اس سورہ کی آیات سے اچھی طر ح معلوم ہوتا ہے کہ عالم میں کسی بھی مخلوق کے قوس صعودی و نزولی کا فاصلہ انسان کے قوس صعودی و نزولی کے برابر نہیں ہے ۔ اگر انسان ایمان لے آئے اور اعمالِ صالح بجالائے( اس بات پر توجہ رہے کہ ” عملوا الصالحات“ تمام اعمال صالح کو شامل ہے ، نہ کہ بعض کو)) تو وہ خدا کی مخلوق میں سے زیادہ افضل اور بر ترہوجاتا ہے ، لیکن اگر وہ کفر و ضلالت اور ہٹ دھر می اور عنادکا راستہ اختیار کرلے ، تو اتنا گر جاتا ہے کہ خدا کی مخلوق میں سب سے زیادہ بد تربن جاتا ہے !انسان کے ” قوس صعودی“ و نزولی“ کا یہ عظیم، فاصلہ اگر چہ ایک حساس اور خطر ناک مسئلہ ہے لیکن یہ نوع بشر کے مقام عظمت اور اس کے تکامل و ارتقاء کی قابلیت پر دلالت کرتا ہے ، اور یہ ایک طبیعی و فطری چیز ہے کہ اس قسم کی حد سے زیادہ قابلیت و استعداد کے ہوتے ہوئے ، تنزل و سقوط کا امکان بھی حد سے زیادہ ہو۔ خدا وندا ! ہم ” خیر البریہ“ کے بلند مقام تک پہنچنے کے لیے تیرے لطف و کرم سے مدد طلب کرتے ہیں ۔
پروردگارا ! ہمیں اس عظیم اور بزرگ ہستی کے شیعوں اور پیروکاروں میں سے قرار دے جو اس کے لیے سب سے زیادہ لائق اور شائستہ ہے ۔
بار الٰہا ! ہمیں اس قسم کا خلوص مرحمت فرماکہ ہم تیرے سوال کسی کی پرستش نہ کریں اور تیرے غیر سے محبت نہ رکھیں ۔
آمین یا رب العالمین