اس شہر ِ مقدس کی قسم

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونه جلد 27
 سورہ ٴ بلد کی فضیلت آنکھ ، زبان او رہدایت کی نعمت

بہت سے مورد میں قرآن کا طریقہ یہ ہے کہ وہ بہت زیادہ اہم حقائق کو قسم کے ساتھ شروع کرتا ہے ، ایسی قسمیں جو خود بھی انسانی عقل اور فکر و نظر کے تحرک کا سبب ہوتی ہیں ، ایسی قسمیں اس مورد نظر مطلب کے ساتھ ایک خاص رابطہ رکھتی ہیں ۔
یہاں بھی اس حقیقت کو بیان کرنے کےلئے کہ دنیا میں انسان کی زندگی دکھ ، درد اور رنج و الم کےساتھ تواٴم ہے ایک نئی قسم سے قسم کرتا ہے اور فرماتا ہے :
”قسم ہے اس شہر مقدس مکہ کی “ ( لااقسم بھٰذا البلد
۱۔( یہاں ” لا “ زائدہ ہے ، جو تاکید کے لئے آیا ہے ۔ البتہ ایک دوسری تفسیر کے مطابق احتمال ہے کہ ” لا“ نافیہ ہو ( اس سلسلہ میں مزید وضاحت سورہٴ قیامت کی ابتداء میں دی گئی ہے )۔
” وہ شہر کہ جس میں تو ساکن ہے “ ( و انت حل بھٰذا البلد
اگر چہ ان آیات میں مکہ کا نام صراحت کے ساتھ نہیں آیا ، لیکن ایک طرف تو اس سورہ کے مکہ ہونے کی طرف توجہ کرتے ہوئے اور دوسری طرف اس مقدس شہر کی حد سے زیادہ اہمیت کی بناپر یہ بات واضح ہے کہ اس سے مراد مکہ ہی ہے ۔ اور مفسرین کا اجماع بھی اسی پر ہے ۔
یقینا سر زمین مکہ کی شرافت اور عظمت اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ خدا کی قسم کھائے ، کیونکہ توحید اور پر وردگار کی عبادت کا پہلا مرکز یہیں بنایا گیا تھا ، اور عظیم پیغمبروں نے اس گھر کے گرد طواف کیاہے ۔ لیکن ” و انت حل بھٰذا البلد“کاجملہ ایک نئے مطلب کو اپنے اندر لئے ہوئے ہے ، جو یہ کہتا ہے کہ یہ شہر تیرے وجود کے فیض و بر کت سے اس قسم کی عظمت کا حامل ہو گیا ہے کہ وہ اس قسم کے لائق ہو گیا ہے ۔
اور حقیقت بھی یہی ہے کہ سر زمینون کی قدرو قیمت ان میں مقیم انسانوں کی قدر و قیمت کی وجہ سے ہوا کرتی ہے ۔ کہیں ایسانہ ہو کہ کفار یہ تصور کرنے لگیںکہ قرآن نے جو اس سر زمین کی قسم کھائی ہے تو وہ ان کا وطن ہونے ، یا ان کے بتوں کا مرکز ہونے کی وجہ سے اس کی اہمیت کا قائل ہوگیا ۔ ایسا نہیں ہے بلکہ اس شہر کی قدر و قیمت ( اس کے مخصوص تاریخی حالات سے قطع نظر ) خدا کے خاص بندے محمد صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کے وجودِ ذی جود کی بناء پر ہے :
اے کعبہ راز یمن قدوم تو شرف دی مردہ رازِ مقدم پاکِ تو صد صفا
بطحا ز نورِ طلعت تو یافتہ فروغ یثرب زخاک پائے تو با رونق و نوا
اے وہ کہ تیرے قدوم میمنت لزوم سے کعبہ کا شرف دوگنا ہوگیا ہے ۔
اور تیرے پاک قدم کے آنے سے مروہ کو صفائی حاصل ہو گئی ہے ۔
بطحا نے تیرے نور کی چمک سے روشنی حاصل کی ہے ۔
اور یثرب تیرے پاوٴں کی خاک کی وجہ سے بارونق اور خوشحال ہو گیا ہے ۔
یہاں ایک اور تفسیر بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ :” میں اس شہر مقدس کی قسم کھاتا ، جب کہ انہوں نے تیرے احترام کی ہتک کی ہے ، اور تیری جان و مال اور عزت و آبرو کو حلال اور مباح شمار کر لیا ہے “۔
اور یہ کفار قریش کے لئے ایک شدید سر زنش اور توبیخ ہے کیونکہ وہ خود کو حرم مکہ کے خادم اور محافظ سمجھتے تھے اور وہ اس سر زمین کے احترام کے اس قدر قائل تھے کہ اگر ان کے باپ کا قاتل بھی اس میں آجاتا تو وہ بھی امان میںہوتا تھا ۔یہاں تک کہ کہتا کہ جو لوگ مکہ کے درختوں کا چھلکا بھی لے کر اپنے بدن پر باند ھ لیتے تھے تو وہ بھی اس کی وجہ سے امان میں ہوتے تھے ، لیکن اس کے باوجود انہوں نے پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کے بارے میں ان تمام ا ٓداب و سنن کو پاوٴں تلے کیوں روند ڈالا؟!
اور آپ اور آپ کے اصحاب کے بارے میں ہر قسم کے آزار و اذیت کو جائز کیوں سمجھ لیا یہاں تک کہ ان کے خون کو بھی مباح سمجھنے لگے؟!
یہ تفسیر ایک حدیث میں امام صادق علیہ السلام سے بھی نقل ہوئی ہے ۔ ( ”مجمع البیان “ جلد۱۰، ص ۴۹۳)
اس کے بعد مزید کہتا ہے :” قسم ہے باپ اور اس کے بیٹے کی ۔( ووالد وما ولد
اس کے بارے میں کہ اس باپ اور بیٹے سے کون مراد ہے َ کئی تفاسیر بیان کی گئی ہیں ۔
پہلی تفسیر یہ کہ ” والد“ سے مراد ” ابراہیم “ اور ولد“ سے مراد اسماعیل  ذبیح “ ہیں اور اس بات کی طرف توجہ کرتے ہوئے کہ گزشتہ آیت میں شہر مکہ کی قسم کھائی گئی ہے اور ہم جانتے ہیں کہ کعبہ اور شہر مکہ کی بنیاد رکھنے والے ابراہیم علیہ السلام اور ان کے فرزند اسماعیل علیہ السلام تھے ، یہ تفسیر بہت ہی مناسب نظر آتی ہے ، خصوصاً زمانہٴ جاہلیت کے عرب بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے فرزند کی حد سے زیادہ اہمیت کے قائل تھے ، اور ان پر فخر کرتے تھے اور ان میں سے بہت سے اپنا نسب اور ان دونوں تک پہنچاتے تھے ۔
دوسری تفسیر یہ ہے کہ اس سے مراد حضرت آدم علیہ السلام اور ان کے بیٹے ہیں۔
تیسری تفسیر یہ ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام اور ان کی ذریت میں سے جو پیغمبراو ر انبیاء مبعوث ہوئے وہ مراد ہیں ۔
چوتھی تفسیر یہ ہے کہ اس سے ہرباپ اور بیٹا مراد ہیںکیونکہ مختلف زمانوں میں تولد اورنسل ِ انسانی کی بقا کا مسئلہ خلقت کی آفرینش کے حیرت انگیز مسائل میں ہے ، اور خدا نے خصو صیت کے ساتھ اس کی قسم کھائی ہے ۔
ان چاروں تفسیروں کے درمیان جمع بھی بعید نہیں ہے اگرچہ پہلی تفسیر سب سے زیادہ مناسب نظر آتی ہے ۔ ۱
۱۔ بعض تفاسیر میں والدسے مراد امیر المومنین علیہ السلام اور اولاد سے مراد ان کے فرزندان ِ گرامی ہیں ، اور شاید وہ جناب ا س کے بہترین مصداق ہوں ۔ لہٰذا اس تفسیر کو ذکر کرنا زیادہ مناسب تھا۔ ( مترجم )
اس کے بعد اس چیز کو بیان کرتا ہے جو ان قسموں کا اصل مقصد ہے فرماتا ہے : ” یقینا ہم نے انسان کو رنج و تکلیف میں پید اکیا ہے ، ( لقد خلقنا الانسان فی کبد
” کبد“ مجمع لابیان “میں طبرسی کے قول کے مطابق شدت کے معنی میں ہے ، اسی لئے جب دودھ گاڑھا ہوجاتا ہے تو اسے” تکبد اللبن“ کہتے ہیں ۔
لیکن ” مفردات“ میں ” راغب “ کے قول کے مطابق ” کبد“ ( بروزن حسد) اس درد کے معنی میں ہے ، جو انسان کے ” کبد“ ( سیاہ جگر) کو عارض ہوتا ہے ۔ اس کے بعد ہر قسم کی مشقت اور دکھ تکلیف کے لئے اطلاق ہونے لگا۔
اس لفظ کی اصل چاہے جو کچھ بھی ہو اس کا اس مقام پرمفہوم وہی رنج ا ور دکھ درد ہی ہے ۔
ہاں ! انسان آغاز زند گی سے ہی ، یہاں تک کہ اسی لمحہ سے جب اس کا نطفہ قرار گاہ رحم میں واقع ہوتا ہے ۔ مشکلات اور درد و رنج کے بہت سے مرحلے طے کرتا ہوا متولد ہوتا ہے اور پیدا ہونے کے بعد بچپنے میں ، اور ا س کے بعد جوانی میں ، اور زیادہ بڑھاپے میں ، طرح طرح کی زحمتوں ، مشقتوں اور تکالیفات سے روبروہوتا ہے۔ دنیا کی زندگی کا مزاج یہی ہے اور اس کے علاوہ کوئی توقع رکھنا غلطی ہی غلطی ہے ۔ ایک شاعر عرب کے قول کے مطابق :
طبعت علی کدر و انت ترید ھا صفواً عن الاکدار و الاقذار ؟
و مکلف الایام ضد طباعھا متطلب فی الماء جدوة نار ؟
جہاں کی طبیعت کدورت اور گندے پن پر ہے اور تو چاہتا ہے کہ
ہر قسم کی کدورت اور ناپاکی سے صاف ہو،
وہ جو شخص کی مانند ہے جو پانی کی موجوں کے درمیان آگ کا شعلہ طلب کرے ۔
انبیاء اور اولیاء اللہ کی زندگیوں کی طرف نگاہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے آفرینش کے ان سرِ سبد پھولوں کی زندگی بھی انواع و اقسام کے غیر مناسب امور اور دردو تکلیف میں گھری ہوئی تھی ۔ جب دنیا کے لئے اس طرح ہے تو دوسروں کے لئے اس کی وضع و کیفیت واضح ہے ۔
اور اگر ہمیں کچھ افراد یامعاشرے ایسے نظر آتے ہیں جنہیں بظاہر کوئی دکھ اور تکلیف نہیں ہوتی تو وہ یاتو ہمارے سطحی مطالعہ کی وجہ ایسا دکھائی دیتے ہیں ۔ اس لئے جب ہم اور زیادہ نزدیک ہوتے ہیں تو انہیں مرفہ الحال زندگی والوں کی درد و رنج کے عمق اور گہرائی سے آشنا ہوجاتے ہیں ، اور یا پھر وہ ایک محدودمدت اور استثنائی زمانہ کے لئے ہوتا ہے ، جوعالم کے قانوں ِ کلی کو نہیں توڑتا۔
اس کے بعد مزید فرماتا ہے :” کیایہ انسان گمان کرتا ہے کہ کوئی بھی اس پر دست رسی کی قدرت نہیں رکھتا“۔ ( ایحسب ان لن یقدر علیہ احد) ۱
یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ انسان کی زندگی کی ان تمام درد، دکھ اور تکالیف کے ساتھ آمیزش اس بات کی دلیل ہے کہ وہ بالکل کوئی قدرت نہیں رکھتا ۔
لیکن غرور وتکبر کے گھوڑے پر سوار ہے اور ہر قسم کے غلط کام گناہ ِ جرم اور حد سے بڑھ جانے کامرتکب ہوتا رہتا ہے ، گویا وہ خود کو امن و امان میں سمجھتا ہے اور اپنے آپ کو سزاوٴں کی قلم رَوسے دور خیا ل کرتا ہے ۔ جب اسے قدرت حاصل ہو جاتی ہے عذاب کے چنگل سے رہائی حاصل کرلے گا ؟ کتنا بڑا اشتباہ اور غلط فہمی ہے !
یہ احتمال بھی دیا گیا ہے کہ اس سے مراد وہ دولت مند ہیں جو یہ خیال کرتے تھے کہ کو ئی ان کی دولت و ثروت کو ان سے چھین لینے کی قدرت نہیں رکھتا ۔
یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جن کا عقیدہ تھا کہ ان کے اعمال کی کوئی بھی باز پرس نہیں کرے گا ۔
لیکن آیت ایک جامع مفہوم رکھتی ہے جو ان تمام تفاسیر کو شامل ہوسکتی ہے ۔
بعض نے یہ کہا ہے کہ اوپر والی آیت قبیلہ ” جمع“ کے ایک شخص کی طرف جس کا نام ” ابو الاسد“ تھا اشارہ ہے وہ اس قدر طاقتور تھا کہ چمڑے کے ایک ٹکڑے پر بیٹھ جاتا تھا اور دس آدمی اسے اس کے نیچے سے کھینچنا چاہتے تھے تو نہیں کھینچ سکتے تھے وہ چمڑا ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتا تھا ، لیکن وہ اپنی جگہ سے نہیں ہلتا تھا ۔ ۲
لیکن آیت کا اس قسم کے مغرور شخص یا اشخاص کے بارے میں بیان اس مفہوم کی عمومیت و وسعت سے مانع نہیں ہے ۔ ( یقول اہلکت مالا لبداً
یہ ایسے لوگوں کی طرف اشارہ ہے کہ جب انہیں کارِ خیر میں مال صرف کرنے کو کہتے تھے تو وہ غرور و نخوت کی بناء پر یہ کہتے تھے : ہم نے یہ بہت زیادہ مال ان کاموں میں صرف کیا ہے ، حالانکہ انہوں نے خدا کی راہ میں کوئی چیز خرچ نہیں کی تھی۔ اور اگر انہوں نے کسی کو مال دیا بھی تھا تو وہ دکھاوے ، یا ریا کاری اور شخصی اغراض کی بناء پر تھا ۔
بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ آیت میں ان لوگوں کی طرف اشارہ ہے جنہوں نے اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی دشمنی اور اسلام کے برخلاف سازشوں میں صرف کیا تھا اور وہ اس پر فخر کرتے تھے ، جیسا کہ ایک حدیث میں آیا ہے کہ جنگِ خندق کے دن جب علی علیہ السلام نے عمر بن عبد ود کے سامنے اسلام کو پیش کیا تو اس نے جواب میں کہا :
فاین ما انفقت فیکم مالاً لبداً
” پس وہ سارامال جومیں نے تمہاری مخالفت میں صرف کیا ہے اس کا کیا بنے گا“۔ 3
بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ آیت ” حارث بن عامر جیسے بعض سردارانِ قریش کے بارے میں ہے ، جو ایک گناہ کا مرتکب ہواتھا ۔ اس نے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نجات کے بارے میں پوچھا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اسے کفارہ دینے کاحکم دیا ۔ اس نے کہا: جب سے میں دین ِ اسلام میں داخل ہواہوں میرا تمام مال و دولت کفاروں اور نفقات میں نابودہوگیا ہے 4
ان تینوں تفاسیر کے درمیان جمع میں کوئی امرمانع نہیں ہے اگر چہ پہلی تفسیر آیت کے ساتھ زیادہ مناسب ہے ۔
اھلکت “ کی تعبیر اس بات کی طرف اشارہ ہے کہاس کے اموال در حقیقت نابودہی ہوئے ہیں ، اور اسے ان سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا ۔
” لبد “ ( بر وزن لغت) تہ بہ تہ اور انبوہ کثیر کے معنی میں ہے اور یہاں بہت زیادہ مال کے معنی میںہے ۔
اس کے بعد مزید فرماتا ہے : ” کیا وہ یہ گمان کرتا ہے کہ اسے کسی نے نہیں دیکھا ، اور نہ ہی دیکھے گا“؟ ! ( ایحسب ان الم یرہ احد
وہ اس حقیقت سے غافل ہے کہ نہ صرف اس کے ظاہری اعمال کو خلوت و جلوت میں دیکھتا ہے ، بلکہ اس کے دل اور روح کی گہرائیوں سے بھی آگاہ ہے ، اور اس کی نیتوں سے باخبر ہے ۔ کیا یہ ممکن ہے کہ وہ خدا جس کا غیر متناہی وجود ہر چیز پر احاطہ رکھتا ہے کسی چیز کو نہ دیکھے اور نہ جانے ؟ یہ غافل اس بات سے بے خبر ہیں کہ وہ اپنی جہالت اور نادانی کی وجہ سے خود کو پر وردگار کی دائمی نگرانی ست باہر خیال کر رہے ہیں ۔
ہاں خد اکو علم ہے کہ انہوں نے یہ اموال کہاں سے حاصل کئے ہیں اور انہیںکس راہ میں صرف کیاہے ؟ ! ایک حدیث میں ابن عباسۻ سے نقل ہو اہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
لا تزول قد ما العبد حتی یساٴل عن اربعة: عن عمرہ فیما افناہ و عن مالہ من این جمعہ ، و فیما ذا انفقہ؟ و عن عملہ ماذا عمل بہ ؟ و عن حبنا اہل البیت
”قیامت میں کوئی شخص اپنے قدم سے قدم نہیں اٹھائے گا ، مگر یہ کہ چارچیزوں کے بارے میں اس سے سوال ہو گا: اس کی عمر کے بارے میں کہ اسے کس راہ میں فنا کیا ، اس کے مال کے بارے میں کہ اسے کہاں سے جمع کیا ، کس راہ میں اسے صرف کیا ، اور اس کے عمل کے بارے میں کہ اس نے کون کون ساعمل انجام دیا ، اور ہم اہل بیت  کی محبت و مودت کے بارے میں “ 5
5۔
او پروہ یہ دعویٰ کیسے کر تا ہے کہ میں نے بہت زیادہ مال خدا کی راہ میں خرچ کیا ہے جب کہ وہ اس کی نیت سے آگاہ ہے ، اور ان اموال کے غیر شرعی حصول کی کیفیت سے بھی آگاہ ہے ، اور ریا کاری اور مغر ضانہ طورپر صَرف کرنے کی کیفیت سے بھی باخبر ہے ۔

 


۱۔ ” ان “ اس جملہ میں ” مثقلہ سے مخففہ ہے “ اور تقدیر میں ” انہ لن یقدر علیہ احد“ ہے ۔
۲۔” مجمع البیان “جلد ۱۰ ، ص ۴۹۳۔
3< ۱۰۔ حدیث ۵۸۰ ص ۵ جلد الثقلین نور « مسکن الفؤاد»، صفحه 14.
4۔ مجمع البیان جلد ۱۰ ،ص ۴۹۳۔ ۔ خلاصہ یہ ہے کہ انسان کس طرح سے مغرور ہو جاتا ہے اور قدرت و طاقت کا دعویٰ کیسے کرتا ہے ، حالانکہ اس کی زندگی درد و رنج اور تکلیفات کے ساتھ خمیر ہوئی ہے ۔ اگر اس کے پاس کچھ مال ہے تو ایک رات کے لئے ہے ، اور اگر جان رکھتا ہے توایک بخار تک ہے
 سورہ ٴ بلد کی فضیلت آنکھ ، زبان او رہدایت کی نعمت
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma