سورہٴ و اللیل کے شانِ نزول کے بارے میں ایک بات

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونه جلد 27
انفاق اور جہنم کی آگ سے دوری۲۔ انفاق فی سبیل اللہ کی فضیلت

فخر رازی : ” مفسرین اہل سنت عموماً یہ نظر یہ رکھتے ہیں کہ ” سیجنبھا الاتقی“ میں ” اتقی“ سے مراد حضرت ابو بکر ۻہیں ، اور شیعہ عام طور پر اس بات کا انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے ۔ ۱
اس کے بعد وہ اپنے مخصوص انداز میں تجزیہ کرتے ہوئے اس طرح کہتاہے : امتِ اسلامی ( عام اس سے کہ اہل سنت ہوں یا شیعہ )ٌ اس چیز پر اتفاق رکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد افضل ترین شخص یا ابو بکر ۻہے یا علی، اور علی علیہ السلام پرمنطبق نہیںکیا جا سکتا ، کیونکہ قرآن اس فرد اتقیٰ کے بارے میں کہتا ہے :وما لاحد عندہ من نعمة تجزٰی کوئی شخص اس پر کوئی حق نہیں اور احسان نہیں رکھتا ، کہ جس کی جزا دی جائے اور یہ صفت علی علیہ السلام پر تطبیق نہیں کرتی کیونکہ پیغمبر ان پر حقِ نعمت رکھتے تھے ، لیکن پیغمبر اکرام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نہ صرف یہ کہ ابو بکر ۻ پر کوئی مادی حق نعمت نہیں رکھتے تھے ، بلکہ اس کے بر عکس وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر انفاق کرتے تھے اور حقِ نعمت رکھتے تھے !
اس کا نتیجہ یہ بنتا ہے کہ ” اتقیٰ“ کامصداق ابو بکر ۻہے ، اور چونکہ اتقیٰ کا معنی سب لوگوں سے زیادہ پر ہیز گار ہے ،لہٰذا اس کی افضلیت ثابت ہے ۔ 2
اگر چہ ہم ا س تفسیر کے مباحث میں ، اس قسم کے مسائل میں وارد ہونے کی طرف زیادہ مائل نہیں ہیں لیکن بعض مفسرین کااپنے پہلے سے کئے ہوئے فیصلہ کو قرآن کی آیات کے ذریعے ثابت کرنے پر اصرار اس حدتک پہنچ گیا ہے کہ وہ ایسی تعبیریں کرنے لگے ہیں جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مرتبہ ، اور بلند مقام کے لائق نہیں ہے ۔ لہٰذا اسی سبب سے ہم بھی یہاں چند نکات کاذکر کرتے ہیں ۔
اولاً : یہ جوفخررازی کہتاہے کہ اہل سنت کا اس پر اجماع و اتفاق ہے کہ یہ آیت ابو بکر ۻ کے بارے میں نازل ہوئی ہے ، لیکن اس چیز کے بر خلاف جسے اہل سنت کے مشہور و معروف مفسرین نے صراحت کے ساتھ نقل کیا ہے ، منجملہ ” قرطبی“ اپنی تفسیروں میں ابن عباس ۻ سے ایک روایت میں نقل کرتا ہے کہ یہ سارا سورہ ( سورہ ٴ للیل ) ” ابو الدحداح“ کی شان میں نازل ہوا ہے ۔ ( جس کی داستان ہم نے سورہ کے آغاز میں بیان کردی ہے )۔ 3
خاص طور پر جب وہ آیہ وسیجنبھا الاتقیٰپر پہنچتا ہے تو پھر دوبارہ کہتا ہے کہ اس سے مراد ” ابو الد حداح“ ہے اگر چہ اکثر مفسرین سے اس نے یہ بھی نقل کیا ہے کہ (ان کے نزدیک ) یہ ابو بکر ۻکے بارے میں نازل ہوئی ہے ، لیکن خود اس نے اس نظریہ کو قبول نہیں کیا۔
ثانیاً: جو اس نے کہاہے کہ شیعوں ک اس پر اتفاق ہے کہ یہ آیت علی علیہ السلام کے بارے میں نازل ہوئی ہے ، ٹھیک نہیں ہے ، کیونکہ بہت سے مفسرین نے وہی ابوالدحداح کی داستان ہی بیان کی ہے اور اسے قبول کیا ہے ۔ البتہ بعض روایات میں امام جعفر علیہ السلام سے نقل ہواہے کہ ” اتقی“ سے مراد ان کے پیرو کا ر اور شیعہ ہیں اور الذی یوٴتی مالہ یتزکّٰی سے مراد امیر المومنین علی علیہ السلام ،
لیکن ظاہر یہ ہے کہ یہ باتیں شانِ نزول کا پہلو نہیں رکھتیں ، بلکہ یہ واضح اور روشن مصداق کی تطبیق کی قبیل سے ہیں۔
ثالثاً: اس میں شک نہیں کہ اوپر والی آیت میںلفظ ” اتقی“ لوگوں میں سے زیادہ تقویٰ رکھنے والے کے معنی میں نہیں ہے، بلکہ اس مفہوم وہی متقی ہوناہے ، اور اس بات کاواضح گواہ یہ ہے کہ اس کے مقابلہ میں ” اشقی“ لوگوں میں سے بد بخت ترین کے معنی میں نہیں ہے ، بلکہ اس سے مراد وہ کا فر ہیں جو انفاق سے بخل کرتے تھے ۔ علاوہ ازیں یہ آیت اس وقت نازل ہوئی تھی جب کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ آلہ وسلم زندہ تھے ، تو کیا ابو بکر ۻ کو پیغمبر سے بھی مقدم رکھا جاسکتا ہے ؟ پہلے سے کئے ہوئے فیصلوں اور ذہنیتوں کی بناء پر ایسی تعبیر کیوں کریں جو پیغمبر تک کے مقامِ بلند کوبھی ضرب لگائیں ۔
اور اگر یہ کہاجائے کہ پیغمبر کامعاملہ الگ ہے ، تو پھر ہم کہتے ہیں کہ آیہ وماحد عند من نعمة تجزٰی میں ان کے معاملے کو کیوں الگ نہیں رکھا گیا اورعلی علیہ السلام کو آیت کے مورد سے خارج کرنے کے لئے کیوں کہاگیا کہ چونکہ وہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مادی نعمتوں کے مشمول ہیں لہٰذا وہ اس آیت میں داخل نہیں ہیں ۔
رابعاً: ایسا کونسا آدمی ہے جس سے اس کی زندگی میں کسی نے محبت کی ہی نہ ہو اور کسی نے بھی نہ اسے ہدیہ دیاہو نہ کبھی دعوت کی ہو۔ کیا واقعاً ایسا ہو اہے کہ ابو بکر ۻ اپنی ساری عمر میں نہ تو کسی کی مہمانی پرگئے اور نہ ہی کبھی کسی کا کوئی ہدیہ قبول کیا اور نہ ہی کوئی اور دوسری مادی خدمت کس سے قبول کی کیا یہ چیز باور کرنے کے لائق ہے ؟ نتیجہ یہ ہے کہ آیہ ومالا حد عندہ من نعمة تجزیٰسے مرادیہ نہیں ہے کہ کسی بھی شخص کااس پر کوئی حق نعمت ہے ہی نہیں ، بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ ان سے انفاق کرنا کسی حق نعمت کی بناء پر نہیں ہے ۔
یعنی اگر وہ کسی پر انفاق کرتے ہیں تو وہ صرف خدا کے لئے ہوتا ہے ، نہ کہ وہ کسی خدمت کی بناء پر اسے اجر و پاداش دینا چاہتے ہیں۔
خامساً: اس سورہ کی آیات اس بات کی نشان دہی کرتی ہیں کہ یہ سورہ ایک ایسے ماجرے کے بارے میں ، جس کے دو قطب ہیں، نازل ہوا ہے ، ایک ” اتقی“ کے قطب میں تھا اور دوسرا ” اشقی“ کے قطب میں ۔ اگر ہم ” ابو الدحداح“ کی داستان کو شانِ نزول سمجھیں تو مسئلہ حل شدہ ہے لیکن اگر ہم کہیں کہ مراد ابوبکر ۻ تھے تو ” اشقی“ کی مشکل باقی رہ جاتی ہے کہ اس سے مراد کون شخص ہے؟
شیعوں کو اس بات پر کوئی اصرار نہیں ہے کہ یہ آیت خصوصیت کے ساتھ علی علیہ السلام کے بارے میں ہے ۔ ان کی شان میں آیات بہت زیادہ ہیں ، لیکن اگر اس کی تطبیق علی  پرکی جائے تو” اشقی“ کی مشکل حل ہے، کیونکہ سورہ شمس کی آیہ ۱۲ ( اذانبعث اشقاھا) کے ذیل میں اہل سنت کے طرق سے کافی روایات نقل ہوئی ہیں کہ ” اشقی“ سے مراد علی بن ابی طالب  کا قاتل ہے ۔ (ان روایات کو ، جیسا کہ ہم نے بیان کیا ہے ، کہ حاکم حسکانی نے شواہد التنزیل میںجمع کیا ہے )۔
خلاصہ یہ ہے کہ فخر رازی کی گفتگواور اس آیت کے بارے میںاس کی تحلیل بہت ہی کمزور او ربہت سے اشتباہات پر مشتمل ہے ۔ اسی لئے اہل سنت کے بعض مشہور مفسرین مثلاً آلوسی تک نے بھی روح المعانی میں اس تجزیہ کو پسند نہیں کیا، اوراس پر اعتراض کیاہے ، جیسا کہ وہ کہتا ہے:
و استدل بذالک الامام علی انہ ( ابو بکر) افضل الامة و ذکر ان فی الاٰیات ما یاٴبی قول الشیعة انھافی علی و اٴطال الکلام فی ذالک و اٰتی بما لایخلو عن قبیل و قال :
” امام فخر رازی نے اس آیت سے یہ استدلال کیاہے کہ ابو بکرۻافضل امت ہیں ، اور مزید کہا ہے کہ آیات میں بعض قرائن ایسے ہیں جو شیعوں کے قول کے ساتھ ساز گار نہیں ہیں ۔ اور یہاں گفتگو کو طول دیا ہے اور ایسے مطالب بیان کئے ہیں جو قیل ( اور اشکال ) سے خالی نہیں ہیں ۔4


   

۱۔ ”تفسیر فخر رازی“جلد ۳۱، صفحہ ۲۰۴۔
2 ۔ تفسیر قرطبی“ جلد ص۷۱۸۰۔
3 ۔ تفسیر قرطبی“ جلد ص۷۱۸۰۔
4 ۔روح المعاج جلد ۳۰ ص ۱۵۳
انفاق اور جہنم کی آگ سے دوری۲۔ انفاق فی سبیل اللہ کی فضیلت
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma