۱۔ آنکھ کی حیرت انگیز یاں

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونه جلد 27
 آنکھ ، زبان او رہدایت کی نعمت ۲۔ زبان کی حیرت انگیزیاں

آنکھ کو عام طور ہر کیمرے کی دوربین سے تشبیہ دیتے ہیں ، جو اپنی بہت ہی چھوٹی سی پتلی کے ساتھ مختلف مناطر کے فوٹو اتارتی ہے ، ایسی تصویریںجو فلم کے بجائے ” شبکیہ چشم “ ( آنکھ کی سکرین ) پر منعکس ہوتی ہیں اور وہاں سے بینائی کے اعصاب کے ذریعہ دماغ میں منتقل ہوتی ہیں ۔
تصویر کشی کا یہ حد سے زیادہ لطیف و دقیق کا خانہ ، شب و روز میں کئی ہزار تصویریں ، مختلف مناظر کی اتار سکتا ہے ، لیکن تصویر کشی اور فلمیں بنانے کی ترقی یافتہ مشینوں پر بھی اس کا بہت سے پہلووٴں سے قیاس نہیں ہوسکتا ، کیونکہ :
۱۔ اس مشین میں روشنی کو منظم کرنے والا دریچہ وہی آنکھ کی پتلی ہے کو خود کا ر طریقہ سے زیادہ قوی روشنی کے مقابلہ میں زیادہ تنگ اور کمزور روشنی کے مقابلہ میں زیادہ کشادہ ہوجاتی ہے حالانکہ کیمرے کی مشین کو اشخاص کے ذریعے منظم کرنا پڑتا ہے ۔
۲۔ آنکھ کا عدسہ ، ان تمام شیشوں کے بر خلاف ، جو دنیا کے تصویر کشی کے کیمروں میں استعمال ہوتے ہیں ، ہمیشہ اپنی شکل بدلتا رہتا ہے ، اس طور پر کہ کبھی تو اس کا قطر ۔ ۱/۵ملی میٹر ہوجاتا ہے اور کبھی ۸/ ملی میٹر تک پہنچ جاتا ہے تاکہ وہ دور اور نزدیک کے مناظر کی تصویرین بنا سکے ۔ اور یہ کام ان عضلات کے ذریعے ، جنہوں نے عدسہ کو گھیرا ہو اہے، اور وہ کبھی اسے کھینچ لیتے ہیں اور کبھی چھوڑ دیتے ہیں ، انجام پاتا ہے، اس طرح سے آنکھ کا ایک عدسہ تنہا سینکڑوں عدسوں کا کام انجام دیتا ہے ۔
۳۔ تصویر کشی کی یہ مشین چار مختلف سمتوں کی طرف حرکت کرتی ہے ، یعنی آنکھ کے عضلات کی مدد سے جس طرف چاہے حرکت کر سکتی ہے اور تصویر بنا سکتی ہے ۔
۴۔ یہاں ایک ا در اہم نکتہ بھی ہے کہ تصویر کشی کے کیمروں کے لئے یہ ضروری ہے کہ ان کی فلموں کو تبدیل کرتے رہیں ، اور جب فلم کی ایک ریل ختم ہو جائے تو اس کی جگہ دوسری ریل رکھنی پڑتی ہے ۔ لیکن انسا ن کی انکھیں زندگی بھر تصویریں اتارتی رہتی ہیں ، اور اس میں کوئی چیز تبدیل نہیں کرنی پڑتی ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آنکھ کی سکرین کا وہ حصہ ، جس پر تصویریں منعکس ہوتی ہیں ، اس میں دو قسم کے سلول ہوتے ہیں :
۱۔ مخروطی سلول ۲۔ عمودی سلول ، جو روشنی کے مقابلہ میں بہت ہی زیادہ حساس مادہ رکھتے ہیں اور روشنی کی تھوڑی سی چمک سے ہی ان کا تجزیہ ہو جاتاہے اور وہ ایسی لہریں پیدا کردیتے ہیں کہ وہ دماغ کی طرف منتقل ہو جاتی ہیں اور اس کے بعد اس کا اثر زائل ہوجاتا ہے اور سکرین دوبارہ نئی تصویر کھینچنے کے لئے آمادہ ہوجاتی ہے ۔
۵۔ تصویر کھینچنے والی دوربینیں بہت ہی محکم اور مضبوط مادوں سے بنائی گئی ہیں ، لیکن آنکھ کی تصویر کھینچنے کی مشین اتنی لطیف کہ جس میں معلولی سی چیز سے بھی خراش آجاتی ہے ، اسی وجہ سے اس کو ایک مضبوط ہڈیوں سے بنی ہوئی حفاظت گاہ میں رکھا گیا ہے ۔
لیکن اتنی ظرافت و نزاکت کے باوجود یہ لوہے اور فولاد سے بھی زیادہ چلنے والی چیز ہے ۔
۶۔ فلیمیں بنانے والوں اور تصویر کھینچنے والوں کے لئے ” روشنی کے منظم ہو نے“ کا مسئلہ ایک بہت ہی اہم مسئلہ ہے ، اور اس مقصد کے لئے کہ تصویر یں صاف ہوں، بعض اوقات کئی کئی گھنٹے روشنی اور اس کے مقدمات کو منظم کرنے میں مشغول رہناپڑتا ہے ، جب کہ آنکھ تمام حالات میں ، چاہے روشنی قوی ہویا درمیانی یا کمزور ، یہاں تک کہ تاریکی میں بھی ، بشر طیکہ معمولی اور خفیف سی روشنی بھی وہاں پر موجود تصویر لے لیتی ہے ۔ اور یہ چیز آنکھ کے عجائبات میں سے ہے ۔
۷۔ بعض اوقات ہم روشنی سے تاریکی کی طرف جاتے ہیں ، یا بجلی کے بلب اچانک بجھ جاتے ہیں ، تو ہم اس وقت کسی چیز کو نہیں دیکھ سکتے ، لیکن چند ہی لمحے گزرجانے کے بعد ہماری آنکھ خود کار طور پر اپنی کیفیت کو اس کمزور روشنی کے ساتھ منطبق کرلیتی ہے، اس طرح سے کہ جب ہم اپنے ارد گرد نظر کرتے ہیں کہ ہماری آنکھ تاریکی کی عادی ہوگئی ہے اور یہ عادت والی تعبیر کو سادہ اور عام زبان میں ادا ہو جاتی ہے ۔ایک بہت ہی پیچیدہ مکانیسم (طرزِساخت ) کا نتیجہ ہے جو آنکھ میں رکھی گئی ہے ، اور وہ خود کو بہت ہی مختصر سے وقت میں نئے حالات پر منطبق کرسکتی ہے ۔
اس کے بر خلاف جب ہم تاریکی سے روشنی میں داخل ہوتے ہیں تو ا س کے بر عکس ہوتا ہے ، یعنی ابتدا میں ہماری آنکھ قوی روشنی کو بر داشت نہیں کرتی ، لیکن چند لمحات کے بعد وہ اس سے منطبق ہو جاتی ہے اور اصطلاح کے مطابق عادی ہو جاتی ہے لیکن یہ امور تصویر بنانے والے کیمروں میں ہر گز موجود نہیں ہیں ۔
۸۔ تصویر بنانے والے کیمرے محدود فضا سے تصویر بناسکتے ہیں جب کہ انسا ن کی آنکھ تمام افق کا نیم دائرہ جو اس کے سامنے ہوتا ہے دیکھ لیتی ہے ، اور دوسرے لفظوں میں ہم اپنے اطراف کے تقریباً ۱۸۰ درجے کے دائرے کو دیکھ لیتے ہیں ، جب کہ تصویر کشی کا کوئی کیمرہ ایسانہیں ہے ۔
۹۔ عجیب و غریب بات یہ ہے کہ انسان کی دونوں آنکھیں ، جن میں سے ہر ایک ایک مستقل مشین ہے ، اس طر ح منظم ہوئی ہیں کہ ان دونوں سے لئے گئے فوٹو ایک ہی نقطہ پر جاکر پڑتے ہیں ۔ اس طرح سے اگر یہ تنظیم تھوڑی سی خراب ہوجائے تو اسے اپنی دو آنکھوں سے ایک ہی جسم کو دوجسم دیکھتا ہے ، جیساکہ احول ( جسے دو دو نظر آتے ہوں ) اشخاص میں یہ معنی مشاہدہ ہوتا ہے۔
۱۰۔ دوسرا قابل غور نکتہ یہ ہے کہ وہ تمام مناظر جن کی آنکھ تصویر کشی کرتی ہے آنکھ کی ا سکرین پر الٹے پڑتے ہیں ، حالانکہ ہم کسی چیز کو الٹا نہیں دیکھتے ، آنکھ کے عاد اور چیزوں کی ایک دوسر ے سے نسبت کو محفوظ رکھنے کی بناء پر ہے ۔
۱۱۔ آنکھ کی سطح ہمیشہ مرطوب ہونی چاہئیے کیونکہ اگر و ہ چند ساعت بھی خشک رہ جائے تو اس پر شدید ضرب پڑے یہ رطوبت ہمیشہ آنسووٴں کے غدود وں سے حاصل ہو تی ہے جو آنکھ میں ایک طرف منتقل ہو جاتے ہیں اور اسے بھی مرطوب رکھتے ہیں ۔
اگر آنکھ کے غدود خشک ہو جائیں تو آنکھ خطرے میں پڑ جاتی ہے اور پلکوں کی حرکت غیرممکن ہوجاتی ہے ، اور اگر اس کا فعل حد سے بڑھ جائے تو ہمیشہ چہرے پر آنسوں بہتے رہتے ہیں ، یا آنکھ کے فاضل پانی کو خشک کرتے ہیں اور یہ کتنا بڑا درد سر ہے
۱۲۔ آنسووٴں کی ترکیب ایک پیچیدہ ترکیب ہے ، اور اس میں دس سے زیادہ عناصرہوتے ہیں، اور وہ مجموعاً آنکھ کی نگہداشت کے لئے ایک بہترین اور مناسب ترین مائع یا مر کب ہوتا ہے ۔
مختصر یہ ہے کہ آنکھ کے عجائبات اس قدر زیادہ ہیں کہ ان کے بارے میں کئی دن تک بیٹھ کر گفتگو کرنے کی ضرورت ہے ، اور ان کی کئی کتا بیں لکھنی پڑیں ، اور ان تمام چیزوں کے باوجود اگر ہم ا س کے اصلی مادہ کو دیکھیں تو وہ تقریباً چر بی کے ایک ٹکڑے سے زیادہ نہیں ہے ۔
امیر المومنین علی علیہ السلام اپنی ایک قابل قدر گفتگو میں فرماتے ہیں :
اعجبوا لھٰذا الانسان ینظر بشحم ، و یتکلم بلحم ، و یسمع بعظم، و یتنفس من خرم !“
”تعجب ہے اس انسان پرجو چربی کے ایک ٹکڑے سے دیکھتا ہے ، اور گوشت کے ایک ٹکڑے سے بولتا ہے ہڈی سے سنتا ہے سوراخ سے سانس لیتا ہے اور وہ ان بزرگ حیاتی کا موں کو ان چھوٹے سے وسائل کے ذریعے انجام دیتا ہے ۱



۱۔ نہج البلاغہ ” کلمات قصار“ حکمت۸۔

 
 آنکھ ، زبان او رہدایت کی نعمت ۲۔ زبان کی حیرت انگیزیاں
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma