور حرارت کو لمس کرے، اور یہ یقین کا بالاترین مرحلہ ہے ۔
محقق طوسی ۺاپنی ایک گفتگو میں کہتے ہیں : ”یقین “ وہی پختہ، اور ثابت اعتقاد ہے ، جس کا زوال ممکن نہیں ہے اور حقیقت میں وہ دو علموں سے مرکب ہے ۔ ایک معلوم کے متعلق علم ، اور دوسرا یہ علم کہ اس علم کے خلاف محال ہے ، اور اس کے کئی مراتب ہیں ۔ ” علم الیقین “ و ” عین الیقین “ و ” حق الیقین4
حقیقت میں پہلا مرحلہ عمومی پہلو رکھتا ہے اور دوسرا مرحلہ پر ہیز گار وں کے لیے ہے اور تیسرا مرحلہ خواص اور مقربین کے ساتھ مخصوص ہے ۔
اسی سے ایک حدیث میں آیا ہے کہ پیغمبر اکرام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں صحابہ نے عرض کیا : ہم نے سنا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کے بعض اصحاب پانی پر چلتے تھے ؟!آپ نے فرمایا: ” لو کان یقینہ اشد من ذالک لمشی علی الھواء
” اگر اس کا یقین اس سے زیادہ پختہ اس سے زیادہ اور محکم ہوتا تو وہ ہوا پر چلتا “ !
مرحوم ” علامہ طباطبائی“ اس حدیث کو ذکر نے کے بعد مزید کہتے ہیں : تمام چیزیں خدا وند سبحان پر یقین اور عالم تکوین کے اسباب کی تاثیرکے استقلال کو محو کرنے کے محور کے گرد گھومتی ہیں ، اس بناء پر انسان کا قدرت مطلقہ الٰہیہ پر اعتقاد و ایمان جتنا زیادہ ہوگا ، اشیاء عالم اسی نسبت سے اس کے سامنے مطیع و منقاد ہو جائیں گی۔ 5
اور عالم ِ آفرینش میں یقین اور خارق العادت تصرف کے رابطہ کی یہی رمز ہے ۔


 
1” بحا رالانوار “ جلد۷۰ ص ۱۳۸ حدیث۔
2۔ ” بحا رالانوار “ جلد ۷۰ ص ۱۳۵ ۔ ۱۳۷۔
3۔ ” بحار الانوار“ جلد ۷۰ ص ۱۴۳۔
4۔ ” مطابق نقل بحار الانوار“ جلد ۷۰ ص ۱۴۳۔
5۔ ” المیزان “ جلد ۶ ص ۲۰۰ ( سورہٴ مائدہ کی آیہ ۱۰۵ کے ذیل میں)

 

 

۱۔ تفاخرکا سر چشمہ ۳۔ سب لوگ دوزخ کا مشاہدہ کریں گے
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma