یہ جاودانی دین ہے

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونه جلد 27
اس سورہ کی تلاوت کی فضیلت بہترین اوربد ترین مخلوق

سورہ کے شروع میں ظہور اسلام سے پہلے اہل کتاب ( یہود و نصاریٰ ) اور مشرکین عرب کی حالت کو پیش کرتے ہوئے فرماتا ہے : وہ اس بات کا دعویٰ کیا کرتے تھے کہ جب تک کوئی واضح دلیل اور مسلمہ پیغمبر ان کے پاس نہ آ جائے ، وہ اپنے دین سے دستبردارنہیں ہو ں گے “۔ ( لم یکن الالذین کفروا من اہل الکتاب و المشرکین منفکین حتی تاٴتیھم البینة
” ایسا پیغمبر جو خدا کی طرف سے ہو او رپاک و پاکیزہ صحیفوں کو ہمارے سامنے تلاوت کرے“۔ ( رسول من اللہ یتلوا صحفاً مطھرة
ایسے صحیفے جن میں موزوں، ثابت اور قابل قدر تحریریں ہوں “۔ (فیھا کتب قیمة
ہاں ! وہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ظہور سے پہلے اسی قسم کے دعوے کیا کرتے تھے ۔ لیکن آپ کے ظہور اور آپ کی کتابِ آسمانی کے نزول کے بعد میدان بدل گیا اور وہ خدا کے دین میں اختلاف کرنے لگ گئے۔ ” اور اہل کتاب نے اختلاف نہیں کیا ، مگر واضح دلیل اور سچا اور آشکار پیغمبر ان کے پاس آجانے کے بعد  ( وما تفرق الذین اوتوا الکتاب الامن بعد ماجائتھم البینة
اسی طرح سے اوپر والی آیات اہل کتاب اور مشرکین کے دعوو ں کو بیان کررہی ہیں کہ ابتداء میں تو نہیں یہ اصرار تھا کہ اگر کوئی پیغمبرواضح دلائل کے ساتھ ہمیں دعوت دینے کے لئے آئے گا تو ہم قبول کرلیں گے۔
لیکن اس کے آجانے کے بعد اپنے قول سے پھرگئے اور اس کے مقابلہ میں جنگ و جدال کے لیے کھڑے ہوگئے ، سوائے اس گروہ کے جنہوں نے ایمان کی راہ اختیار کرلی۔
اس بناء پر اوپر والی آیت اسی چیز کے مشابہ ہے جو سورہ بقرہ کی آیہ ۸۹: ولما جاء کتاب من عند اللہ مصدق لمامعھم و کانوا من قبل یستفتحون علی الذین کفروا فلما جاء ھم ماعرفوا کفروا بہ فلعنة اللہ علی الکافرین:میں آئی ہے یعنی جب خدا کی طرف سے ان کے پاس کتاب آئی جو ان نشانیوں کے موافق تھی جو ان کے پاس تھیں ، اور اس سے پہلے وہ خود کو فتح کی خوش خبری دیا کرتے تھے۔ لیکن جب یہ کتاب اور پیغمبر جسے انہوں نے پہلے سے پہچانا ہواتھا ، ان کے پا س آیا تو وہ کافر ہو گئے، پس کافروں پر خدا کی لعنت ہو۔
ہم جانتے ہیں کہ اہل کتاب اس قسم کے ظہور کا انتظار کررہے تھے ، اور اصولی طور پر، مشرکین عرب بھی ، جو اہل کتاب کو اپنے سے زیادہ عالم اور زیادہ آگاہ سمجھتے تھے، اس پروگرام میں ان کے ساتھ ہم آواز تھے لیکن جب ان کی آرزوئیں پوری ہوگئیں تو انہوں نے اپنے راستہ کو بدل لیا اور مخالفین کی صفوں میں جاملے ۔
مفسرین کی ایک جماعت کا ان آیات کی تفسیر کے بارے میں ایک دوسرا نظریہ ہے ، اور وہ یہ ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ واقعاً ووہ اپنے ادعا کے مطابق اپنے دین سے دستبردار نہیں ہوئے، اور اسے نہیں چھوڑا جب تک کہ واضح دلیل ان کے پاس نہ آ گئی۔
لیکن اس بات کا مفہوم یہ ہوگا کہ اس قسم کی واضح دلیل آجانے کے بعد وہ ایمان لے آئےں گے ۔ حالانکہ بعد والی آیات اس بات کی نشان دہی کرتی ہیں کہ یہ مطلب اس طرح نہیں تھا ، مگر اس صورت میں کہ یہ کہا جائے کہ اس سے مراد ان میں سے ایک گروہ کا ایمان لانا ہے ، چاہے وہ بالکل قلیل تعداد میں ہی ہوں ، اور اصطلاح کے مطابق یہ ” موجبہٴ جزئیہ“ کی قبیل ہے ۔
لیکن بہرحال یہ تفسیر بعید نظر آتی ہے ، اور شاید اسی بناء پر ” فخر رازی “ اپنی تفسیر میں پہلی آیت کو قرآنی آیات میں سب سے زیادہ پیچیدہ آیت شمار کرتا ہے ، جو( اس کی نظر میں ) بعد والی آیات سے تضاد رکھتی ہے ۔ اس کے بعد وہ اس مشکل کو حل کرنے کے لیے چند طریقے بیان کرتا ہے جن میں سے بہترین وہی ہے جو ہم نے اوپر نقل کیا ہے ۔
یہاں ایک تیسری تفسیر بھی ہے ۔ اور وہ یہ ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ خدا مشرکین اور اہل کتاب کو ان کی حالت پر نہیں چھوڑے گا ، جب تک کہ ان پر اتمام حجت نہ کردے اور کوئی دلیل ” بینہ“ نہ بھیجے ، اور انہیں راستہ نہ بتا دے ۔ اسی لیے پیغمبر اسلام  کو ان کی ہدایت کے لیے بھیجا ہے ۔
حقیقت میں یہ آیت قاعدہ لطف کی طرف اشارہ ہے جو علم کلام میں بیان کیا جاتا ہے کہ خدا اتمام حجت کے لیے ہر قوم و ملت کے لیے واضح دلائل بھیجے گا۔ ۱
بہر حال ” بینہ“ سے مراد یہاں واضح و روشن دلیل ہے جس کا مصداق دوسری آیت کے مطابق” رسول اللہ “ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات ہے جب کہ آپ کی زبان پر قرآن مجید تھا۔
” صحف“ ” صحیفہ“ کی جمع ہے ، ایسے اوراق کے معنی میں ہے جن پر کوئی چیز لکھتے ہیں ، اور یہاں اسے سے مراد ان اوراق کے مطالب ہیں ، کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ پیغمبر اکرام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہرگز کوئی چیز اوراق سے نہیں پڑھتے تھے ۔
اور” مطہرہ“ سے مراد ، اس کا ہر قسم کے شرک ، کذب ، دروغ اور باطل سے پاک ہونا ہے اور شیاطینِ جن و انس کے اس میں دخل دینے سے پاک ہے ۔
جیسا کہ سورہ حٰم سجدہ کی آیہ ۴۲ میں آیاہے :لایاتیہ الباطل من بین یدیہ ولا من خلفہ:” اس کے پاس کسی قسم کا باطل نہ اس کے سامنے سے آیا ہے اور نہ ہی اس کے پیچھے سے ۔ ” فیھا کتب قیمة“ کا جملہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ان صحف آسمانی میں ایسے مطالب لکھے ہوئے ہیں جن میں کسی قسم کا انحراف اور کجی نہیں ۔ اس بناء پر تو ” کتب“ ” مکتوبات کے معنی میں ہے ، یا یہ ان احکام و مقررات کے معنی میں ہے جو خدا کی طرف سے مقررکیے گئے ہیں کیونکہ کتابت تعین حکم کے معنی میںبھی آئی ہے جیسا کہ فرماتا ہے :کتب علیکم الصیام کما کتب علی الذین من قبلکم “۔
” روزہ تمہارے اوپر اسی طرح مقرر کیا گیا ہے جیسا کہ تم سے پہلے والے لوگوں پر مقرر کیا گیا تھا “( بقرہ۔ ۱۸۳)
اور اس طرح ” قیمة“ صاف ومستقیم ، یا محکم و پائیدار، یا قدرو قیمت والا کے معنی میں ہے ، یا یہ سب مفاہیم اس میں جمع ہیں۔
یہ احتمال بھی دیا گیا ہے کہ چونکہ قرآن میں تمام گزشتہ کے مضامین و مطالب بہت سے اضافات کے ساتھ ہیں ، لہٰذا یہ کہا گیا ہے کہ اس میں گزشتہ کتب قیمة ہیں ۔
قابل توجہ بات یہ ہے کہ پہلی آیت میں اہل کتاب کا” مشرکین“ سے پہلے ذکر کیا گیا ہے ، اور چوتھی آیت میں صرف اہل کتاب کا بیان ہے اور مشرکین کے سلسلہ میں کوئی بات نہیں کی گئی ، حالانکہ آیت دونوں کی طرف ناظر ہے۔
یہ تعبیرات ظاہراً اس وجہ سے ہیں کہ ان پروگراموں میں اہل کتاب اصل اور بنیادی حیثیت رکھتے تھے اور مشرکین ان کے تابع تھے ۔
یا اس بناء پر کہ اہل کتاب زیادہ لائق مذمت تھے کیونکہ ان میں بہت سے علماء اور دانش مند موجود تھے اور وہ اس لحاظ سے مشرکین کی نسبت بلند سطح پرتھے۔ اس بناء پر ان کی مخالفت زیادہ قبیح اور زیادہ ناپسندیدہ تھی، لہٰذا وہ زیادہ سر زنش کے لائق تھے
اس کے بعد ” اہل کتاب“کو اور ان کے تابع ” مشرکین“ کو ملامت کرتے ہوئے فرماتا ہے :” انہوں نے اس جدید دین میں اختلاف کیوں کیا کہ بعض تو ایمان لے آئے اور بعض کا فر ہو گئے حالانکہ اس دین میں انہیں اس کے سوا کوئی اور حکم نہیں دیاگیا کہ خدا کی عبادت کریں، اور اس کی عبادت کو ا س کے غیر کی عبادت سے خالص رکھیں، اور ہر قسم کے شرک سے باز رکھیں اور توحید کی طرف مائل رہیں ، نماز کو قائم کریں ، اور زکوٰة اداکریں “۔
وما امروا الا لیعبدوا اللہ مخلصین لہ الدین حنفاء و یقیموا الصلوٰة یوٴتوا الزکاة“۔2
اس کے بعد فرماتا ہے : ” اور یہ ایک مستقیم و پائیدار دین ہے “ ( ذٰلک دین القیّمة
اس کے بارے میں کہ یہاں ” وما امروا“سے کیا مراد ہے ؟ ایک جماعت نے یہ کہاہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ اہل کتاب کے اپنے دین میں مسئلہ توحید اور نماز و زکوٰة موجود تھا ،اور یہ ایسے مسائل ہیں جو ثابت ہیں، لیکن وہ ان احکام کے بھی وفا دار نہیں رہے تھے ۔
دوسرا معنی یہ ہے کہ دین اسلام میں سوائے خالص توحید ، اور نماز و زکوٰة وغیرہ کے اور کوئی حکم نہیں آیا۔ اور یہ ایسے امور ہیں جنہیں وہ سب جانتے تھے ۔ تو پھر وہ ان کو قبول کرنے سے روگردانی کیوں کرتے ہیں ؟ اور ان کو ماننے سے انکار کررہے ہیں ۔
دوسرا معنی زیادہ نزدیک دکھائی دیتا ہے ، کیونکہ گزشتہ آیت کے بعد ، جو دین جدیدکے قبول کرنے میں ان کے اختلاف کرنےکی بات کررہی تھی، مناسب یہی ہے کہ ” امروا“ جدید دین کی طرف ناظر ہو۔ اس سے قطع نظر پہلا معنی صرف اہل کتاب کے بارے میں صادق آتا ہے ، اور مشرکین پر صادق نہیں آتا ، جب کہ دوسرا معنی سب کو شامل ہے۔
بعض مفسرین کے نظریہ کے مطابق” دین“ سے مراد جسے خدا کے لیے خالص کرنا چاہئیے وہی ” عبادت“ ہے ، اور ” الا لیعبدوا اللہ “ کا جملہ بھی ، جو اس سے پہلے ذکر ہو اہے ، اسی معنی کی تائید کرتا ہے ۔
لیکن احتمال بھی ہے کہ اس سے دین و شریعت کا مجموعہ مراد ہو، یعنی اس بات پر مامور ہوئے تھے کہ خدا کی پرستش کریں اور ہر جہت سے اپنے دین و آئین کو خا لص رکھیں۔ یہ معنی ” دین “ کے وسیع مفہوم کے ساتھ زیادہ ساز گار ہے ۔ اور بعد والا جملہ ” و ذٰلک دین القیمة“ جو دین وسیع معنی میں پیش کرتا ہے اسی معنی کی تائید کرتا ہے ۔ ” حنفاء“ ” حنیف“ جمع ہے ، جو ” حنف“ ( بر وزن کنف) کے مادہ سے ہے ، اور مفردات“میں ” راغب“ کے قول کے مطابق، گمراہی سے راہ مستقیم کی طرف مائل ہونے کے معنی میں ہے اور عرب ان تمام لوگوں کو جو” حج“ بجا لاتے تھے یا ” ختنہ“ کیا کرتے تھے، ”حنیف“ کہا کرتے تھے ( اور احنف) اس شخص کو کہا جاتا ہے جس کا پاوٴں ٹیڑھا ہو۔
مجموعی طور سے لعنت کی مختلف کتابوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لفظ اصل میں انحراف اورٹیڑھے پن کے معنی میں تھا البتہ قرآن، اور اسلامی روایات میں شرک سے توحید و ہدایت کی طرف انحراف کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔
اس تعبیر کا انتخاب ممکن ہے اصل میں اس بناء پرہو کہ بت پرست معاشرے ہر اس شخص کو جو ان کے دین کو چھوڑ کر توحید کی طرف قدم بڑھاتا تھا، اسے ” حنیف“ ( منحرف ) شمار کرتے تھے ، اور پھر آہستہ آہستہ یہ تعبیر راہ توحید کو طے کرنے والوں کے لئے ایک رائج تعبیر کے عنوان سے پہچانی گئی، اور حقیقت میں اس کا مفہوم ” ضلالت“سے ہدایت کی طرف انحراف تھا ۔ اور اس کا لازمہ ، وہی توحید خالص اور اعتدالِ کامل اور ہر قسم کے افراط و تفریط سے اجتناب ہے ، لیکن اس بات کو نہیں بھولنا چاہیئے کہ یہ سب اس نقط کے ثانوی معنوی ہیں ۔
و ذٰلک دین القیمة3
کا جملہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ اصول یعنی توحید خالص اور نماز ( خالق کی طرف توجہ ) اور زکوٰة( مخلوق کی طرف توجہ ) تمام ادیان کے ثابت ہونے اور پائیدار اصول ہیں، بلکہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ انسا ن فطرت میں داخل ہیں ۔
کیونکہ ایک طرف تو انسان کی سر نوشت مسئلہ توحید پر اور دوسری طرف سے اس کی فطرت منعم کا شکر ادا کرنے اور اس کی معرفت و شناخت کی دعوت دیتی ہے ، اور تیسری طرف سے روح اجتماعی اور انسان کی مدنیت اسے محروم افراد کی مدد کے لیے پکارتی ہے ۔
اس بناء پر ان احکام و دستورات کی جڑ بنیاد کلی طور پر فطرت کی جملہ گہرائیوں میں موجود ہے ۔ اسی لیے یہ تمام گزشتہ انبیاء اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تعلیمات میں پائی جاتی ہے۔
۶۔ انَ الذین کفروا من اہل الکتاب و المشرکین فی نار جھنم خالدین فیھا اولٰٓئک ھم شر البریّة۔
۷۔ انّ الذین اٰمنوا وعملوا الصالحات اولٰٓئکَ ھم خیر البریّة۔ ۸۔ جزآوٴُ ھم عند ربھم جنات عدن تجری من تحتھا الانھار خالدین فیھآ ابداً رضیَ اللہ عنھم و رضو عنہ ذٰلک لمن خشی ربّہ۔
ترجمہ
۶۔ اہل کتاب اور مشرک کفار و دوزخ میں جائیں گے اور ہمیشہ اسی میں رہیں گے ، وہ بدترین مخلوق ہیں ۔
۷۔ یقینی طور سے وہ لوگ جو ایمان لائے ہیں اور انہوں نے اعمال صالح انجام دیے ہیں ، وہ ( خدا کی )بہترین مخلوق ہیں۔
۸۔ ان کی جزاء ان کے پروردگار کے یہاں بہشتِ جاودانی کے باغات ہیں ، جس کے درختوں کے نیچے نہریں ہیں ۔ وہ ہمیشہ ہمیشہ اسی رہیں گے ، خدا بھی ان سے راضی ہے اور وہ بھی خدا سے راضی ہیں ، اور یہ ( بلند مقام) اس شخص کے لیے، جو اپنے پروردگار سے ڈرے۔



  ۱۔ اس بات پر توجہ کرنا چاہئیے کہ ” منفکین“ جو” منفک“ کی جمع ہے ، ممکن ہے کہ اسم فاعل ہو، یا اسم مفعول ہو، پہلی اور دوسری تفسیر کی بناء پر اسم فاعل کے معنی دیتا ہے اور تیسری تفسیر کی بناء پر اسم مفعول کا ( غور کیجئے)۔
2۔” وما امروا“ کا جملہ کہ ” جملہٴ حالیہ“ ہو یا ” استینافیہ“ ہو اور ” لیعبدوا“ میں لام“ ” لام غرض“ ہو ، اور یہاں اس سے مراد وہ مقصد اور نتیجہ ہو جو بندوں کی طرف لوٹتا ہے ، نہ کہ وہ ہدف و نتیجہ جو خدا کی طرف لوٹے ، جیسا کہ بعض مفسرین نے خیال کیا ہے ۔ اور اسی وجہ سے انہوں نے لام غرض“ کا انکار کیا ہے ۔ اصولی طور پر خدا کے تمام افعال کی کوئی نہ کوئی غرض اور علت ہوتی ہے ، لیکن وہ اغراض ایسے ہوتے ہیں جو بندوں کی طرف لوٹتے ہیں ، اور بعض نے یہاں” لام “کو” ان“ کے معنی میں سمجھا ہے جیسا کہ ” یرید اللہ لیبین لکم “ ( نساء:۲۶) میں ہے ۔
3۔اس بات پرتوجہ رکھنا چاہیئے کہ ” دین القیمة“ اضافت کی صورت میں ہے، وصف کی صورت میں نہیں ہے ۔ اور اس کا مفہوم یہ ہے کہ یہ ایک ایسا دین ہے جو گزشتہ( مستقیم اور قابل قدر) کتب قیمہ میں آیا ہے، یایہ ایک ایسا دین ہے جس میں اسلام کے مستقیم اور قابل قدر احکام بیان ہوئے ہیں ، اس بناء پر قیمة کا موٴنث ہونا اس وجہ سے ہے کہ وہ ” کتب“ یاملت و شریعت کا وصف ہے ( غور کیجئے)

 

اس سورہ کی تلاوت کی فضیلت بہترین اوربد ترین مخلوق
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma