۱۔ علی علیہ السلام اور ان کے شیعہ خیر البریہ ہیں

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونه جلد 27
 بہترین اوربد ترین مخلوق۲۔ عبادت میں خلوص نیت لازم ہے

بکثرت روایات میں ، جو اہل سنت کے طریقوں سے ان کی مشہور کتابوں میں اور اسی طرح شیعوں کی مشہور کتابوں میں نقل ہوئی ہیں آیہ (اولٰئک ھم خیر البریة) (وہ خدا کی بہترین مخلوق ہیں )کی علی علیہ السلام اور ان کے پیرو کاروں کے ساتھ تفسیر ہوئی ہے ۔
” حاکم حسکانی “ نیشاپوری نے ، جو پانچویں صدی ہجری کے مشہور علماء اہل سنت میں سے ہیں ، ان رویات کو اپنی مشہور کتاب ”شواہدالتنزیل“ میں مختلف اسناد کے ساتھ نقل کیا ہے ، اور ان کی تعداد بیس ہزار روایات سے زیادہ ہے جن میں سے ہم چند روایات کو نمونہ کے طور پر آپ کے سامنے پیش کرتے ہیں ۔
۱۔ ” ابن العباس“ کہتے ہیں جس وقت آیہ” الذین امنوا و عملوا الصالحات اولٰئک ھم خیر البریة“ نازل ہوئی تو پیغمبر اکرم  نے علی علیہ السلام سے فرمایا : ” ھو انت و شیعتک تاٴتی انت و شیعتک یوم القیامة راضیین مرضیین و یاٴتی عدوک غضباناً مقمحین“” اس آیت سے مراد تو اورتیرے شیعہ ہیں جو روز قیامت عرصہٴ محشر میں اس حال میں وارد ہوں گے کہ تم بھی خدا سے راضی ہوگے اور خدا بھی تم سے راضی ہوگا ، اور تیرا دشمن غصہ کی حالت میں عرصہٴ محشرمیں وارد ہوگا اور زبر دستی اس کو جہنم میں دھکیل دیا جائے گا “۔ ( حدیث کے بعض نسخوں میں مقمحین آیا ہے ، جس کا معنی طوق و زنجیر کے ذریعہ سر کو اونچا رکھنا ہے )۔ ( شواہد التنزیل“ جلد ۲ ص ۳۵۷ حدیث ۱۱۲۶)
۲۔ ایک دوسری حدیث میں ” ابو برزہ“ سے آیا ہے کہ جس وقت پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کی تو فرمایا :
ھم انت و شیعتک یا علی و میعاد ما بینی و بینک الحوض
” اے علی  ! وہ تو اور تیرے شیعہ ہیں ، اور تیری اور میری وعدہ گاہ حوض کوثر ہے ۔ ۱
۳۔ ایک اور حدیث میں ” جابر بن عبد اللہ انصاری“ سے آیاہے کہ ہم خانہٴ خد اکے پاس پیغمبر اکرم  کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے کہ علی علیہ السلام ہماری طرف آے ، جس وقت پیغمبر  کی نگاہ ان پر پڑی تو فرمایا:” قد اتاکم اخی“میرا بھائی تمہاری طرف آرہاہے ۔
پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خانہ خدا کی طرف رخ کیا او رفرمایا :
فقال ورب ھٰذہ البنیة ان ھٰذا و شیعتہ ھم الفائزون یوم القیامة
” اس کعبہ کے خدا کی قسم یہ شخص اور اس کے شیعہ قیامت کے دن رست گار اور کامیاب ہو ںگے“
اس کے بعد ہماری طرف رخ کیا اور فرمایا:
”اما و اللہ انّہ اٴولکم ایماناًباللہ ، و اقومکم بامر اللہ و اوفاکم بعہد اللہ ، و اقضا کم بحکم اللہ و قسمکم بالسویة، و اعدلکم فی الرعیة، و اعظمکم عند اللہ مزیة“۔
قال جابر“: فانزل اللہ : انّ الذٰن اٰمنوا و عملوا الصالحات اولٰئک ھم خیر البریة فکان اذا اقبل قال اصحاب محمد ( صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم )قد اتاکم خیر البریة بعد الرسول :
” خدا کی قسم یہ تم سب میں سے پہلے خدا پر ایمان لایا ہے اور اس نے خدا کے حکم سے تم سب میں پہلے قیام کیا ہے، خدا کے عہد کو تم سب سے زیادہ وفا کرنے والا ہے ، اور وہ تم سب سے زیادہ اللہ کے حکم کے مطابق فیصلے کرنے والا ہے اور وہ ( بیت المال ) کی تقسیم میں سب سے زیادہ مساوات کرنے والاہے ، رعیت میں سب سے زیادہ عدل کرنے والا ہے ، اور اس کا مقام و مرتبہ خدا کے نزدیک تم سب سے زیادہ ہے “۔
جابر کہتے ہیں کہ اس موقع پر خدا نے آیہ ”انّ الذین اٰمنواو عملوا الصالحات اولٰئک ھم خیر البریة
نازل فرمائی۔ اس کے بعد جب بھی کبھی علی علیہ السلام آتے تو اصحاب محمد( صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم )انہیں آتا ہوا دیکھ کر کہتے :رسول اللہ  کے بعد خدا کی مخلوق میں جو سب سے زیادہ بہتر وہ آرہاہے ۔ ۲
اس آیت کا خانہٴ کعبہ کے پاس نزول اس سورہ کے مدنی ہونے کے ساتھ منافات نہیں رکھتا ، کیونکہ ممکن ہے کہ یہ نزول مجدد کے قبیل سے ہوا ، یا تطبیق کے عنوان سے ہو، علاوہ از یں بعید نہیں ہے کہ ان آیات کا نزول ان سفروں میں ہوا ہو جن میں پیغمبر  مدینہ سے مکہ کی طرف آئے تھے ، خصوصاً جب کہ اس روایت کا راوی” جابر بن عبد اللہ انصاری “ ہے جو مدینہ میں آپ کے ساتھ ملحق ہوئے تھے ، اور اس قسم کی آیات پر مدنی ہونے کا اطلاق بعید نہیں ہے ۔
ان احادیث میں سے بعض کو” ابن حجر“ نے کتاب” صواعق محرقہ“ میں نقل کیا ہے ۔ بعض کو شبلنجی نے ” نور الابصار“ میں ذکر کیا ہے ۔ ۳
” جلال الدین سیوطی“ نے ” در المنثور“ میں بھی آخری روایت کا عمدہ حصہ” ابن عساکر“ سے جابر بن عبد اللہ انصاری“ سے نقل کیاہے۔ 4
۴۔ ” در المنثور“ میں آیاہے کہ جس وقت آیہٴ ” انّ الذین اٰمنواو عملوا الصالحات اولٰئک ھم خیر البریة“نازل ہوئی ، تو پیغمبر  نے علی علیہ السلام سے فرمایا:
ھو انت و شیعتک یوم القیامة راضین مرضین
” وہ تو اور تیرے شیعہ ہیں ، قیامت کے دن تم خدا سے راضی ہوگے اور خدا تم سے راضی ہوگا“۔ 5
۵۔ مذکورہ موٴلف نے ایک دوسری حدیث میں ” ابن مردویہ“ کے واسطے سے علی علیہ السلام سے نقل کیا ہے کہ پیغمبر اکرام نے مجھ سے فرمایا:
الم تسمع قول اللہ : انّ الذین اٰمنواو عملوا الصالحات اولٰئک ھم خیر البریة؟ انت و شیعتک و موعدی و موعدکم الحوض، اذات جئت الامر للحساب تد عون غرا محجلین:6
” کیا تم نے خداکا یہ ارشاد نہیں سنا کہ فرماتا ہے : لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اعمال صالح انجام دیے وہ بہترین مخلوق ہیں ؟ یہ تم اور تمہارے شیعہ ہیں ۔ اور میری اور تمہاری وعدہ گاہ حوض کوثر کا کنارہ ہے ۔ جب میں امتوں کے حساب کے لیے آوٴں گا تو تمہیں ” غر محجلین “ (سفید پیشانی والے )کہہ کر پکارا جائے گا۔
اہل سنت کے اور بھی بہت سے دوسرے علماء نے اسی مضمون کو اپنی اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے ، منجملہ ” خطیب خوارزمی“ نے ” مناقب “ میں ” ابو نعیم اصفہانی“ نے ” کفایت الخصام “ ،میں ” علامہ طبعی“ نے اپنی مشہور تفسیر میں ” ابن صباغ مالکی“ نے ” فصول المھمة“ میں علامہ شوکانی “ نے فتح القدیر “ میں ” شیخ سلیمان قندوزی “ نے” ینابیع والمودة‘اور ” آلوسی“ نے ”روح المعانی“ میں زیر بحث آیات کے ذیل میں ، اور بہت سے دوسرے علماء نے ۔
خلاصہ یہ ہے کہ اوپر والی حدیث میں بہت ہی مشہور و معروف احادیث میں سے ہے کہ جسے اکثر دانش مندوں اور علماء اسلام نے قبول کیا ہے ، اور یہ علی علیہ السلام اور ان کے شیعوں کی ایک بہت بڑی فضیلت ہے ۔
ضمنی طور پر ان روایات سے یہ حقیقت اچھی طرح آشکار ہو جاتی ہے کہ لفظ” شیعہ “ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانہ سے ہی آنحضرت کے ذریعے مسلمانوں کے درمیان نشر ہوا، اور یہ امیر المومنین علی علیہ السلام کے خاص پیروکار وں کی طرف اشارہ ہے ۔ لہٰذا وہ لوگ جو یہ گمان کرتے ہیں ” شیعہ“ کی تعبیر صدیوں بعد وجود میں آئی ہے، بہت بڑی غلط فہمی میں مبتلا ہیں ۔


 

۱۔ وہی مدرک ص ۳۵۹ حدیث ۱۱۳۰۔
۲۔ وہی مدر ک ص ۳۶۲ حدیث ۱۱۳۹۔
۳۔ ” صواعق محرقہ“ص ۹۶ ” نو ر الابصار“ ص ۷۰، ۱۰۱۔
4۔” در المنثور“ جلد۶ ص ۳۷۹۔
5۔ ” در المنثور“ جلد۶ ص ۳۷۹۔
6۔ ” در المنثور“ جلد۶ ص ۳۷۹۔

 بہترین اوربد ترین مخلوق۲۔ عبادت میں خلوص نیت لازم ہے
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma