انسان ہمیشہ انسانی وسوسوں کی زد میں ہے اور شیا طین جن و انس کی یہ کوشش رہتی ہے کہ وہ اس کے قلب و روح میں نفوذ کریں ۔انسان کا مقام علم میں جتنا بالا ہوتا جا تا ہے اور اس کی حیثیت اجتماع اور معاشرے میں جتنی بڑ ھتی جاتی ہے ،شیا طین کے وسوسے اتنے ہی زیادہ شدید ہوتے چلے جاتے ہیں ،تاکہ اس کو راہ حق سے منحرف کر دیں اور ایک دانش ور عالم کے فساد و خرابی سے سارے جہان کو تباہ و بر باد کر ڈالیں ۔
یہ سورہ پیغمبر اکرم کو ایک نمونہ و اسوہ کے طور پر اور پیشواوررہبر کی حیثیت سے یہ حکم دے رہی ہے کہ تمام وسوسے ڈالنے والوں کے شر سے خدا کی پناہ طلب فر مائیں ۔
اس سورہ کے مطالب ایک لحاظ سے سورہ ”فلق “سے مشابہ ہیں، اور دونوں میں ہی شرو ر وآفات سے خدا وند بزرگ کی پناہ مانگنے کو بیان کیا گیا ہے ،اس فرق کے ساتھ کہ سورہ فلق میں شرور کے مختلف انواع و اقسام بیان کیے گئے ہیں ،لیکن اس سورہ میں صرف نظر نہ آنے والے وسوسہ گروں (وسواس الخناس)پر تکیہ ہوا ہے ۔
اس بارے میں بھی کہ یہ سورہ مکہ میں نازل ہوا ہے یا مد ینہ میں ، مفسرین کے در میان اختلاف ہے ۔ایک گروہ اسے” مکی “سمجھتا ہے جب کہ دوسری جماعت اسے ”مدنی “شمار کرتی ہے۔ لیکن ا س کی آیات کا لب و لہجہ ”مکی “سورتوں سے زیادہ ملتا جلتا ہے ۔
اس بات کی طرف توجہ کرتے ہوئے کہ روایات کے مطابق یہ سورہ اور سورہ فلق اکٹھے نازل ہوئے ہیں،
اور سورہ فلق ایک کثیر جماعت کے نظریہ کے مطابق مکی ہے چنا نچہ بہت ممکن ہے کہ یہ سورہ مکی ہی ہو ۔