کم تولنا فساد فی الارض کا ایک سبب ہے

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونه جلد 27
کم تولنے والوں پر وائے ہے تو کیا جانے سجین کیاہے ؟

قرآن مجید کی آیات میں کئی مرتبہ کم تولنے کی مذمت کی گئی ۔ کبھی حضرت شعیب کے واقعہ میں جہاں وہ قوم کو خطاب کرکے کہتے ہیں
( اوفوا الکیل ولاتکونوا من المخسرین وزنو ا بالقسطاس المستقیم ولاتبخسوا الناس اشیاء ھم ولاتعثوا فی الارض مفسدین )
”پیمانے کے حق کو ادا کرو اور دوسروںکو نقصان نہ پہنچاوٴ۔وزن صحیح ترازومیں کرو اور لوگوں کے حق میں کمی نہ کرو اور زمین میں فساد بر پا نہ کرو“۔ ( شعراء۔ ۱۸۱ تا ۱۸۳)۔
اس طرح وزن کرتے وقت اور چیز کو پیمانے سے ناپتے وقت تولنے کو اور انصاف کو نظر انداز کرنے کو فساد فی لارض بتا یا گیا ہے اور یہ کام اجتماعی مفاسد میں سے ایک ہے ۔
سورہ رحمن کی آیت ۷/۸ میں وزن کرتے وقت انصاف سے کام لینے کو عالم ہستی کے نظام تخلیق میں عدالت کار فرما ہے ، اس کے برابربر قرار دیا گیاہے ، فرماتاہے :
( و السماء رفعھا و وضع المیزان الاَّ تطغوا فی المیزان ) ” خد انے آسمان کو بلند کیا اورہر چیز میں میزان و حساب رکھا تاکہ تم وزن و حساب میں طغیان و سر کشی سے کام نہ لو “۔
یہ اس طرف اشارہ ہے کہ ناپ تول میں عدل کی رعایت کا مسئلہ کم اہم نہیں ہے بلکہ حقیقت میں اصل عدالت ہے اور سارے نظام ہستی پر حاکم نظم کلی ک ایک جز ہے ۔
اسی بناپر عظیم آئمہ اسلام نے اس مسئلہ کو بہت زیادہ اہمیت دی ہے ، یہاں تک کہ اصبغ بن نباتہ کی مشہور روایت میں آیاہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت علی علیہ السلام سے سنا کہ آپ منبر پر فرمارہے تھے:
( یامعاشر التجار ! الفقہ ثم المتجر ) اے گروہ تجار پہلے فقہ کی تعلیم حاصل کرو اس کے بعد تجارت کرو “ ۔ اس بات کی امام نے تین بار تکرار کی اور اس کلام کے آخر میں فرمایا :
( التاجر و الفاجر فی النار الاَّ من اخذ الحق و اعطی الحق ) ” تجارت کرنے والافاجر ہے اور فاجر دوزخی ہے سوائے اس کے جو صرف اپنا حق لوگوں سے لے اور لوگوں کا حق ادا کرے “۔ ۱
ایک اور حدیث میں امام محمد باقر علیہ السلام سے منقول ہے کہ جس وقت امیر المومنین علی علیہ السلام کوفہ میں تھے تو آپ ہر روز صبح کے وقت کوفے کے بازاروں میں آتے اور ایک ایک بازار میں گشت کرتے اور تازیانہ آپ کے کاندھے پر ہوتا ہر بازار کے وسط میں کھڑے ہو جاتے اور بلند آواز سے کہتے اے گروہ تجار ! خدا سے ڈرو ۔
جس وقت حضرت علی علیہ السلام کی پکار کو سنتے جو کچھ تاجروںکے ہاتھوں میں ہوتا رکھ دیتے اور پورے خلوص کے ساتھ آ پ  کی باتوں کو سنتے ۔ اس کے بعد آپ  فرماتے :
قدموا الاستخارة وتبرکوا بالسھولة و اقتربوا من المبتاعین و تزینوا بالحلم و تناھوا عن الیمین وجانبوا الکذب وتجافوا عن الظلم و انصفوا المظلومین ولا تقربوا الربا و اوفوا الکیل و المیزان ولا تبخسوا الناس اشیاء ھم و لاتعثوا فی الارض مفسدین )
” خد اسے خیر طلب کرو اور لوگوں کے ساتھ معاملہ آسان کرکے بر کت چاہو اور خریداروں کے پاس جاوٴ ، حلم و برد باری کو اپنی زینت قرار دو، قسم کھانے سے پرہیز کرو ، جھوٹ بولنے سے اجتناب کرو ، ظلم سے بچو اور مظلوموں کا حق ظالموں سے لے کر دو ، سود کے قریب نہ جاوٴ، پیمانے اور وزن کے معاملہ میں پورے پورے انصاف سے کام لو ، لوگوں کی چیزوں میں کمی نہ کرو اور زمین میں باعث فسا د نہ بنا کرو ۔
اس طرح کہ آپ کوفہ کے بازاروں میں گردش کرتے ، اس کے بعد دار الامارة کی طرف پلٹ آتے اور لوگوں کی داد خواہی اور ان کے درمیان فیصلہ کرنے کے لئے بیٹھ جاتے ۔2
اور جیسا کہ ان آیات کی شان نزول میں بھی آیا ہے کہ پیغمبر اکرم فرماتے ہیں :” جو گروہ کم تولے گا خدا اس کی زراعت اس سے چھین لے گا اور اسے قحط سالی میں مبتلا کردے گا ، جو کچھ اوپر کہا گیا اس سے معلوم ہو تاہے کہ بعض گزشتہ اقوال کی بربادی اور ان پرعذاب نازل ہونے کے عامل یہ ہے کہ وہ کم تولتے تھے ۔ ان کا یہ اقدام ان کی اقتصادی بدحالی اور نزولِ عذاب خدا کا سبب بنا۔
یہاں تک اسلامی روایت میں آداب تجارت کے سلسلہ میں آیاہے کہ مومنین کے لئے بہتر ہے کہ پیمانے بھر تے اور وزن کرتے وقت زیادہ دیں او ر لیتے وقت اپنا حق کچھ کم لیں ( ( ان لوگوں کے کام کے بالکل بر عکس جن کی طرف مندرجہ بالا آیات میں اشارہ ہو اہے کہ وہ اپنا حق تو پورا پورا وصول کرتے تھے لیکن دوسروں کا حق کم دیتے تھے )3
دوسرے ، جیساکہ ہم نے اوپر والی آیت کی تفسیر میں اشارہ کیا ہے کم تولنے کا مسئلہ بعض مفسرین کے نظریہ کے مطابق وسیع معا نی کا حامل ہے ، جو ہر قسم کے اجتماعی و انفرادی اور خدا سے تعلق رکھنے والی ذمہ داریوں کے انجام دینے کے سلسلہ میں کمی ہو سکتی ہے ، اس کو بھی اپنے دامن میں لئے ہوئے ہے ۔
۷۔ کلّا ٓ اِنَّ کتٰب الفجّٓر لفی سجّینٍ ۔
۸۔ وماَ ادرٰک ما سجِّینٌ۔
۹۔ کتٰبٌ مرقومٌ۔
۱۰۔ویلٌ یَّومَئِذٍ للمُکذِّبینَ۔
ترجمہ
۷۔ اس طرح نہیں ہے ( جیساکہ وہ قیامت کے بارے میں خیال کرتے ہیں ) یقینافاجروں کا نامہ اعمال سجّین میں ہے ۔
۸۔ تو کیاجانے سجّین کیاہے ؟
۹۔ رقم زدہ نامہ اور سرنوشت ہے۔
۱۰۔ وائے ہے اس دن تکذیب کرنے والوں پر۔

 


۱۔ کافی ، جلد۵ ، باب آداب التجارة حدیث۱۔
2۔ کافی، باب آداب التجارة حدیث ۳ ( تھوڑے سے اختصار کے ساتھ )
3۔وسائل الشیعہ ، جلد ۱۲ ، ابواب التجارة باب ۷ ، ص ۲۹۰ سے رجوع فرمائیے۔
 
کم تولنے والوں پر وائے ہے تو کیا جانے سجین کیاہے ؟
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma