وہ دن جس میں کوئی شخص کسی کے لئے کوئی کام انجام نہیں دے گا ۔

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونه جلد 27
ثبت اعمال کے مامورین سورہ مطففین

اس بحث کے بعد جو گزشتہ آیات میں فرشتوں کے ذریعہ انسانوں کے اعمال کے ثبت و ضبط کے سلسلہ میں آئی ہے ان آیتوں میں اس حساب و کتاب کے نیچے اور نیکیوں او ربروں کی جو رہگذر ہے اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پروردگار عالم فرماتاہے :
” یقینا نیک اور صالح افراد خد اکی عظیم نعمت میںہیں “( ان الابرار لفی نعیم )۔ ” اور بدکار یقینا جہنم میں ہیں “ ( ان الفجار لفی جحیم) ۔
” ابرار“ ۔” بار“ اور” بر“ ( بر وزن حق) کی جمع ہے جس کے معنی نیکو کار شخص کے ہیں ۔ اور ” بِر“ ( ب کے زیر کے ساتھ ) ہر قسم کی نیکی کے معنی میںہے ۔ یہاں اچھے عقائد بھی مراد ہیں اور اچھی نیتیں اور اچھے اعمال بھی ۔
” نعیم “ مفرد ہے اور نعمت کے معنی میں ہے اور یہاں بہشت جاودانی کے معنی میں ہے اور نکرہ کی صورت میں آیاہے اس نعمت کی اہمیت ، وسعت اور عظمت کے بیان کے لئے ہے ، خدا کے علاوہ کوئی اور اس کی وسعت و عظمت سے واقف نہیں ہے ۔
” نعیم“ جو یہاں صفت مشبہ ہے یہاں ا س کی نعمت کی بقا اور اس کے استمرار کی تاکید کے لئے ہے ۔ یہ مفہوم عام طور پر صفت مشبہ میں چھپا ہوتا ہے ۔
” فجار “ فاجر کی جمع ہے ۔ اصل میں فجر کے معنی و سیع طور پرشگاف کر نے کے ہیں اور طلوع صبح کو اس لئے فجر کہتے ہیں گویا رات کا سیاہ پردہ سپیدٴ سحری کے ہاتھوں کلی طور پر شگافتہ ہو جاتاہے ۔ اس بناپر فجور کا لفظ ان لوگوں کے اعمال کے بارے میں دستیاب ہوتاہے جو پاکدامنی اور تقویٰ کا پردہ چاک کرتے ہیںاور گناہ کے راستے میں قدم رکھتے ہیں ۔
” جحیم“۔” جحم“( بر وزن فہم ) کے مادہ سے آگ بھڑ کانے معنی ہے ۔ اس وجہ جحیم بھڑکتی ہو ئی آگ کو کہتے ہیں ۔
قرآنی تعبیر میں یہ لفظ عام طور پر دوزخ کے معنی میں آیاہے اور یہ جو فرماتاہے :
’ نیکو کار جنت میں اور بد کار دوزخ میں ہیں “ ممکن ہے اس معنی میں ہو کہ وہ ابھی سے جنت اور دوزخ میں واردہوگئے ہیں اور اس دنیا ہی میں جنت کی نعمتوں اور جہنم کے عذاب نے انہیں گھیر رکھا ہے جیسا کہ سورہٴ عنکبوت کی آیت۵۴ میں پڑھتے ہیں :(و ان جھنم لمحیطة بالکافرین )۔ ” دوزخ نے کافروں کااحاطہ کر رکھا ہے “۔
لیکن ایک جماعت نے کہا کہ اس قسم کی تعبیریں حتمی اور یقینی طور پر مستقبل کی طرف اشارہ کرتی ہیں ۔ اس لئے کہ ادب عربی میں حتمی اور یقینی مستقبل اور متحقق الوقوع مضارع کو حال کی شکل میں اور کبھی ماضی کی شکل بیان کرتے ہیں ۔
( آیت کے پہلے معنی طاہر کے ساتھ ساز گارہیں لیکن مناسب دوسرے معنی ہیں )۔
بعدکی آیت میں فاجروں کی سر نوشت کے بارے میں وضاحت کرتے ہوئے مزید فرماتاہے :” وہ روزجزا اور دوزخ میں داخل ہوں گے اور اس کی آگ میں جلیں گے “۔( یصلونھا یوم الدین
جب گذشتہ آیت کے معنی ایسے ہوں کہ وہ ابھی سے دوزخ میں داخل ہیں تو پھر یہ آیت بتاتی ہے کہ روز قیامت اس جلانے والی آگ میں ان کا داخلہ اور شدیدہوگا اور آگ کے اثر کو وہ اچھی طرح محسوس کریں گے ۔
یصلون “ ۔” صلی“ (بر وزن سعی) کے مادہ سے آگ میں داخل ہونے ، جلنے ، بھن جانے اور اس کے دردو تکلیف کو بر داشت کرنے کے معنی میں ہے ۔اور اس بناپر ،کہ فعل مضارع ہے، استمرار پر دلالت کرتا ہے ،مزید تاکید کے لئے فرماتا ہے
” وہ اس آ گ سے کبھی دور اور مفقود نہیں ہیں “ ( وما ھم عنھا بغائبین )۔ بہت سے مفسرین نے اس جملہ کو فجار پرجو عذاب ہوگا اس کے جاوداں ہونے کی دلیل کے طور پر لیا ہے اور اس طرح نتیجہ نکالا ہے کہ فجا رسے مراد ان آیات میںکفار ہیں ، اس لئے کہ خلود اور ہمیشگی ان کے مورد کے علاوہ وجود نہیں رکھتی ۔ اس آیت کی تعبیر زمانہ حال کی شکل میں اس چیز کی مزید تاکید ہے جس کی طرف پہلے اشارہ ہو چکا ہے کہ اس قسم کے افراد دنیا میں بھی کلی طور پر جہنم سے دور نہیں ہیں ۔ ان کی زندگی خود دوزخ ہے ۔ اور مشہور حدیث کے مطابق ان کی قبر جہنم کے گڑھوں میں سے ایک گڑھاہے اور اس طرح دنیا کی دوزخ اور بر زخ کی دوزخ اور قیامت کی دوزخ تینوں ان کے لئے موجود ہیں ۔
مندرجہ بالا ضمنی طور پر اس حقیقت کو بھی بیان کرتی ہے کہ دوزخیوں کے عذاب میں کسی قسم کا وقفہ نہیں ہے ، یہاں تک کہ ایک لمحہ کا وقفہ بھی نہیں ہوگا ۔
اس کے بعد اس عظیم دن کی عظمت کو بیان کرنے کے لئے کہتا ہے : ” توکیا جانے کہ روز جزا کیاہے “( وما ادراک مایوم الدین
”پھر تو کیا جانے کہ روز جز ا کیا ہے “۔( ثم ماادراک مایوم الدین
جب پیغمبر اسلام  قیامت کے بارے میں اس وسیع آگاہی اور علم کے باوجود اس پر حکومت کرنے والے حوادث، اضطراب اور عظیم وحشت کو اچھی طرح نہیں جانتے تو باقی کامعاملہ واضح ہے ۔
یہ گفتگو اس حقیقت کو بیان کرتی ہے کہ قیامت کے ہولناک حوادث اس قدر وسیع و عظیم ہیں کہ جو قالبِ بیان میں نہیں سما سکتے اور جس طرح ہم عالم خاک کے اسیر جنت کی بے نمایا نعمتوں سے اچھی طرح آگاہ نہیں ہیں جہنم کے عذاب اور اس کے حوادث سے کس طرح آگاہ ہو سکتے ہیں۔
اس کے بعد ایک مختصر اور پر معنی جملہ میں اس دن کی ایک اور خصوصیت جس میں در حقیقت تمام چیزیں چھپی ہو ئی ہیں پیش کرتے ہوئے فرماتاہے :
” وہی دن جس دن کوئی شخص کسی دوسر کے حق میں کوئی کام انجام نہیں دے سکے گا اور اس دن تمام امور خدا سے مختص ہیں “ ( یوم لاتملک نفس لنفس شیئا و الامر یومئذ للہ )
کام تو اس جہان میں بھی سب اسی کے دست قدرت میں ہیں اور سب لوگ اسی کے نیاز مند ہیں لیکن پھر بھی یہاں کبھی کبھی بہرحال مجازی مالک و حاکم اور فرماں روا موجود ہیں جن میں سطحی نگاہ رکھنے والے افراد مستقل مبدا۔ قدرت خیال کرتے ہیں لیکن اس دن یہ مجازی مالکیت و حاکیمیت بھی ختم ہو جائے گی اور خدا کی حاکمیت ِ مطلقہ ہر زمانہ کی بہ نسبت زیادہ واضح ہوگی ۔
یہ چیز قرآن کی دوسری آیتوں میں بھی آئی ہے ( لمن الملک الیوم للہ الواحد القھار) ۔ ” آج کے د ن حکومت کس کے لئے ہے غالب و یکتا خدا کے لئے ہے “۔ ( مومن ۔۱۶)۔
اصولی طور پر اس دن ہر شخص اس قدر اپنے آپ میں گرفتا ر ہو گا کہ اگر بالفرض اس میں قوت ہو تی بھی تب بھی دوسروں کی طرف متوجہ نہیں ہوتا ۔ ( لکل امریء منھم یومئذ شاٴن یغنیہ)۔
اس دن ان میں سے ہر ایک اس طرح مبتلا ہو گا جو ا س کے لئے کافی ہوگا ۔ ( عبس ۔ ۳۷)۔
ایک حدیث میں امام محمد باقر علیہ السلام سے مروی ہے :
( ان الامر یومئذ و الیوم کلمہ اللہ  اذاکان یوم القیامة بادت الحکام فلم یبق حاکم الا اللہ )
” اور آج اس دن تمام کام اللہ کے اختیار میں ہیں لیکن جب قیامت کا دن ہوگا تو تمام حاکم تباہ و بر باد ہو جائیں گے اور خدا کی حکومت کے علاوہ کوئی حکومت باقی نہیں رہے گی ۔ ۱
یہاں ایک سوال سامنے آتاہے کہ کیا یہ تعبیرانبیاء ، اولیاء اور فرشتوں کی شفاعت کے سلسلہ سے متصادم نہیں ہے ۔ اس سوال کا جواب ان مباحث سے جو ہم مسئلہ شفاعت کے سلسلہ میں تحریر کرچکے ہیں واضح ہو جاتاہے اور وہ یہ کہ قرآن مجید متعدد آیات میں تصریح کرچکا ہے کہ شفاعت خدا کے اذن اور اجازت سے ہو گی اور روز جزا کے شفیع اس کے رضا کے بغیر کسی کی شفاعت نہیں کریں گے ۔
( ولا یشفعون الا لمن ارتضیٰ ) ( انبیاء ۔ ۲۸)۔
خدا وند ا ! اس ہولناک دن کے بارے میں سب کی نظریں تیری طرف لگی ہوئی ہیں ۔ ہم ابھی سے تیری طرف نظریں لگائے ہوئے ہیں ۔
پروردگارا! ہمیں اس جہان میں اور اس جہان میں اپنے بے پایاں لطف و کرم سے محروم نہ کیجو ۔
ببار الہٰا ! ہرحالت میں حاکم مطلق تو ہے ہمیں وادی شرک میں محشور ہونے سے بچا لے اور دوسروں کی پناہ لینے سے محفوظ رکھ ۔
آمین یا رب العالمین
سورہٴ انفطار کا اختتام


1۔ مجمع البیان ، جلد ۱۰، ص۴۵۰۔
ثبت اعمال کے مامورین سورہ مطففین
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma