انبیاء کی طویل تاریخ میں ہم بارہا دیکھتے ہیں کہ دشمنان خدا کا ایک حربہ مومنین کے مقابلہ میں تمسخر و استہزاء ہوتا ہے اور آیاتِ قرآنی نے اس موضوع کو با رہا پیش کیا ہے ۔ اور چونکہ تمسخر و استہزاء عام طور پر ایسے لوگوں سے صادر ہوتاہے جو مغرور ہوتے ہیں اور خود کو دوسروں سے بہتر و بر تر سمجھتے ہیں اور دوسروں کو چشم حقارت سے دیکھتے ہیں اور کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ کافر، ظالم ، ہٹ دھرم اور خود پرست اہل ایمان کے مقابلہ میں اس قسم کا حربہ استعمال کریں ۔
موجودہ زمانے میں بھی یہی صورت حال ہے ، دنیا کے افسوس ناک گروہی معاملات میں کئی شکلوں میں طعن و طنز اور مذاق کی صورت حال کو جاری رکھا جا تا ہے ۔ اب بھی کوشش کی جاتی ہے کہ حق کے طرفداروں کو اس قدیمی حربے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میدان چھوڑ نے پر مجبور کریں۔ لیکن مومنین ان کے مقابلہ میں خدائی دعووں کی طرف توجہ کرکے ،جن کا ایک نمونہ اوپر والی آیت میں آیاہے ، آرام و سکون محسوس کرتے ہیں اور تاریک دل مخالفوں کے مقابلہ میں مو منین کے دلوں میں روحِ مقاومت پیدا ہوتی ہے ۔
اصولی طورپر استہزاء ، تمسخر، غمز “( اشارے) ضحک اور ہنسنا، حق کے مقابلہ میں ، جس کی طرف مندرجہ بالا آیت میں اشارہ ہو اہے ، یہ سب گناہان کبیرہ میں سے ہیں اور جہالت و غرور کی علامت ہیں ، ایک فہیم ، عاقل اور ہشیار انسان بفرض محال کسی مکتب فکر سے متعلق نہ بھی ہو ، کبھی اپنے آپ کو اجازت نہیں دیتا کہ اس قسم کے حربوں سے مقابلہ کرتا ہے ۔
خدا وندا! ہم سب کو غرور و جہالت اور کبر و نخوت سے محفوظ فرما۔
پروردگارا !ہمیں حق طلبی، حق جوئی اور تواضع کی روح مرحمت فرما۔
بار الہٰا ! ہمارا نامہٴ اعمال علیین میں قرار دے اور سکتیوں کے زمرہ سے خارج کردے۔
آمین رب العالمین
سورہٴ مطففین کا اختتام