ان تمام نعمتوں کے شکرانے میں جو خدا نے تجھے دی ہیں

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونه جلد 27
انقطاع وحی کا فلسفہ ۱۔ مصائب و آرام کے درمیان سے مبعوث ہونے والا پیغمبر

جیسا کہ ہم بیان کرچکے ہیں اس سورہ میں ہدف اور مقصد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تسلی و دلداری اور آنحضرت کے لئے الطاف الہٰی کابیان ہے ۔ لہٰذا گزشتہ آیات کو جاری کرتے ہوئے ، جن میں اس مطلب کو بیان کیا گیا تھا، زیر بحث آیات میں پہلے تو پیغمبر ِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر خدا کی تین خاص نعمتوں کا ذکر کرتا ہے ، اور اس کے بعد انہیں سے مربوط تین اہم حکم انہیں دیتاہے۔
فرماتا ہے : کیا خدا نے نے تجھے یتیم نہیں پایا تو تجھے اس نے پناہ دی ؟ ( الم یجد ک یتیماً فاٰوٰی
تو ابھی شکم مادر ہی میں تھا کہ تیرا باپ اس دنیا سے چل بسا ، تو میں نے تجھے تیرے جد عبد المطلب  ( سردارِکہ) کی آغوش میں میں پرورش کرائی۔
توچھ سالکا تھا تیری ماں دنیا سے چل بسی اور اس لحاظ سے بھی تو اکیلا رہ گیا ، لیکن ہم نے تیرے عشق و محبت کو ” عبد المطلب “ کے دل میں زیادہ کردیا۔
تو آٹھ سال کاہوا تو تیرا دادا ” عبد المطلب“ بھی دنیا سے رخصت ہو گیا “، تو ہم نے تیرے چچا ” ابو طالب  “ کو تیری خدمت و حمایت کے لئے مقرر کردیا ، تاکہ تجھے جانِ شیریں کی طرح رکھے اور تیری حفاظت کرے۔
ہاں! تو یتیم تھا اور میں نے تجھے پناہ دی۔
بعض مفسرین نے اس آیت کے کچھ اوردوسرے معنی بیان کئے ہیں جو اس کے ظاہر کے ساتھ ساز گار نہیں ، منجملہ ان کے یہ ہے کہ یتیم سے مراد وہ شخص ہے جو شرافت و فضیلت میں اپنامثل ونظیر نہ رکھتا ہو، جیساکہ بے نظیر موتی کو” در یتیم “ کہتے ہیں ، لہٰذا اس جملہ کامعنی یہ ہوگا کہ خدا نے تجھے شرافت و فضیلت میں بے نظیرپایا ۔ اس لئے تجھے انتخاب کیا اور مقامِ نبوت بخشا۔ دوسرا یہ کہ تو خود ایک دن یتیم تھا لیکن آخر کار تویتیموں کو پناہ گاہ اور انسانوں کا رہبر ہو گیا ۔
اس میں شک نہیں کہ پہلا معنی ہر لحاظ سے زیادہ مناسب ہے اور ظاہر آیت کے ساتھ زیادہ ہم آہنگ ہے ۔
اس کے بعد دوسری نعمت کو بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے : ” اور تجھے گمشدہ پایاتو تیری راہنمائی کی “۔ ( ووجدک ضا لاًّ فھدٰی)
ہاں ! تو ہر گز نبوت و رسالت سے آگاہ نہیں تھا ، اور ہم نے یہ نور تیرے دل میں ڈالا ، تاکہ تو اس کے ذریعہ انسانوں کو ہدایت کرے،جیسا کہ ایک دوسری جگہ فرماتاہے :” ماکنت ماالکتاب و لا الایمان و لٰکن جعلناہ نوراً نھدی بہ من نشاء من عبادنا: ”نہ توتو کتاب ہی کو جانتاہے اورنہ ہی ایمان کو“ ( یعنی نزول وحی سے پہلے تواسلام و قرآن کے مطالب سے آگاہ نہیں تھا ) لیکن ہم نے اس کو ایک ایسا نور قرار دیا ہے کہ جس کے ذریعے ہم اپنے بندوں میں جسے چاہیں ہدایت کرتے ہیں“ ( شورٰ۔ ۵۲)
یہ بات واضح ہے کہ پیغمبر  کے پاس مقام نبوت و رسالت تک پہنچنے سے پہلے یہ الٰہی فیض نہیں تھا ۔ خدا نے آپ کا ہاتھ پکڑ کر ہدایت فرمائی اور اس مقام تک پہنچا دیا ، جیساکہ سورہٴ یوسف کی آیہ ۳ میں آیا ہے : نحن نقص علیک احسن القصص بما اوحینا الیک القراٰن و ان کنت من قبلہ لمن الغافلین:” ہم نے قرآن کی وحی کے ذریعہ ایک بہترین داستان تیرے لئے بیان کی ہے ، اگر تو اس سے پہلے اس سے آگاہ نہیں تھا ۔
یقینا اگر ہدایت الہٰی اور غیبی امدادیں پیغمبر کے ہاتھ کو نہ پکڑتیں تو وہ ہر گز منزلِ مقصود کا راستہ نہ پاتے۔
اس بناء پریہاں ” جلالت“ سے مراد ایمان ، توحید، پاکیزگی اور تقویٰ کی نفی نہیں ہے ، بلکہ ان آیات کے قرینہ سے جن کی طرف اوپر اشارہ ہواہے، اسرارِ نبوت اور قوانینِ اسلام سے آگاہی کی نفی ، اور ان حقائق سے عدم آشنائی تھی، جیسا کہ بہت سے مفسرین نے کہا ہے لیکن بعثت کے بعد پروردگار کی مدد سے ان تمام امور سے واقف ہو گئے اور ہدایت پائی، ( غور کیجئے)۔
سورہ بقرہ کی آیہ ۲۸۲ میں قرضوں کی سند لکھنے کے مسئلہ میں متعدد گواہوں کے فلسفہ کو ذکر کرتے وقت فرماتا ہے : ” ان تضل احداھما فتذکر احدھما الاخرٰی :”یہ اس بناء پر ہے کہ اگر ان دونوں میں سے ایک گمراہ ہو جائے اور بھول جائے تو دوسرا ،اسے یاد دلادے“۔
اس آیت میں ” ضلالت“ صرف صرف بھول جانے کے معنی میں ہے ” فتذکر“ کے جملہ کے قرینہ سے ۔
یہاں اس آیت کے لئے اور بھی کئی تفاسیربیان ہوئی ہیں ، منجملہ ان کے یہ کہ اس سے مراد یہ ہے کہ تو بے نام و نشان تھا ، خدا نے تجھے اس قدر بے نظیر نعمتیں عطا کیںکہ تو ہر جگہ پہچانا جانے لگا۔
ہاں ا س سے مراد یہ ہے کہ تو اپنے بچپنے میں کئی مرتبہ گم ہوا۔ ( ایک دفعہ مکہ کے درّوں میں جب کہ تو عبد المطلب کی پناہ میں تھا، اور دوسری مرتبہ اس وقت جب تیری رضاعی ماں” حلیمہ سعدیہ“ دودھ پلانے کی مدت کے اختتام پر تجھے مکہ کی طرف لا رہی تھی تاکہ تجھے عبد المطلب کے سپرد کردے تو تو راستہ میں گم ہوگیا ، اور تیسری مرتبہ اس وقت جب تو اپنے چچا ابو طالب  کے ساتھ اس قافلہ میں جو شام کی طرف جا رہاتھا ،ایک تاریک اور اندھیری رات میں گم ہو گیا تھا ) اور خدا نے ان تمام موارد میں تیری راہمنائی کی اور تجھے تیرے جد یا چچا کی محبت بھری آغوش میں تک پہنچا دیا۔
قابل توجہ بات یہ ہے کہ ” ضال“ لغت کے لحاظ سے دو معنی کے لئے آیاہے :۱۔” گم شدہ “ ۲۔ ”گم راہ“مثلاً کہاجاتا ہے کہ : الحکمة ضالة الموٴمن: حکمت و دانش مومن کی گم شدہ چیز ہے “۔
اور اسی مناسبت سے مخفی اور غائب کے معنی میں بھی آیاہے جیساکہ سورہٴ سجدہ کی آیہ ۱۰ میںآیا ہے : منکران معاد کہاکرتے تھے :
ءَ اذا ضللنا فی الارض ءَ اناّ لفی خلق جدید:کہ جب ہم زمین میں پنہاں اور غائب ہو جائیں گے تو پھر نئی خلقت اختیار کریں گے“؟۔
اگر زیر بحث آیت میں ” ضال“ گم شدہ کے معنی میں ہو تو پھر کوئی مشکل پیش نہیں آتی ، ( یعنی تو گمشدہ تھا ،لوگ تیری عظمت و شرافت سے ناواقف تھے، پس ہم نے انہیں تیری طرف ہدایت کی ، ( مترجم )
اور اگر یہ ” گمراہ کے معنی میں ہوتو اس مراد بعثت سے پہلے راہ نبوت و رسالت تک دسترس نہ رکھتا ہو گا، یا دوسرے لفظوںمیں پیغمبر اپنی ذات میں کوئی چیز نہیں رکھتے تھے، جو کچھ تھا وہ خدا کی طرف سے تھا، اس بناء پر دونوں ہی صورتوں میں کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی۔
اس کے بعد تیسری نعمت کو پیش کرتے ہوئے فرماتا ہے : خدا نے تجھے فقیر یا غنی و بے نیاز کردیا “۔ ( ووجدک عائلاً فاغنیٰ)۔ ۱
جناب ”خدیجہ ۻ “جیسی مخلص و باوفا خاتون کی توجہ تیری طرف مبذول کی ، تاکہ وہ اپنی عظیم ثروت و دولت کو تیرے اختیار میں دے دے اور تیرے عظیم اہداف و مقاصد کے لئے وقف کردے ، اور اسلام کے غلبہ کے بعد جنگوں میں بکثرت مال ہائے غنیمت تجھے عطا کئے ، اس طرح سے کہ تو اپنے عظیم مقاصد تک پہنچنے کے لئے بے نیاز ہوگیا ۔
ایک روایت میںامام علی بن موسیٰ رضا علیہ السلام سے آیا ہے کہ آپ نے ان آیات کی تفسیر میں اس طرح فرمایا :
الم یجدک یتیماً فاٰوٰی قال: فرداً لا مثل لک فی المخلوقین، فاٰوٰی الناس الیل، ووجد ک ضالاً ای ضا لة فی قوم لایعرفون فضلک فھداھم الیک، ووجدک عائلاًتعول اقواماً بالعلم فاغناھم بک:“
” کیا ہم نے تجھے اپنی مخلوق کے اندر یتیم یعنی بے نظیرفرد نہیں پایا تو ہم نے لوگوں کو تیری پناہ میں دے دیا ، اور تجھے اپنی قوم کے درمیان گمشدہ اور نا پہچانا ہوا پایا ، جو تیرے مقامِ فضل کو نہیں پہچانتے تھے ، تو خدا نے انہیں تیری طرف ہدایت کی اور تجھے علم و دانش میں اقوامِ عالم کا سر پرست قرار دیا اورا نہیں تیرے ذریعے بے نیاز کردیا۔ 2
البتہ یہ حدیث آپ کے بطون کو بیان کرتی ہے ورنہ آیت کا ظاہر وہی ہے ، جو اوپربیان کیا گیا ۔
لیکن یہ تصور نہیں ہونا چاہئیے کہ یہ امور جو آیت کے آخر میں بیان ہوئے ہیں ۔ پیغمبر کے مقامِ بلندمیں کمی اورنقص کا سبب ہیں ، یا آپ کے بارے میں پر وردگار کی طرف سے منفی تو صیف ہے۔ بلکہ یہ تو حقیقت میں الطاف الٰہی اور اس عظیم پیغمبر کے بارے میں اس کے اکرام و احترام کابیان ہے ، جب محبوب دلباختہ عاشق کے بارے میں اپنے لطف و کرم کی بات کرتا ہے تو یہ خود ایک لطف و کرم کی بات کرتاہے تو یہ خود ایک لطف و محبت ہے اور اس کے لطف خاص کی دلیل ہے اور اسی بناء پرمحبوب کی طرف سے ان الفاظ کی سننے سے اس کی روح تازہ ہوجاتی ہے، اور ان کی جان میں صفا پید اہوتی ہے ، اور اس کے دل کو آرام و سکون حاصل ہو تاہے ۔
بعد والی آیات میں گزشتہ آیات کا نتیجہ نکالتے ہوئے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو تین احکام دیتی ہے، اگر چہ ان میں مخاطب رسول اللہ کی ذات گرامی ہے، لیکن یقیناً وہ سب کو شامل ہیں، پہلے فرماتا ہے ، : جب معاملہ یہ ہے کہ تو پھر یتیم کی تحقیر و تذلیل نہ کر“ ( فاما الیتیم فلاتقھر
تقھر“ ” قھر“کے مادہ سے ” مفردات“میں ” راغب“ کے قول کے مطابق ، اس غلبہ کے معنی میں ہے جس کے ساتھ تحقیر ہو، لیکن ان دومعانی میں سے ہر ایک کے لئے علٰیحدہ بھی استعمال ہوتا ہے، اور یہاں مناسب وہی ” تحقیر“ ہی ہے ۔ یہ چیز اس بات کی نشا دہی کرتی ہے کہ یتیموں کے بارے میں اگر چہ اطعام و انفاق کا مسئلہ بھی اہم ہے لیکن اسے سے بھی زیادہ اہم دل جوئی و نوازش اور شفقت کی کمی کو رفع کرنا ہے۔ اسی لئے ایک مشہور حدیث میں آیاہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
من مسح علی راٴس یتیم کان لہ بکل شعرہ تمر علی یدہ نور یوم القیامة“۔
” جو شخص نوازش و مہر بانی کے ساتھ یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرے تو ہر بال کی تعداد کے مطابق جس پر اس کا ہاتھ پھرے گا قیامت میں ایک نور ہو گا“۔ 3
گویا پیغمبر سے فرماتاہے : توخودبھی یتیم تھا ، اور تونے بھی یتیمی کا رنج اور تکلیف اٹھائی ہے ، تو اب تو دل و جان سے یتیموں کی نگہبانی کر ، اور ان کی پیاسی روح کو محبت کے ساتھ سیراب کر۔
اور بعد والی آیت میں دوسرے حکم کو پیش کرتے ہوئے فرماتا ہے :
” اور سوال کرنے والے کو نہ دھتکار“ ( و اما السائل فلاتنھر
لا تنھر“ ”نھر“کے مادہ سے سختی کے ساتھ دھتکار نے“ کے معنی میں ہے ۔ اور بعید نہیں ہے کہ اس کی اصل” نھر“ ہو اور جاری پانی کو نہر کے معنی کے ساتھ ایک ہو ، کیونکہ وہ بھی پانی کی شدت کے ساتھ دھکیلتی ہے ۔
اس بارے میں کہ یہاں” سائل “ سے کون مراد ہے ؟ چند تفسیریں موجود ہیں، پہلی یہ کہ اس سے ایسے افراد مراد ہیں جو علمی، اعتقادی اور دینی مسائل میں سوالات رکھتے ہیں ، اور قرینہ ا س کا یہ ہے کہ یہ حکم اس چیز پر جو گزشتہ آیات میں آیاہے متفرع ہے، ” ووجدک ضالا فھدٰی“ خدا نے تجھے گم شدہ پایا تو تجھے ہدایت کی ، پس اس ہدایتِ الٰہی کے شکرانے کے طور پر ہدایت کے نیاز مندوں کے لئے کوشاں راہ، اور اس کسی ہدایت کا تقاضا کرنے والے کو اپنے پاس سے نہ دھتکار۔
دوسری تفسیر یہ ہے کہ اس سے مراد ایسے لوگ ہیں جو مادہ لحاظ سے فقیر ہیں اور وہ تیرے پاس آتے ہیں ، توجتنی تجھ میں طاقت ہے اس کے مطابق عمل کر اور انہیں مایوس نہ کر اور اپنے پاس سے نہ دھتکار ۔
تیسری تفسیر یہ ہے کہ یہ فقرِ علمی اور فقرِ مادی دونوں کو بیان کررہی ہے ، اور اس کا حکم یہ ہے کہ ہر قسم کا سوال کرنے والے کو مثبت جواب دے ، یہ معنی پیغمبر کے لئے خدا کی ہدایت کے ساتھ بھی مناسبت رکھتا ہے ، اور ان کی یتیمی کے زمانے میں ان کی سر پرستی سے بھی مناسبت رکھتا ہے۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ بعض مفسرین نے یہ ثابت کرنے کے لئے کہ سائل سے مراد یہاں صرف علمی مسائل کے بارے میں سوال کرنے والا ہے ، کہا ہے کہ ” سائل کی تعبیر قرآن مجید میں ہر گز مالی تقاضا کرنے والوں کے لئے نہیں آئی۔ 4
حالانکہ یہ قرآن میں بارہا اس معنی میں استعمال ہوا ہے ، چنانچہ سورہ ذاریات کی آیہ ۱۹ میں آیا ہے: و فی اموالھم حق للسائل و المحروم:”ان کے مالوں میں سائل اور محروم کے لئے حق ہے اور یہی معنی سورہ معارج کی آیہ ۲۵ اور سورہ بقرہ آیہ ۱۷۷ میں بھی آیاہے۔
اور آخر میں تیسرے اور آخری حکم میں فرماتا ہے : اور باقی رہیں تیرے پروردگار کی نعمتیں تو توان کو بیان کر“ ( و اما بنعمة ربک فحدث
نعمت کوبیان کرنا کبھی تو زبان سے ہوتا ہے اور ایسی تعبیروں سے جو انتہائی شکر و سپاس کی ترجمان ہوتی ہیں ، نہ کہ غرور و تکبر اور برتری کے خیال سے، اور کبھی عمل سے بھی ہوتا ہے اس طرح کے اس سے راہ ِ خدا میں انفاق وبخشش کرے، ایسی بخشش جو اس بات کی نشان دہی ہوکہ خدا نے اسے فرواں نعمت عطا کی ہے ۔
یہ سخی اور کریم لوگوں کی سنت ہے کہ انہیں کو ئی نعمت ملتی ہے تو وہ اسے بیان کرتے ہیں اور خد اکا شکر بجا لاتے ہیں ۔
اور ان کا عمل بھی اس حقیقت کی تائید و تاکید کرتا ہے ، پست ہمت بخیلوں کے بر عکس جو ہمیشہ نالہ و فریاد کرتے ہیں ، اور اگر ساری دنیا بھی انہیں دے دیں تو بھی نعمتوں پر پردہ پوشی ہی کرتے رہتے ہیں ۔ ان کاچہرہ فقیرانہ اور ان کی باتیںآہ و زاری کے ساتھ، اور ان کا عمل بھی فقر و فاقہ کو بیان کرنے والا ہوتاہے ۔
یہ اس حالت میں ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نقل ہواہے کہ آپ نے فرمایا :
انّ اللہ تعالیٰ انعم علی عبدہ نعمة یحب ان یری اثر النعمة علیہ
” خدا وند عالم جب کسی بندہ کو کوئی نعمت دیتا ہے ، تو وہ اس بات کو دوست رکھتا ہے کہ اس پر نعمت کے آثار دیکھے“5
اس بناء پر آیت کا ماحصل اس طرح ہے : اس بات کے شکرانے میں کہ تو فقیر تھا اور خدا نے تجھے بےاز کیا ہے ، تو بھی نعمت کے آثارکو آشکار، اور گفتار و عمل سے اس خدائی نعمت کو بیان کر۔
لیکن بعض مفسرین نے کہا ہے کہ یہاں ” نعمت“ سے مراد صرف معنوی نعمتیں ہیں، منجملہ انکے نبوت یا قرآن مجید ہے کہ پیغمبر ا سکی تبلیغ کے ذمہ دار تھے، اور نعمت کوبیان کرنے سے مراد یہی ہے ۔
یہ احتمال بھی ہے کہ یہ تمام مادی و معنوی نعمتوں کو شامل ہو۔
لہٰذا ایک حدیث میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے آیاہے کہ آپ نے فرمایا : کہ آیت کا معنی اس طرح ہے :
حدث بما اعطاک اللہ ، وفضلک ، و رزقک،و احسن الیک وھداک:
” جو کچھ خدا نے تجھے بخشا ہے، برتری دی ہے ، روزی عطا کی ہے، اور تیرے ساتھ نیکی اور احسان کیا ہے اور تجھے ہدایت کی ہے ، ان سب کو بیان کر“ 6
اور بالآخرہ ایک اور حدیث میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ایک دستور کلی کے عنوان سے آیا ہے :
من اعطی خیراً فلم یر علیہ، سمی یغیض اللہ معادیاً لنعم اللہ
” جس شخص کو کوئی خیر و نعمت دی جائے ، لیکن اس کی شخصیت میں اس کے آثار نظر آئیں تو اسے خد اکا دشمن اور ا س کی نعمتوں کا مخالف شمار کرنا چاہئیے۔ 7
ہم اس گفتگو کو امیر المومنین  کی ایک دوسری حدیث کے ساتھ ختم کرتے ہیں ، آپ  نے فرمایا:
انّ اللہ جمیل یحب الجمال ، و یحب ان یری اثر النعمة علی عبدہ“۔
” خدا جمیل ہے اور وہ جمال و زیبائی کو دوست رکھتا ہے ، اور اسی طرح سے وہ اس بات کو دوست رکھتا ہے کہ اپنے بندے پر نعمت کے آثار دیکھے“۔ 8



۱۔”عائل“ اصل میں عیال دار شخص کے منعی میں ہے ، چاہے وہ غنی و توانگر ہو ، لیکن یہ لفظ فقیر کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے ۔ اور زیر بحث آیت میں اسی معنی کی طرف اشارہ ہے ۔ ” راغب“ کے کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر” عال“ اجوف یائی ہو تو فقیر کے معنی میں ہے ، اور اجوف واوی ہو تو کثیر العیال کے معنی میں ہوتاہے ، (لیکن ان دونوں کالازم و ملزوم ہونا بعید نہیں ہے )۔
2۔ ” مجمع البیان “ جلدا۱۰ ، ص۵۰۶۔
3۔ ” جمع البیان “ جلد۱۰ ،ص۵۰۶۔
4۔ ” تفسیرعبدہ، جزء عم ،ص۱۱۳۔
5۔ ” نہج الفصاحة“ حدیث۶۸۳۔
6۔ ” مجمع البیان “ جلد ۱۰ ص۵۰۷۔
7۔ ” تفسیر قرطبی“ جلد ۱۰ص ۷۱۹۲ ، اسی معنی کے قریب قریب کافی جلد ۶۔ کتاب الذی و التجمل حدیث ۲ میں بھی آیاہے۔
8۔ فروع کافی جلد۶ ص ۴۳۸ حدیث۔
انقطاع وحی کا فلسفہ ۱۔ مصائب و آرام کے درمیان سے مبعوث ہونے والا پیغمبر
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma